CM RizwanColumn

مسخ شدہ حقائق اور ہماری دانش

سی ایم رضوان
ہماری سیاسی دانش کا تماشا پچھلے 76سال سے اس طرح جاری ہے کہ ایک سیاسی گروہ ایک عرصے میں مجرم، غدار اور اسیر ہوتا ہے تو دوسرے عرصہ میں وہی گروہ ہمارا حاکم بن جاتا ہے۔ پھر وہی حاکم پس زنداں ہوتا ہے اور دوسرا گروہ اسی مشق ستم کو سہنے آ جاتا ہے۔ ستم یہ کہ اس سارے ڈرامے کا خمیازہ عام طبقات بھگت رہے ہیں جبکہ حکومتی طبقہ جیل میں بھی موج میلے کرتا ہے اور اقتدار میں آ کر بھی ملکی خزانے پر ہاتھ صاف کرتا ہے۔ اب تو انتہا یہ ہوئی ہے کہ معیشت بھی تباہ ہو گئی ہے۔ ہماری اجتماعی دانش اور دستیاب قومی شعور اس قدر دروغ زدہ اور مسخ شدہ تاریخی حقائق کی بنیاد پر استوار ہے کہ اسے شعور کہنا بھی شعور کی توہین ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے قومی شعور میں یہ بات شامل ہے کہ یہ ایک اسلامی جمہوری ملک ہے حالانکہ نہ یہ ملک حقیقت میں اسلامی ہے نہ جمہوری اور پھر یہ بھی جھوٹ کہ اس کی بنیاد کلمہ طیبہ پر ہے جو کہ سراسر فریب ہے کیونکہ اگر یہ ملک کلمہ طیبہ کی بنیاد رکھتا تو آج ہم اسلام کے اعلیٰ ترین نظام کے تحت زندگی گزار رہے ہوتے۔ اسی طرح یہ بھی ایک المیہ ہے کہ یہاں کے پہلے وزیراعظم کو ایک عوامی جلسہ میں مار دیا گیا اور آج تک قوم کو اس کے قاتلوں کے متعلق کچھ نہیں بتایا گیا۔ یہاں ضیاء الحق کے طیارہ حادثہ کے ذمہ دار بھی آج تک بے نقاب نہیں ہو سکے۔ یہاں عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم کو ایک عوامی جلسے میں شہید کر دیا گیا آج تک اس کے قاتلوں کو سزا نہیں دی جا سکی۔ یہاں متعدد حقائق کو آج تک افشا نہیں کیا گیا اور نہ ہی ان قومی رازوں سے پردہ اٹھانے کی کسی میں جرات ہے۔ یہاں ہر بار جھوٹ کی بنیاد پر حکومت بنتی اور ٹوٹتی ہے اور اس کے نتیجے میں عام آدمی ہر بار نقصان اٹھانا ہے جبکہ اشرافیہ کو ہر بار نوازا جاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نظریاتی طور پر ہوشمند، باشعور اور خرد مند پاکستان کی تشکیل کے لئے کام کی ابتدا کی جائے اور قومی تاریخ کی درستی، درست شدہ مواد کی لازمی تشہیر، نفاذ اور درست معلومات کی تعلیمی اور سرکاری اداروں میں یقینی فراہمی کی جائے۔ اس سلسلے میں تعلیمی نصاب میں انقلابی اور سچ پر مبنی اسباق اور حقائق شامل کرنا از حد ضروری ہیں۔ یاد رہے کہ نصاب کی درستی اور ترامیم کے لئے 1994ء میں بھی اس وقت کی حکومت نے پہلی سے بارہویں جماعت کے نصاب کا جائزہ لینے کے لئے ایک کمیٹی قائم کی تھی۔ اس کمیٹی نے کچھ بنیادی تجاویز مرتب کر کے ان پر ہر حال میں عمل کرنے کی سفارش بھی کی تھی تاہم قابل عمل اور اشد ضروری تجاویز کے باوجود چاروں صوبوں کے ٹیکسٹ بک بورڈز نے ان تجاویز پر مبنی رپورٹ پر عمل نہیں کیا تھا اور نصاب میں غلطیاں جوں کی توں برقرار رہیں اور اب بھی کتابیں اسی طرح چل رہی ہیں۔ پھر معلوم نہیں ان تجاویز پر مبنی رپورٹ کا کیا ہوا۔ تاہم اس سلسلے میں مسئلہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کیا قانونی طور پر صوبوں کو حکم دینے کا مجاز ہے یا نہیں؟ کیونکہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد تعلیم صوبائی اختیارات کے تحت آ چکی ہیں۔ اس ضمن میں برصغیر کی تاریخ کا ایک حوالہ ملاحظہ ہو کہ اشوک بادشاہ نے کیسے تشدد کی پالیسی کو ترک کیا اور اکبر بادشاہ نے ’’ صلحِ کل‘‘ کی پالیسی کیسے اپنائی حقائق بیان کریں۔ اس سوال کے جواب سے یہ سمجھنا آسان ہو جاتا ہے کہ اصل حقائق کیا ہیں۔ پھر یہ بھی ایک سوال کہ مغل دور میں فرقہ وارانہ فسادات کیوں نہیں تھے؟ یہ بتانے کے لئے بھی حقائق صحیح طریقے سے لکھنے اور بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح پاکستان میں دہشت گردی کے حوالے سے آپ محض یہ کہہ کر بچوں کو تعلیم نہیں دے سکتے کہ دہشت گردی اور مذہبی تعصب بری چیز ہے اس کے لئے آپ کو تاریخ کو حقائق کے ساتھ بیان کرنا ہو گا۔ اسی طرح پہلی جماعت سے بارہویں جماعت تک کے نصاب میں تاریخ پاکستان میں کی گئی چند تاریخی غلطیوں کا حوالہ کچھ یوں ہے کہ کسی تاریخ کی کتاب میں قائداعظم کی وہ تقریر شامل نہیں ہے جو انہوں نے گیارہ اگست کو پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی سے کی تھی، نصاب کی تمام کتابوں میں وہ تقریر اب تک سنسرڈ حالت میں ہے، اسے درست کرنا بہت ضروری ہے تاکہ پتہ چلے کہ قائد اعظمؒ کیسا پاکستان چاہتے تھے۔ مزید یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ قائداعظم ؒ کی تقریر کس نے سنسر کی تھی، پاکستان کے پہلے وزیراعظم کے قتل کے واقعے کی تفصیلات اور سوویت یونین کا دعوت نامہ مسترد کر کے امریکی دعوت نامہ کیوں منگوایا گیا، یہ بھی طالب علموں اور لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان سب واقعات و حوادث کے کون کون ذمے دار تھے۔ اس طرح اگر آپ مسخ شدہ تاریخ کو شفاف کر دیں اور حقیقت پر مبنی تاریخ لکھیں تو ہمارے بیشتر مسائل خود بخود درست ہو سکتے ہیں۔
ہماری 76سالہ ملکی تاریخ سچ بیان کرے تو یہی کہے گی کہ ملکی مفاد، عظمت اور وقار کو ہماری سابقہ ہر حکومت نے نقصان پہنچایا لیکن سب سے زیادہ نقصان جنرل ضیا الحق کے دور میں پہنچایا گیا جبکہ اس کے بعد کے ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی پالیسیاں بھی درست نہ تھیں۔ اسی طرح یہ تاریخی حقیقت بھی غور طلب ہے کہ اگر بھٹو جیسا حکمران کہتا ہے کہ میں قوت نہیں رکھتا تو عام یا قدرے کمزور حکمران جو گزرے ہیں یا موجود ہیں، ان کی کیا مجال کہ وہ ایسی پالیسیوں کو نافذ کریں جو ملک و قوم کے وسیع تر اور حقیقی عوامی مفاد میں ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں آج بھی ان قوتوں کا اثر و رسوخ چلتا ہے جن کو حقیقی ملکی مفاد کا علم نہیں یا ضرورت نہیں۔
