آج بھی بھٹو زندہ ہے ( حصہ دوم)

محمد ریاض ایڈووکیٹ
گزشتہ سے پیوستہ ۔۔۔۔
ہفتم: گیارہ نومبر 1974کو مسٹر خان کے قتل کی تحقیقات، جو 3مئی 1976کو بند کر دی گئی تھی، وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ایف آئی اے کے ڈائریکٹر کے زبانی حکم پر دوبارہ کھولی گئی۔ استغاثہ نے کبھی یہ نہیں بتایا کہ کیسے اور کیوں؟ بتیس ماہ پرانے کیس کی تحقیقات، جو چودہ ماہ قبل بند کر دی گئی تھی، دوبارہ کھول دی گئی۔ یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ تحقیقات ایف آئی اے کو کیسے اور کیوں منتقل کی گئیں۔ یہ دونوں کارروائیاں ( تفتیش کا دوبارہ آغاز اور اس کی ایف آئی اے کو منتقلی) جنرل ضیاء الحق کی بغاوت کے بعد مسٹر بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کے فوراً بعد کی گئیں۔ کیس دوبارہ زندہ کر دیا گیا۔
ہشتم: تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302کے تحت قتل کا مقدمہ صرف سیشن کورٹ ہی چلا سکتا ہے۔ لہٰذا، تحقیقاتی رپورٹ، جو مجسٹریٹ کو پیش کی گئی، 12ستمبر 1977کو سیشن جج، لاہور کو بھجوا دی گئی۔ رپورٹ موصول ہونے کے بعد مقدمے کی سماعت شروع ہو چکی تھی۔ تاہم اگلے ہی دن 13ستمبر 1977مقدمہ فوجداری اصل نمبر 60/77، بعنوان ریاست بمقابلہ زیڈ اے بھٹو جسٹس مشتاق حسین، قائم مقام چیف جسٹس کے سامنے آیا کیس کو ٹرائل کے لیے اس عدالت میں منتقل کیا گیا اس حقیقت کے باوجود کہ لاہور کے سیشن جج 12ستمبر 1977کو اس کیس کا نوٹس لے چکے ہیں۔ یہ ناقابل فہم ہے کہ پھر کیس کو قائم مقام چیف جسٹس مشتاق حسین کی عدالت میں کیوں پیش کیا گیا۔ جسٹس مشتاق حسین نے فوری طور پر اور اسی دن 13ستمبر 1977کو مندرجہ ذیل حکم جاری کرتے ہوئے مذکورہ پٹیشن منظور کرلی، درخواست میں کی گئی گزارشات کے پیش نظر کیس کو ٹرائل کے لیے اسی عدالت یعنی لاہور ہائیکورٹ میں منتقل کیا جاتا ہے۔ اس کی سماعت فل بنچ کرے گی۔ اور حیران کن طور پر فل بینچ کی سماعت کی سربراہی بھی جسٹس مشتاق حسین نے خود ہی کی۔
نہم: 24ستمبر 1977کو بھٹو اور دیگر شریک ملزمان کا ٹرائل شروع ہوا۔ ہائیکورٹ نے شواہد طلب کرنے کا حکم دیا تاہم ملزمان عدالت میں موجود ہونے کے باوجود ان پر فرد جرم عائد نہیں کی گئی۔ اگلی تاریخ یعنی 3اکتوبر 1977کو بھی چارج فریم نہیں کیا گیا۔ چارج فریم کرنا ایک لازمی شرط ہے، اور اس کے فریم ہونے کے بعد ہی مقدمے کی سماعت شروع ہو سکتی ہے۔ بالآخر 11اکتوبر 1977کو الزام عائد کیا گیا جبکہ تمام ملزمان نے جرم قبول نہیں کیا۔ 11اکتوبر 1977 سے 25فروری 1978تک لاہور ہائی کورٹ جو ٹرائل کورٹ کے طور پر کام کر تی رہی نے استغاثہ کے اکتالیس گواہوں اور چار دفاعی گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے ہیں۔ 2مارچ 1978کو فیصلہ محفوظ کیا گیا اور 18مارچ 1978کو اس کا اعلان کیا گیا۔ بھٹو کو تعزیرات پاکستان میں درج جرائم کی درج ذیل دفعات کے تحت سزا سنائی گئی:
(a) دفعہ 120۔Bپانچ سال قید بامشقت کی سزا سنائی، (b)دفعہ 302کے ساتھ دفعہ 301اور 111ملاکر سزائے موت اور (c)دفعہ 307اور دفعہ 109ملاکر، ہر جرم کے لیے سات سال سخت قید کی سزا سنائی گئی۔
دہم: ذوالفقار علی بھٹو نے سپریم کورٹ میں اپنی سزا کے خلاف اپیل کی، لیکن ان کی اپیل 6فروری 1979کو چار تین کی اکثریت سے خارج کر دی گئی۔ بھٹو کی فوجوداری اپیل کو مسترد کرنے والے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست دائر کی گئی تھی، لیکن اسے 24مارچ 1979کو متفقہ طور پر خارج کر دیا گیا تھا۔
گیارہ: ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے لئے پھانسی کے وارنٹ یعنی ڈیتھ وارنٹ پر جسٹس مشتاق حسین نے دستخط کیے جو اب لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بن چکے تھے۔ موت کے وارنٹ کا اختتام ان الفاظ میں ہوا: میرے ہاتھ اور عدالت کی مہر کے تحت 25مارچ 1979کو دیا گیا، اور راولپنڈی کے سپرنٹنڈنٹ ڈسٹرکٹ جیل کو اپریل 1979کے دوسرے دن سزا پر عمل درآمد کرنے کی ہدایت کی۔ پھانسی کی تاریخ بعد میں اپریل 1979کے چوتھے دن میں تبدیل کر دی گئی۔ بھٹو کو پھانسی دے دی گئی اور سپرنٹنڈنٹ ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی نے ایک سرٹیفکیٹ جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو 4اپریل 1979بروز بدھ راولپنڈی میں اس وقت تک گردن سے لٹکایا گیا جب تک وہ مر نہیں گئے۔ اور یہ کہ لاش پورے ایک گھنٹہ تک لٹکی رہی اور اس وقت تک نہیں اتاری گئی جب تک کہ میڈیکل آفیسر نے زندگی کے معدوم ہونے کا یقین نہ کرلیا۔
بارہ: صدر زرداری کے ریفرنس کے جواب میں سپریم کورٹ نے کہا کہ ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں، اور زور دینا چاہتے ہیں کہ ہم کسی درخواست، اپیل یا نظرثانی کی درخواست کی سماعت نہیں کر رہے ہیں۔ نہ تو آئین اور نہ ہی قانون ایسا طریقہ کار فراہم کرتا ہے جس کے تحت بھٹو کی سزا کو کالعدم قرار دیا جاسکے۔ کیونکہ سپریم کورٹ کی جانب سے نظرثانی کی درخواست خارج ہونے کے بعد بھٹو کی سزا حتمی شکل اختیار کر چکی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 186کے تحت ہمارے مشاورتی دائرہ اختیار میں فیصلے کو کالعدم نہیں کیا جا سکتا۔
تیرہ: بھٹو کی سزا اور سزا کے حوالے سے 6مارچ 2024کو ہم نے درج کیا تھا کہ اپنی تفصیلی وجوہات میں، ہم ان بڑی آئینی اور قانونی خامیوں کی نشاندہی کریں گے جو منصفانہ ٹرائل اور مناسب عمل کے حوالے سے ہوئی تھیں۔ اس کی تفصیلی وجوہات درج ذیل ہیں۔
( جاری ہے۔۔۔۔۔۔)