ColumnFayyaz Malik

سانحہ کچہ ماچھکہ کے شہداء کو سلام

فیاض ملک
تھانہ ماچھکہ، کچہ رحیم یار خان میںڈاکوئوں نے رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھا کر چھپ کر گشت کرنیوالی پولیس کی گاڑیوں پر راکٹ لانچرز سے بزدلانہ حملہ کیا جس کے نتیجے میں12اہلکار جام شہادت نوش کر چکے ہیں جبکہ 8زخمی ہوئے ہیں، ابھی اسی ماہ یکم اگست 2024کو رحیم یار خان کے علاقہ بھونگ میں پولیس چوکی پر کچے کے ان ڈاکوئوں نے دھاوا بول کر تین جوانوں کو شہید کیا، کچے کے ڈاکوئوں کی طرف سے ایک ماہ کے اندر یہ دوسرا بڑا اور منظم حملہ ہے، کچہ ماچھکہ کے علاقے میں پولیس پر ہونیوالے اس حملے کے بعد آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور، سیکرٹری داخلہ نور الامین مینگل،ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ ذوالفقار حمید، ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی وسیم سیال دیگر سینئر افسران کے ہمراہ رحیم یار خان پہنچ گئے جہاں انہوں نے کچہ ماچھکہ میں جائے وقوعہ اور پولیس کیمپوں کا دورہ کیا اور وہاں پر موجود پولیس افسران اور جوانوں کا حوصلہ بڑھایا، آئی جی پنجاب کچہ ماچھکہ سانحہ کے اسپتال میں زیر علاج زخمی پولیس اہلکاروں کی عیادت بھی کی اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ پنجاب پولیس کا مورال بلند ہے، بزدلانہ کارروائیاں ملک و قوم کی حفاظت میں جانیں قربان کرنے والی پولیس فورس کا مورال پست نہیں کر سکتیں، کچہ کے ڈاکوئوں کے خلاف پولیس آپریشن بھرپور طاقت سے جاری رہے گا، جوانوں کا خون رائیگاں نہیں جانے دیں گے، دوسری جانب وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے بھی رحیم یار خان کچے کے علاقے میں پولیس اہلکاروں کی شہادت پر گہرے رنج اور دکھ کا اظہار کیا ، انہوں نے زخمی پولیس اہلکاروں کو بہترین طبی امداد فراہم کرنے کی ہدایت کیساتھ ساتھ آئی جی پولیس سے اس افسوسناک واقعہ کی فوری رپورٹ طلب کرلی اور لاپتہ پولیس اہلکاروں کو بازیاب کرانے کیلئے آپریشن کو مزید تیز کرنے کا حکم دیا، وزیراعلیٰ مریم نوازشریف کا کہنا ہے کہ کچے کے علاقے میں جام شہادت نوش کرنیوالے پولیس اہلکاروں کی قربانی کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا انہوں نے ہوم سیکرٹری کو ڈاکوئوں کیخلاف آپریشن کی نگرانی کی ہدایت کی جبکہ آپریشن کیلئے سندھ حکومت سے رابطے کی ذمہ داری سیکرٹری داخلہ پنجاب کے سپرد کر دی گئی ہے، انسداد دہشتگردی ڈیپارٹمنٹ ( سی ٹی ڈی ) پنجاب ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن کو لیڈ کرے گا۔ ڈاکوئوں اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کیلئے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں، حکمت عملی ترتیب دے کر کچے کے ڈاکوئوں کو منطقی انجام تک پہنچائیں، ریاست کی رٹ ہر صورت بحال کی جائے گی۔ قارئین کرام! رقبے کے لحاظ سے پنجاب کا چوتھا اور بلحاظ آبادی چھٹا بڑا ضلع، رحیم یار خان جنوبی پنجاب کا ایک اہم زرعی، تجارتی اور کاروباری مرکز ہے، جس کے مشرق میں ضلع بہاولپور، مغرب میں ضلع راجن پور، شمال میں دریائے سندھ اور ضلع مظفر گڑھ جبکہ جنوب میں بھارتی ریاست راجستھان کا ضلع جیسلمیر اور صوبہ سندھ کا ضلع گھوٹکی واقع ہیں۔ اس ضلع کو گیٹ وے آف پنجاب بھی کہا جاتا ہے، کیوں کہ نہ صِرف یہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے سنگم پر واقع ہے بلکہ جنوب سے پنجاب اور خیبرپختونخواہ کو جانے والے تمام مرکزی راستے یہیں سے ہو کر گزرتے ہیں۔ طبعی خدوخال کے لحاظ سے ضلع رحیم یار خان کو 3حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ مغرب میں راجن پور اور مظفرگڑھ کی حدود کے ساتھ ساتھ دریائے سندھ بہتا ہے جس کے نشیبی علاقے کو کچے کا علاقہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں دریا کا پاٹ بہت چوڑا ہے اور اس میں چھوٹے چھوٹے بہت سے جزیرے نظر آتے ہیں، کچے کا یہ علاقہ جو کہ تین صوبوں ( پنجاب، سندھ، بلوچستان) کے درمیان واقع ہے، پنجاب کا آخری ضلع راجن پور ہے جس کے ساتھ ہی صوبہ سندھ کا ضلع کشمور شروع ہو جاتا ہے، راجن پور کے مغرب میں کوہِ سلیمان ہے جس کے آگے بلوچستان کا ضلع ڈیرہ بگٹی شروع ہو جاتا ہے یوں اس علاقے کو ساحلی پٹی بھی کہتے ہیں، دریائے سندھ کے کچے کا علاقہ سندھ اور پنجاب کے بارڈر سے شروع ہوتا ہے، کچے کے مختلف علاقوں میں ڈاکوئوں کے پکے ٹھکانے ہیں، کچے کی علاقے کی تقسیم بھی کافی پیچیدہ ہے یہی علاقہ عملاً تین صوبوں کے بارڈرز کے ساتھ متصل ہے، یہاں آپ ایک ایکڑ آگے چلتے ہیں تو سندھ کا ضلع کشمور شروع ہو جاتا ہے۔ دوسری جانب اتنا ہی بڑھتے ہیں تو پنجاب کا ضلع صادق آباد شروع ہو جاتا ہے۔ اس لیے پولیس کو اپنے کام میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے، دریائے سندھ کی گزرگاہ کے اطراف میں سینکڑوں کلومیٹر پر محیط ہے جس وجہ سے دہائیوں سے ڈاکوئوں کیلئے محفوظ ترین پناہ گاہ ہے، لیکن سندھ بالخصوص پنجاب پولیس کے جوانوں کیلئے مقتل یعنی قتل گاہ کی حیثیت سے جانا جاتا ہے، یہاں پر جن افراد کے خلاف آپریشن ہو رہا ہے انہیں ڈاکو کہا جاتا ہے لیکن ان میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جو اغوا برائے تاوان کی کارروائیاں کرتے ہیں۔ یہ آپریشن پہلے انٹیلیجنس بنیادوں پر ہوتا تھا لیکن اب تو پولیس نے باقاعدہ گرینڈ آپریشن شروع کیا ہے اس وقت کچے کے جن علاقوں میں آپریشن ہو رہا ہے یہ تھانہ بھونگ، تھانہ کوٹ سبزل اور تھانہ ماچکہ کے تحت آتا ہے، ان میں تھانہ ماچکہ کچے کے علاقے کے اندر واقع ہے، پولیس کیلئے کچے کے کچھ علاقے نو گو ایریاز بن جاتے ہیں جہاں پولیس کیلئے کارروائی کرنا خطرے سے خالی نہیں ہوتا، اگر ڈاکوئوں کی پناہ گاہوں کی بات کریں تو کچے کے مختلف علاقے بشمول شاہ بیلو، باگڑجی بیلو، رائونتی، شریف پور، الف کچو، ناگ واہ، گبلو، سدھوجا، لڈڑ یا گیمڑو کا کچا ، کچہ کراچی، کچہ روجھان، بنگلہ اچھا، کچہ ماچکہ ، کچہ عمرانی ، کچی جمال ، کچہری عمرانی ، لنڈا موڑ، نوز بنداور پنوعاقل کا کچا بھی ڈاکوئوں کی پناہ گاہ ہیں جبکہ مشہور گینگز میں بنوں، عمرانی، دولانی، لٹھانی ، سکھانی گینگز شامل ہیں، کچے کے ڈاکو جو تین دہائیوں سے زائد عرصے سے اپنی الگ ریاست بنانے کی کوشش
