ColumnImtiaz Aasi

عمران خان اور مقدمات

امتیا ز عاصی
وفاقی دارالحکومت کے آٹھ تھانوں میں سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کے خلاف دس نئے مقدمات درج ہوئے ہیں، جس سے یہ بات واضح ہو گئی ہے حکومت ہر حال میں عمران خان کو پابند سلاسل رکھنے کی خواہاں ہے۔ ان مقدمات کے قانونی پہلوئوں کا جائزہ لیا جائے تو ایک شخص جیل میں ہے اس کے خلاف پے درپے مقدمات کا اندراج ہو رہا ہے۔ قانون کی نظر میں جب کوئی جوڈیشل میں ہو گیا ہو اس کے خلاف کسی قسم کا مقدمہ درج نہیں ہو سکتا۔ حکومت نے اسلام آباد کے ڈی چوک میں پی ٹی آئی ورکرز کی ہلڑ بازی اور وفاقی پولیس کے کانسٹیبل کی ہلاکت کی ذمہ داری عمران خان پر ڈالی ہے۔ اس طرح کے مقدمات عدالتوں میں جاتے ہیں تو حکومت کو سبکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس سے قبل ہم اپنے کالم میں لکھ چکے ہیں پی ٹی آئی کا ایک ایسے وقت جب شنگھائی کانفرنس کے مندوبین کی آمد ہے اسلام آباد میں احتجاج کسی طور مناسب نہیں تھا۔ اگر ہم اس کے دوسرے پہلو پر نظر ڈالیں تو حکومت کی طرف سے پی ٹی آئی کو لاہور میں جلسہ کرنے کی اجازت دینے کے باوجود سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کرنے کا کیا مقصد تھا؟ راولپنڈی میں پی ٹی آئی کو جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی حکومت کے خوف کا یہ عالم ہے عمران خان کی پارٹی کو کہیں جلسہ نہیں کرنے دیا جا رہاہے۔ راولپنڈی میں جلسہ کی اجازت دی جاتی تو کون سا قیامت آجاتی بس پی ٹی آئی کا خوف کھائے جا رہا ہے۔ عمران خان کی مقبولیت پر کسی کو شک نہیں رہ گیا ہے۔ حقیقت میں حکومت اور اس کے سہولت کاروں نے پی ٹی آئی کو مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ انتخابات میں عوام کے مینڈیٹ کے ساتھ جو کچھ ہوا اسے دہرانے کی ضرورت نہیں پی ٹی آئی کے جلسوں میں عوام کا جوق در جوق آنا اسی سلسلے کی کڑی ہے ۔ عوام کے ووٹ کے ساتھ جو کھیل کھیلا گیا یہ اسی کا ردعمل ہے عوام پی ٹی آئی کے جلسوں اور احتجاج میں دیوانہ وار چلے آتے ہیں ورنہ عمران خان نے اپنے دور میں عوام کے لئے دودھ اور شہد کی نہریں تو نہیں بہائی تھیں۔ آئینی ترامیم لانے کا مقصد واضح ہو چکا ہے من پسند ججوں کی تقرری اور مرضی کے فیصلے لینے کی خواہش نے آئینی ترامیم کے سلسلے میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے ۔63اے کا فیصلہ آنے کے بعد حکومت کو امید لگی ہے وہ منحرف ارکان کے ووٹ سے آئینی ترامیم کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ باوجود اس کے حکومتی وزراء کی جے یو آئی کے امیر سے ملاقاتیں اس امر کی دلیل ہے حکومت کو آئینی ترامیم میں کامیابی کے آثار دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ آئینی مسودے میں شامل کی جانے والی ترامیم ہونے کی صورت میں عوام کسی قسم کے ریلیف کے لئے اعلیٰ عدالتوں سے رجوع نہیں کر سکیں گے نہ ہی قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی شہری کو اٹھا لیں تو عدالتیں حکومت سی باز پرس نہیں کر سکیں گی۔ گویا آئین میں شہریوں کو جو آزادی دے گئی ہے وہ سلب کرنے کی کوشش جاری ہے۔ ہم نے ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کا دور قریب سے دیکھا ہے جو حالات حکومت نے پیدا کئے ہیں حکومت کے خلاف عوامی نفرت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اسلام آباد پولیس اور پنجاب پولیس پر سالانہ اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں تعجب ہے وفاقی پولیس چند ہزار پی ٹی آئی ورکرز کو روکنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ پنجاب پولیس کا یہی حال ہے پی ٹی آئی کے احتجاج کو روکنے کے لئے فوج طلب کرنا پڑی ہے۔ بہادر افواج سرحدوں کی حفاظت کے لئے جانوں کے نذرانے پیش کر رہی ہے۔ افواج کی بہادر سپاہ کے ساتھ آئے روز فوجی افسران شہید ہو رہے ہیں۔ کیا پولیس کا کام صرف عوام سے مبینہ رشوت لینا رہ گیا ہے ؟ آئین میں حکومت کو ہنگامی حالات میں فوج کو بلانے کا اختیار حاصل ہے پی ٹی آئی کے احتجاج نے حکومت کو اتنا خوف زدہ کر دیا ہے اسے فوج بلانا پڑی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحب نے حکومت سے ٹھیک کہا ہے پی ٹی آئی کو احتجاج کرنے کے لئے کوئی جگہ متعین کر دی جائے تو حالات خراب نہیں ہو سکتے۔ حقیقت میں حکومت کے پس پردہ مقاصد کچھ اور ہیں وہ کسی طریقہ سے پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کی خواہاں ہے۔ وہ آئینی عدالت قائم کرکے ایسے کام کرانے کی خواہش مند ہے جس سے حکومت کے خلاف کوئی تنقید اور احتجاج کرنے والا نہ ہو اور اسے ہر کام کی کھلم کھلا آزادی مل جائے۔ تحریک تحفظ آئین کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے پی ٹی آئی کو احتجاج کا دائرہ وسیع کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ چنانچہ اسی تناظر میں احتجاج کا سلسلہ بلوچستان میں شروع کیا جا رہا ہے اس مقصد کے لئے پہلا احتجاجی جلسہ قلعہ سیف اللہ میں کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پی ٹی
آئی جلسوں اور احتجاج سے عوام کو متحرک کر رہی ہے جس کا مقصد حکومت کے خلاف بھرپور تحریک چلانا ہے۔ درحقیقت اپوزیشن جماعتیں فارم 47کی پیداوار حکومت کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ جے یو آئی نے واضح طور پر نئے انتخابات کا مطالبہ کیا ہے۔ کئی ماہ گزرنے کے باوجود وفاقی حکومت ملک اور عوام کے لئے خاطر خواہ اقدامات کرنے میں ناکام رہی ہے۔ معاشی طور پر دوست ملکوں کی طرف سے کچھ ملا ہے وہ آرمی چیف سید عاصم منیر کی کاوشوں کا نتیجہ ہے ورنہ وزیراعظم ملکوں ملکوں دورے کرنے کے باوجود اس مقصد میں ناکام رہے ہیں۔ علی امین گنڈا پور کی بات کریں تو انہیں احتجاج کے دوران سرکاری وسائل استعمال نہیں کرنے چاہیں جلد یا با دیر انہیں اس سلسلے میں باز پرس کا سامنا کرنا پڑے گا لہذا وہ اپنی پارٹی کے جلسوں اور احتجاج میں ضرور شریک ہوں کہیں سرکاری وسائل ان کے گلے کی ہڈی نہ بن جائیں۔ عمران خان جیل میں رہتے ہوئے اس لحاظ سے ایک نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں، ان کے خلاف مقدمات کی بھرمار ہو رہی ہے، وہ اتنے مضبوط اعصاب کا مالک ہیں کہ جیل میں رہنے کے باوجود کسی قسم کا سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں۔

جواب دیں

Back to top button