عزم استحکام فوجی آپریشن نہیں بلکہ مہم ہے، ایک لابی نہیں چاہتی کہ اس کے مقاصد پورے ہوں: ڈی جی آئی ایس پی آر

پاکستانی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے وضاحت کی ہے کہ آپریشن عزم استحکام ایک فوجی آپریشن نہیں بلکہ انسداد دہشتگردی کی مہم ہے جس کا ماضی کے آپریشنز ضرب عضب اور راہ نجات سے موازنہ درست نہیں۔ انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ایک بیانیے کے ذریعے آپریشن عزم استحکام کو متنازع بنایا جا رہا ہے۔
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے سربراہ سے پیر کو پریس کانفرنس کے دوران ایک صحافی کی جانب سے پوچھا گیا کہ ماضی کے ’راہ نجات‘ اور ’ضرب عضب‘ کا موازنہ عزم استحکام سے کیا جا رہا ہے اور سیاسی حلقوں میں ممکنہ طور پر مقامی لوگوں کے بے گھر ہونے کے حوالے سے خدشات ظاہر کیے گئے ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا تھا کہ ’ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ (ملک کے) سنجیدہ مسائل کو بھی سیاست کو بھینت چڑھایا جاتا ہے۔ عزم استحکام اس کی مثال ہے۔‘
’حکومت بھی کہہ چکی ہے کہ آپریشن عزم استحکام ایک مربوط، انسداد دہشتگردی مہم ہے، کوئی ملٹری آپریشن نہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ 22 جون کو ایپکس کمیٹی کے اعلامیے میں کہا گیا کہ نیشنل ایکشن پلان میں پیشرفت کا جائزہ لیا گیا ہے اور اس ضرورت کا اظہار کیا کہ ملک میں جامع انسداد دہشتگردی کی مہم کی ضرورت ہے۔ ترجمان نے اسی اعلامیے کے حوالے سے کہا کہ ملک میں انسداد دہشتگردی مہم کے لیے سیاسی جماعتوں سے مشاورت کی جائے گی اور قانون سازی کی جائے گی۔
پاکستانی فوج کے ترجمان نے کہا کہ ملک میں ’ایک بیانیہ بنایا گیا کہ آپریشن سے لوگ بے گھر ہوں گے اور اس کی مخالفت کی جانی چاہیے۔‘
’یہ ہماری بقا کا معاملہ ہے، ہم سنجیدہ معاملے کو بھی سیاست کی وجہ سے مذاق بنا دیتے ہیں۔‘
انھوں نے سمگلنگ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ آپریشن عزم استحکام کا ایک اہم مقصد دہشتگردی اور جرائم کے گٹھ جوڑ کو ختم کرنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ملک میں بے نامی پراپرٹیز، سمگلنگ اور نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے ذریعے دہشتگرد آپریٹ کر رہے ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے سوال کیا کہ ’عزم استحکام کو متنازع کیوں بنایا جا رہا ہے؟ ۔۔۔ ایک مضبوط لابی چاہتی ہے کہ نیشنل ایکشن پلان اور عزم استحکام کے مقاصد پورے نہ ہوں۔‘
’کیوں ایک بہت بڑا مافیا، سیاسی مافیا، غیر قانونی مافیا ہر جگہ سے کھڑا ہوگیا کہ ہم نے یہ کام نہیں ہونے دینا۔ وہ اسے جھوٹ کی بنیاد پر متنازع بنانا چاہتے ہیں۔‘
فوج کے ترجمان نے نیشنل ایکشن پلان کے مقاصد، اب تک کی کارروائی کی تفصیلات اور دیگر معلومات پر مبنی سلائیڈز پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم ہر گھنٹے چار سے پانچ انٹیلیجنس کی بنیاد پر انسداد دہشتگردی آپریشن کر رہے ہیں۔‘
خیال رہے کہ پاکستانی حکومت کی جانب سے گذشتہ ماہ آپریشن عزم استحکام کا اعلان کیا گیا تھا جس پر ملک کے بعض سیاسی و سماجی حلقوں کی جانب سے تحفظات ظاہر کیے گئے تھے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملوں میں ملوث شدت پسندوں اور ’ڈیجیٹل دہشتگردوں‘ میں یہ قدر مشترک ہے کہ دونوں کا ہدف فوج اور اس کی قیادت ہیں۔