ایک اور تاریخی حقیقت کہ بھٹو پر جب ان کے بعض ساتھیوں نے اعتراض کیا کہ آپ نے پارٹی بنائی تو یہ یہ کرنے کو کہا تھا لیکن بعد ازاں وہ کچھ نہیں کیا تو بھٹو نے کہا تھا کہ میں کرنا چاہتا ہوں لیکن میرے پاس اختیار نہیں۔ یعنی جب کسی سیاست دان کو یہاں کچھ کرنے کی مہلت ملتی ہے تو اس کے اقتدار حتیٰ کہ بعض حالات میں اس کی زندگی کی مہلت ختم ہو جاتی ہے۔ اس حقیقت کو گزشتہ ماہ اسی سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے ایک فیصلہ میں بھی تسلیم کیا ہے جس سپریم کورٹ نے انہیں ماضی میں موت کی سزا سنائی تھی۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ اس فیصلے کے لئے اس پر کسی طاقت کا دبا تھا اور یہ بھی سب کو علم ہے خاص طور پر عدلیہ کو تو علم ہے کہ کس کا دبا تھا تو کیا کوئی جج جان کے خوف سے ناحق فیصلے دے تو اسے اس کو مملکت خداداد پاکستان کا جج ہونا چاہیے۔ ہر گز نہیں لیکن یہاں ایسے جج ماضی میں بھی تھے اور آج بھی ان کی موجودگی کے خدشات نظر آ رہے ہیں۔
یہ حقیقت تسلیم شدہ ہے کہ پاکستان کو نظریاتی بنیادوں پر بنایا گیا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ نظریاتی فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے بہت سی سچائیوں کو نہیں مانا جاتا۔ آج ہم اپنی تاریخ کے حقائق کے ذریعے بچوں کو سمجھا سکتے ہیں کہ یہاں کبھی مذہبی فسادات نہیں ہوتے یا ہوئے ہیں۔ یہاں کبھی کسی گزرے زمانے میں باہمی میل جول اور رواداری موجود تھی اور دہشت گردی نہیں تھی۔ اب مذہبی رواداری نہیں ہے اور دہشت گردی ہے تو تاریخ کے تناظر میں اس کی کیا وجوہات ہیں۔ دوسری جانب عدلیہ، جمہوریت اور مطلوبہ معلومات تک رسائی کے حق کے حوالے سے سچائی اور حقیقت پسندی کے ساتھ اقدامات اٹھانا بھی اس وقت تمدنی اور سیاسی ضرورت ہے کیونکہ تاریخی حقائق کی درستی کے ضمن میں صرف تعلیمی نصاب کی ترمیم ہی کافی نہیں ہوگی بلکہ زندگی کے ہر شعبے اور ہر مکاتیب فکر میں سچ کا نفاذ ضروری ہے۔ ضروری معلومات اور ماضی کے حقائق کے حوالے سے اس وقت میڈیا یعنی ذرائع ابلاغ بھی خاصی اہمیت رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے بھی سچ کی تلاش اور حقیقت کے تعین کے لئے کوشش ہونی چاہیے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ طویل عرصے تک آمریت کے سائے تلے رہنے کی وجہ سے اب بحیثیت قوم ہمیں آمریت بری نہیں لگتی۔ ہم کسی حد تک فطری طور پر ہر چیز میں آمریت چاہتے ہیں، ہماری اجتماعی دانش بھی یہیں تک محدود ہو گئی ہے کہ ایک چیف جسٹس آئے اور سارے کام کر دے، ایک سیاست دان اٹھے اور تمام مسائل کا حل کر دے۔ حالات ٹھیک ہونے چاہئیں اور مجرموں کو سزا ملنی چاہئے۔ چاہے ایک فوجی ڈکٹیٹر ہی آئے اور سب مجرموں کو پھانسی پر لٹکا دے تاکہ آئندہ سب کو عبرت ہو اور چاہے اس میں قوم کے جمہوری حقوق بھی پامال ہو جائیں۔ یعنی ہمارے بودے قومی شعور نے ہمیں فکری طور پر آمریت پسند کر دیا ہے ہمیں سہل کوشی کر دیا ہے۔ شعوری طور پر ہم سب یہ چاہتے ہیں کہ ہم سب ٹھیک نہ ہوں ہمارا نظام ٹھیک نہ ہو بس ہم میں سے ایک ٹھیک اور مجاہد صفت اٹھے اور سب ٹھیک کر دے۔ حالانکہ سچ اور حقیقت کے تعین کے بعد ساری قوم کی اجتماعی دانش اور کوشش کے بعد ہی کوئی قوم یا ملک درست سمت میں سفر کر سکتے ہیں۔ مسخ شدہ قومی شعور کی موجودگی میں یہ منزل حاصل کرنا عبث ہے۔

جواب دیں

Back to top button