Columnمحمد مبشر انوار

ناگزیریت

تحریر : محمد مبشر انوار(ریاض )
میں اہم تھا ۔۔۔ یہی وہم تھا، میں بڑا اہم تھا۔۔۔ یہ میرا وہم تھا، زندگی کی تلخ ترین حقیقت، جس کا ادراک سب کو ہے مگر اس کے باوجود، اس کو تسلیم کرنے سے ہر وہ شخص جو بااختیار ہے، منکر ہے۔ اس کے نزدیک ، بس وہی ایک شخص ہے، جس نے یہ ساری دنیا اپنے کندھوں پر اٹھا رکھی ہے اور اگر وہ نہ ہو تو کرہ ارض کے تمام امور رک جائیں، دنیا ختم ہو جائے۔ درحقیقت ہر بااختیار شخص کی فطری سرشت میں شامل ہے کہ وہ اپنی ہر سوچ، ہر خواہش کو صائب تصور کرتا ہے، اس کی نظر میں جو اہلیت و قابلیت اس میں موجود ہے، نہ اس سے پہلے کسی پیشرو میں تھی اور نہ اس کے بعد آنے والے کسی میں ہوگی لہذا جب تک اس کی سانسیں بحال ہیں، اس کا اختیار قائم رہنا چاہئے۔ گو ہاتھ کو جنبش نہیں، آنکھوں میں تو دم ہے !۔۔ رہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے آگے، اسے خود پسندی و نرگسیت یا کچھ بھی نام دیں، اکثر و بیشتر ہمیں معاشرے میں ایسے مریض نظر آتے ہیں، جن کی خواہشات کے سامنے شہر جلائے جاتے ہیں کہ صاحب کا شوق سلامت رہے۔ دکھ تو اس بات کا ہوتا ہے کہ دین اسلام جہاں اس کی سرزنش کرتا ہے، وہیں بابائے قوم نے اس کا عملی مظاہرہ بھی کرکے اس قوم کو دکھا دیا کہ انہوں نے کس طرح اپنی ذات کو سمیٹ کر، منصب کے دائرہ کار تک محدود کیا اور بلاوجہ ریاستی امور، جہاں ان کا دائرہ کار نہیں تھا، میں ملوث نہیں ہوئے۔ دوسری طرف ان کے دنیا سے جاتے ہی، جو آپا دھاپی کے مناظر ریاست نے دیکھے اور جس طرح اقتدار کی غلام گردشوں میں رسہ کشی ہوئی، اس نے تمام اسلامی و جمہوری اصولوں کو گہنا دیا، دور آمریت تو خیر بذات خود عقل کل کا خبط رکھتا ہے تھا، یہاں جمہوری ادوار میں بھی عقل کل کا خبط رکھنے والے اقتدار تک جا پہنچے، اور جو حشر ریاست کا ہو چکا، اس کی تباہ کاریوں میں سول و آمر دونوں مساوی قصوروار ہیں۔ پاکستانی سیاسی تاریخ کی یہ تلخ ترین حقیقت پوری شرمناکی کے ساتھ اس کے ماتھے پر سجی ہے کہ معرض وجود میں آتے ہی، کس طرح اقتدار کی غلام گردشوں میں، ہوس اقتدار کے پجاری اقتدار پر قابض رہنے کے لئے کیا کیا جتن کرتے رہے، اس کی تفصیل سے تقریبا ہر پاکستانی بخوبی واقف ہے۔ تاہم 1985کے غیر جماعتی انتخابات نے جو نسل پروان چڑھائی ہے، اس کی ہوس اقتدار اس وقت اپنے عروج پر دکھائی دے رہی ہے کہ اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش نے آئین و قانون کو موم کی نام بنا دیا ہے اور جہاں حکمران جماعت کو خدشہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ آئین و قانون کے کسی آرٹیکل یا شق سے اقتدار ہاتھ سے نکل سکتا ہے، اسے فی الفور ڈنگ ٹپانے کے لئے تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ آئین و قانون کی بالا دستی کو یقینی بنانے کی بجائے کوشش یہ ہے کہ آئین و قانون کو زیر دست رکھ کر اپنے اقتدار کو دوام دیا جائے، خواہ اس کے لئے چند ماہ قبل بنائے ہوئے اپنے ہی قانون کو پھر سے تبدیل کرنا پڑے، کوئی مضائقہ نہیں۔ یہی صورتحال اس وقت بھی حکمران جماعت کو درپیش ہے اور اپنے اقتدار کو بچانے کے لئے عدلیہ کو عضو معطل بنانے کی جو کوششیں کی جارہی ہیں، وہ نہ صرف یہ کہ حکمران جماعت کی بدنیتی کو ظاہر کرتی ہیں بلکہ عالمی دنیا میں بھی مقننہ و عدلیہ کی جگ ہنسائی کا باعث بن رہی ہیں۔ پی ڈی ایم نے اپنے پہلے دور حکومت میں عدلیہ کو قابو کرنے کے لئے پریکٹس اینڈ پروسیجر بل متعارف کروایا، جس میں چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات کو محدود یا ان پر قدغن لگانے کے کوشش کرتے ہوئے، اپنے من پسند کہیں یا ہم خیال جسٹس کہیں ،کو بنچ بنانے کے اختیار میں حصہ دار بنایا تاکہ چیف جسٹس کو تنہا ایسے بنچ بنانے سے روکا جا سکے جو حکومتی خواہشات کے برعکس فیصلے دیں۔ البتہ یہ خواہش اس وقت دم توڑتی محسوس ہوئی جب موجودہ چیف جسٹس کے لئے کمیٹی میں ایسی بنچ بنانے کے لئے مشکلات سامنے آنا شروع ہوئی کہ جن سے حکمرانوں کی حسب منشا فیصلے متوقع نہیں تھے ۔ چیف جسٹس کے بنچ بنانے اور ذاتی مفادات کے حصول میں کئی گئی کاوشوں میں جانبداری بری طرح عیاں ہو گئی اور کمیٹی کے دیگر دو معزز جج صاحبان کے لئے، اس کا دفاع ممکن نہ رہا، تو ان کی مخالفت نے چیف جسٹس کے لئے مشکلات کھڑی کر دیں، یوں حکومت وقت کو ایک مرتبہ پھر پریکٹس اینڈ پروسیجر بل میں ترمیم لانا پڑی۔
موجودہ چیف جسٹس کے لئے ترمیم کے باوجود ہاتھ بندھے دکھائی دئیے کہ کل تک ان کا موقف یہ رہا تھا کہ جب تک عدالت عظمیٰ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر حتمی فیصلہ نہیں کرتی، وہ عدالتی کارروائی کا حصہ نہیں بنیں گے جبکہ آج ذاتی مفادات کے زیر اثر چیف جسٹس نے اپنے ہی موقف کو پرکاہ کی حیثیت نہیں دی اور ترمیم کے تحت فوری طور پر کمیٹی بنا کر، نئے بنچ بنا دئیے۔ متوقع چیف جسٹس، جن کی تعیناتی روکنے کے لئے تمام تر حربے بروئے کار لائے جا رہے ہیں، کہ آئینی نقاط سے بھرپور خط کا جواب چیف جسٹس نے جس طرح ذاتیات پر اتر کر دیا، کسی بھی طور آئینی ادارے کے سربراہ کو زیب نہیں دیتا، تاہم چیف جسٹس نے اس کو درخور اعتنا نہیں سمجھا اور اپنی کارروائی جاری رکھی۔ بعد ازاں تریسٹھ اے کی نظر ثانی اپیل پر جو نیا بینچ بنایا گیا، وہ بذات خود انتہائی متنازعہ شکل اختیار کر چکا ہے کہ اس میں ایڈہاک جج کی شمولیت، اسے جانبدار ثابت کرنے کے لئے کافی ہے گو کہ ایڈہاک جج کا مجوزہ فیصلے میں اختلافی نوٹ موجود تھا لیکن کیا یہ جواز ایڈہاک جج کے بینچ میں شمولیت کے لئے کافی ہو سکتا ہے؟ بالفرض اگر اس کو جواز تسلیم کر لیا جائے تو پھر اصل فیصلہ کرنے والے پانچ ججز کو ہی کیوں دوبارہ نظرثانی کے لئے بنچ میں شامل نہیں کیا جا سکتا کہ کسی بھی نظر ثانی کے لئے ضروری ہے کہ جس بینچ نے فیصلہ دیا ہو، وہی نظر ثانی کو سن سکتا ہے اور اگر وہ ججز موجود نہیں تو پھر کسی ایڈہاک جج کو اس میں شامل کرنے کا جواز کیسے بن سکتا ہے؟۔ یہاں یہ حقیقت واضح ہے کہ اس کے پس پردہ مقصد وہ آئینی ترامیم ہیں کہ جن کے باعث موجودہ چیف جسٹس کے لئے مدت ملازمت میں توسیع ممکن ہے یا نئی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کا عہدہ ان کا منتظر ہے، اس صورت میں اس نظرثانی کی حقیقت کیا ہو گی، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ دوسری طرف یہ عمل اس حقیقت کو بھی واضح کرتا ہے کہ بطور قوم ہماری بلوغت کا عمل ایک جگہ پر ہی جامد نظر آتا ہے کہ ہم مسلسل دائروں میں سفر کرر ہی ہیں، کل عدالت عظمیٰ ایک آئینی نقطے کی تشریح کرتی ہے اور آج عدالت عظمی اسی فیصلے کو ریورس کر دیتی ہے، جبکہ آنے والی عدالت عظمی سے پھر یہی توقع ہے کہ وہ اس نظر ثانی میں دوبارہ اصل فیصلے کو بحال کر دے گی۔ مستقل مزاجی کا عنصر من حیث القوم ہمارے مزاج سے غائب نظر آتا ہے اور بدقسمتی سے غیر جماعتی انتخابات کے نتیجہ میں منظر عام پر آنے والی تاجرانہ سوچ کی حامل سیاست نے، معاشرے میں نظریات کی بجائے ذاتی مفادات کو پروان چڑھایا ہے۔ جس کے مظاہر ایک طرف مخصوص سیاسی خاندانوں کا کاروبار میں اثر و رسوخ اور قبضہ ہے، جس نے عوام الناس میں مساوی حقوق کو غصب کر رکھا ہے تو دوسری طرف ظلم و ناانصافی کے ساتھ ہر بااختیار شخص کو یہ سوچ تفویض کر دی ہے کہ جب تک وہ حکمرانوں کے لئے کارآمد ہے، وہ اپنی حیثیت سے کسی بھی صورت الگ ہونے کا نہ سوچے، خواہ کسی دوسرے کی حق تلفی ہوتی ہے تو ہو جائے۔
عدالت عظمیٰ میں بیٹھے سترہ/انیس جج، 25کروڑ عوام میں سے وہ چند شخصیات ہیں، جنہیں اللہ رب العزت نے یہ مقام و مرتبہ عطا کیا ہے گو کہ اس میں ان کی اپنی ذاتی محنت، لگن اور مہارت بھی شامل ہے لیکن اس کے باوجود یہ خصوصی طور پر منتخب شخصیات ہیں، جو اپنے کردار و عمل سے تاریخ میں اپنے نام امر کروا سکتی ہیں بشرطیکہ اپنے منصب اور حلف سے وفا کریں۔ عدالتی تاریخ میں ایک طرف جسٹس کارنیلیس کا نام انتہائی معتبر گردانا جاتا ہے تو دوسری طرف جسٹس منیر کو آج بھی تاریخ میں ایک کمزور جج کے حیثیت سے یاد رکھا جاتا ہے، اسی طرح جسٹس سجاد علی شاہ کا نام دبنگ جج کی حیثیت سے یاد رکھا جاتا ہے تو جسٹس سعید الزمان صدیقی کا نام بھی اسی عدالتی تاریخ میں چھرا گھونپنے والے جسٹس کے طور پر لیا جاتا ہے۔ قدرت موقع ہر صاحب اختیار کو دیتی ہے کہ وہ جس طرح چاہے اپنا نام تاریخ میں رقم کروا لے البتہ صاحب اختیار پر ہے کہ وہ اپنے لئے کون سا راستہ اختیار کرتا ہے، بہرحال کسی منصب پر براجمان ہو کر، عزت کمائی جاتی ہے، پلیٹ میں رکھ کر نہیں ملتی، منصب دار کا پہلا فرض منصب کی حفاظت و توقیر کرنا ہے۔ اصول پرست و قانون پرست شخص منصب کے تقاضوں کو سمجھ کر منصب کو توقیر و شان عطا کرتا ہے، بے اصول شخص منصب سے توقیر چاہنے میں، خود بھی اور منصب کو بھی بے توقیر کرتا ہے، بدقسمتی سے اس وقت یہی چلن ہر شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں نظر آ رہا ہے۔ خود پسندی و نرگسیت میں مبتلا شخص کے نزدیک یہ انتہائی معمول کی بات ہے کہ وہ نظام و معاشرے کے لئے اپنی ذات کو ناگزیر خیال کرے جبکہ قبرستانوں میں ایسے بے شمار لاشے دفن ہیں جن کو یہ زعم تھا کہ وہ ناگزیر ہیں۔

جواب دیں

Back to top button