پریس کانفرنس کے دوران ایک صحافی نے ڈی جی آئی ایس پی آر سے پوچھا کہ آرمی چیف، ادارے اور ایس آئی ایف سی پر تنقید کی جا رہی ہے تو اس سے نمٹنے کے لیے ادارہ کیا کر رہا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر احمد شریف چوہدری نے کہا کہ سوشل میڈیا پر فوج اور اس کی قیادت کے خلاف ’ڈیجیٹل دہشتگردی‘ سرگرم ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’جس طرح ایک دہشتگرد ہتھیار پکڑ کر اپنی بات منوانے کی کوشش کرتا ہے، اسی طرح ڈیجیٹل دہشتگرد موبائل، کمپیوٹر، جھوٹ، فیک نیوز اور پراپیگنڈے کے ذریعے اضطراب پھیلا کر اپنی بات منوانے کی کوشش کرتا ہے۔‘
پاکستانی فوج کے ترجمان نے کہا کہ کسی ’ڈیجیٹل دہشتگرد‘ کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہوتی ہے لیکن شدت پسندوں اور ان میں یہ قدر مشترک ہے کہ ’دونوں کا ہدف فوج ہے۔‘
’ڈیجیٹل دہشتگرد فوج، فوج کی قیادت، فوج اور عوام کے رشتے کو کمزور کرنے کے لیے فیک نیوز کی بنیاد پر حملے کر رہا ہے۔‘
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ ڈیجیٹل دہشتگرد کو قانون اور سزائیں ہی روک سکتی ہیں۔ ’تواتر سے فوج اور دیگر اداروں کی قیادت کے خلاف بے ہودہ بات چیت کی جاتی ہے، فیک نیوز پھیلائی جاتی ہے۔‘
پریس کانفرنس کے آخر میں انھوں نے کہا کہ ڈیجیٹل دہشتگردوں کو نہ روکا گیا تو انھیں مزید سپیس ملے گی۔ ’وہ غیر قانونی عناصر جو اس ملک کو سافٹ ریاست بنانا چاہتے ہیں، ہم اس کی اجازت نہیں دے سکتے۔‘
ٹی ایل پی کے دھرنے پر فوج کا موقف
اس سے قبل ایک صحافی کی جانب سے ان سے سوال کیا گیا کہ آیا فیض آباد کے مقام پر تحریک لبیک کے حالیہ دھرنے کا پاکستانی فوج یا اسٹیبلشمنٹ سے کوئی تعلق ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر احمد شریف چوہدری نے جواب دیا کہ مرکزی مسئلہ فلسطین کا ہے اور اس پر حکومت و فوج کا واضح موقف ہے کہ یہ نسل کشی ہے اور ناقابل قبول ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’حکومت اور ادارے حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر رہے تھے تاکہ بغیر تشدد کے، بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل ہوجائے۔‘
تاہم ان کے مطابق یہ ’پراپیگنڈا شروع ہوگیا کہ ادارے نے خود انھیں بٹھایا ہے۔ کیا کل اگر جماعت اسلامی بیٹھے گی یا کوئی اور مظاہرہ ہوگا تو اس پر بھی یہ دعویٰ کیا جائے گا کہ یہ فوج نے کروایا ہے۔
’ملک میں فیک نیوز پر کوئی احتساب نہیں ہوتا۔ حقائق آپ کے سامنے ہیں کہ یہ ایک حساس مسئلہ ہے۔ اگر آپ اسے دوستانہ انداز میں حل کر لیں تو مزید قیاس آرائیاں کی جاتی ہیں۔ اس بارے میں ہر طرح کے سازشی نظریات گردش کرتے ہیں۔‘
دریں اثنا انھوں نے افغانستان کی سرحد سے متصل پاکستانی شہر چمن میں دھرنے کی مثال دی جہاں کراس بارڈر نقل و حرکت کے لیے پاسپورٹ کی شرط لگانے کی مقامی سطح پر مخالفت کی گئی ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ افغان بارڈر پر غیر قانونی تجارت کو فروغ دیا جاتا ہے۔
خیال رہے کہ آج چمن میں افغانستان کی سرحد پر آمدورفت کے مسئلے پر تقریباً دس ماہ سے جاری دھرنا منتظمین کی جانب سے مطالبات تسلیم کیے جانے کے اعلان کے بعد ختم کر دیا گیا ہے۔ حکومت کے مطابق اب چمن سے آمدورفت شناختی کارڈ اور افغان تذکرہ کی بنیاد پر ہو گی اور اگر کسی کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ نہیں ہو گا تو وہ شناختی کارڈ کے ٹوکن پر سفر کر سکے گا۔