کر رہے تھے۔ اِن کیخلاف بھی مختلف ادوار میں آپریشن کیا گیا، پنجاب اور سندھ میں موجود کچے کے اِن ڈاکوئوں کیخلاف سب سے پہلا آپریشن 28مئی 1992میں ہوا تھا۔ اگر گزشتہ 32سالوں سے کچے میں ہونیوالے آپریشنز کا ذکر کیا جائے تو 1992سے ابتک کچے میں17آپریشن ہوئے، جس میں نیشنل سکیورٹی کونسل کے حکم پر تینوں صوبوں سندھ ، پنجاب اور بلوچستان کی پولیس کی جانب سے اب 17واں مشترکہ آپریشن اپنی طوالت کی باعث تادم تحریر جاری ہے، جس میں پولیس نے 16ماہ کے دوران کچہ آپریشن میں ڈاکوئوں سے 36500ایکڑ اراضی واگزار کرواتے ہوئے اس کو لینڈ ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کیا، کچے میں ڈاکوئوں کے 10گینگز کے200لیکر 250ارکان کیخلاف کارروائیوں کیلئے 11سو سے زائد پولیس افسران اور اہلکار تعینات کئے گئے،16ماہ کے دوران کی جانیوالی پولیس کارروائیوں میں 55ڈاکوئوں کو ان کے منطقی انجام تک پہنچایا گیا، پولیس کی ان کارروائیوں میں مختلف گینگز سے تعلق رکھنے والے 43ڈاکو زخمی ہوئے اور مختلف گینگز کے126 ڈاکوئوں کو گرفتار کیا ، 5ڈاکوئوں نے ہتھیار ڈالتے خود کو پولیس کے حوالے کیا، کچے میں جاری آپریشن کے دوران 19پولیس اہلکار شہید اور 29پولیس افسر اور اہلکار زخمی ہوئے، کچہ آپریشن کو کامیاب بنانے کیلئے مختلف علاقوں میں 48چیک پوسٹیں اور کیمپ قائم بنائے گئے دوران آپریشن ڈاکوئوں سے کچہ کراچی کا علاقہ مکمل طور پر کلیئر کرایا، اس آپریشن کی خصوصیت یہ ہے کہ اِس بار پنجاب پولیس، سندھ پولیس اور بلوچستان پولیس بیک وقت بھاری مشینری کے ہمراہ کچے کے علاقے میں کومبنگ آپریشن کر رہی ہیں، کچے کے ان تمام آپریشنز کا اگر جائزہ لیا جائے تو پہلی مرتبہ پولیس پر اتنے منظم انداز میں حملہ کیا گیا جس میں 12جوانوں کی شہادت ہوئی، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کچہ ماچھکہ میں ڈاکوئوں کے ہاتھوں 12پولیس ملازمین کی شہادت پنجاب کی تاریخ کا افسوس ناک ترین واقعہ ہے، بہر حال سانحہ کچہ ماچھکہ کے بعد اب ریاست کو اپنی رٹ ہر حال میں قائم کرنی چاہیے اور ان ڈاکوئوں کے مستقل خاتمے کیلئے یہاں کراچی اور شمالی وزیر ستان جیسے آپریشن کی ضرورت ہے، پولیس کا کام عوام کی حفاظت ہے اور ڈاکو چاہے پہاڑوں پر ہوں یا کچے میں ان کو ضرور گرفت میں لایا جائے۔ ادھر سانحہ کچہ ماچھکہ کے حوالے سے پنجاب پولیس کی جانب سے ہونیوالی جوابی کاروائی میں پولیس اہلکاروں پر حملے کا مرکزی ملزم بشیر شر انجام کو پہنچ گیا، پولیس کے مطابق بشیر شر گزشتہ روز پولیس اہلکاروں پر ہونیوالے حملے کے مرکزی ملزمان میں شامل تھا، پولیس کی اس کارروائی میں ڈاکو بشیر شر کے5ساتھی شدید زخمی ہوئے، پولیس کی جانب سے تادم تحریر ڈاکوئوں کے خلاف جوابی کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے، اس حوالے سے آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کا کہنا ہے کہ واقعہ میں ملوث ڈاکوئوں کے قلع قمع کیلئے آپریشن جاری ہے اور پولیس اہلکاروں پر حملے میں ملوث تمام ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔

جواب دیں

Back to top button