افغانستان سیاسی سرگرمیوں اور عوامی نمائندگی سے محروم

قادر خا ن یوسف زئی
افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد سے افغان عوام کی مشکلات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ افغانستان کے لئے اس وقت سب سے سنگین مسئلہ وہ مہاجرین بھی ہیں جو مختلف ممالک سے وطن واپس آ رہے ہیں یا انہیں بھیجا جا رہا ہے۔ افغان عبوری حکومت کی سخت گیر پالیسیوں نے عالمی برداری میں ان خدشات کو جنم تو دیا ہے کہ افغان طالبان تین برس بعد بھی ملک میں سیاسی سرگرمیاں شروع نہیں کر سکے اور اس وقت ایک ایسے گروپ کی عمل داری ہے جسے دوحہ معاہدے کے بعد افغانستان میں تمام سٹیک ہولڈر کی نمائندہ عبوری حکومت کی تشکیل کرنا تھی اور بعد ازاں عوام کی منشا اور سیاسی سوچ کی حامل نمائندہ حکومت کا انتخاب کئے جانے تھا۔ روس، چین اور امریکہ سمیت نیٹو ممالک نے افغانستان میں کسی پائیدار سیاسی حکومت کے بجائے ایک ایسی حکومت کی تشکیل میں خاموشی اختیار کی ہوئی ہے جو ملک میں کسی بھی گروپ یا سیاسی جماعت کو سیاسی سرگرمیوں اور انتخابات کے ذریعے عوامی نمائندوں کے ہاتھوں میں کسی بھی قسم کا نظام و انصرام نہیں دینا چاہتے، بلکہ افغانستان پر مسلح مزاحمت کے ذریعے قبضے کے بعد افغان طالبان کسی بھی ملک کو جواب دہ بھی نہیں سمجھتے۔ انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے الزامات کے ساتھ ملک میں جمہوری نظام کی بنیاد تک کا وجود نہ ہونا، اسے عالمی سطح پر تسلیم کرنے میں حائل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان کو در پیش مسائل کے حل کے لئے براہ راست ایسی امداد نہیں مل رہی کہ وہ عوام کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کر سکے۔
اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی ( یو این ایچ سی آر) کی ایک رپورٹ کے مطابق افغان دنیا بھر میں بے گھر ہونے والے افراد کا تیسرا سب سے بڑا گروپ ہے، 2023تک تقریباً 80لاکھ افغان 103ممالک میں مقیم ہیں۔ یہ حیران کن تعداد افغان آبادی پر تنازعات، تشدد اور غربت کے طویل اور تباہ کن اثرات کا ثبوت ہے۔ یہ بحران کئی دہائیوں پہلے شروع ہوا، 1979 میں سوویت یونین کے حملے کے بعد سے زیادہ تر مہاجرین افغانستان سے فرار ہو گئے۔ برسوں کے دوران، صورتحال مزید خراب ہوئی ہے، 2021میں افغان طالبان کے قبضے سے عدم استحکام اور تشدد میں شدت آئی، جس کے نتیجے میں ملک سے بڑے پیمانے پر لوگوں کی نقل مکانی ہوئی۔ آج، 8.2ملین سے زیادہ افغان مختلف ممالک میں مقیم ہیں، جن کا ایک بڑا تناسب پاکستان اور ایران میں مقیم ہے۔ بحران کی طویل نوعیت میں افغان پناہ گزینوں اور میزبان برادریوں کی مدد اس طرح نہیں ہو رہی جس طرح چار دہائیوں سے زیادہ عرصے سے مہاجرین کو فراخدلانہ طور پر جگہ دی۔ بے گھر ہونے والے افغانوں کو در پیش چیلنجز بے شمار اور دبا ہیں۔ چار دہائیوں سے جاری تنازعات اور عدم استحکام نے لاکھوں لوگوں کو بھوک اور افلاس کے دہانے پر کھڑا کر دیا ہے۔ 2023کے ایک کے جائزہ رپورٹ کے مطابق ریکارڈ 28.3ملین افراد کو انسانی اور حفاظتی امداد کی ضرورت ہے، 20ملین افراد کو شدید بھوک کا سامنا ہے اور 6ملین لوگ ہنگامی سطح پر ہیں، جو قحط سے صرف ایک قدم کے فاصلے پر ہیں۔ خواتین اور بچوں پر اثر خاص طور پر تباہ کن رہا ہے۔ خواتین اور لڑکیوں کے بنیادی حقوق خطرے میں ہیں اور بہت سے بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ غذائی قلت کی شرح انتہائی بلند ہے، تقریباً 875000بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں، اور 2.3ملین بچے اور 840000خواتین کو امداد کی ضرورت ہے۔
UNHCR کی لاکھوں بے گھر افغانوں کو زندگی بچانے کی ا مداد ناکافی ہے۔ ایجنسی زمین پر پناہ گاہ، خوراک، پانی اور صحت کی خدمات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ 34صوبوں میں تحفظ کی نگران ہے۔ UNHCRپڑوسی ممالک کے حکام کے ساتھ افغان مہاجرین کی مستقبل کی ممکنہ نقل و حرکت کی منصوبہ بندی کے اطمینان بخش نتائج مرتب نہیں ہو رہے۔ اس طرح کی زبردست ضرورت کے پیش نظر، یہ بہت ضروری ہے کہ بین الاقوامی برادری یو این ایچ سی آر کی کوششوں کی حمایت جاری رکھے۔ افغانوں اور ان کی میزبان برادریوں کی لچک کو حد تک بڑھایا جائے، اور صرف اجتماعی کارروائی ہی ان لوگوں کے لیے محفوظ مستقبل کی امید پیدا کر سکتی ہے جو اپنے گھروں سے بھاگنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ وطن واپس جانے والے مہاجرین میں نوجوانوں کی ایک ایسی بڑی تعداد ہے جو افغانستان کے بجائے کسی محفوظ اور معاشی طور پر مضبوط ملک جانا چاہتے ہیں۔ بالخصوص یورپی ممالک جانے کے لئے ہر قسم کا رسک بھی اٹھانے کے لئے تیار ہیں، تاہم مالی استطاعت کی کمی ایک ایسے سنگین بحران کی جانب اشارہ دے رہا ہے جو عالمی برادری اور بالخصوص پڑوسی ممالک کے لئے کسی بڑی پریشانی کا سبب بن سکتا ہے۔
انتہا پسندی اور دہشت گردی کے واقعات کی وجوہ میں ایک سب سے بڑی وجہ بے روزگاری بھی تصور کی جاتی ہے جس نے انتہا پسند تنظیموں کے لئے بڑی تعداد میں کرائے کے فوجیوں کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ روس، یوکرین جنگ ہو یا مشرق وسطیٰ کی پراکسی وار میں کرائے کے فوجیوں کو غیر روایتی جنگ کا حصہ بنایا ہے، اسی طرح افغانستان کی پیچیدہ صورتحال کی وجہ سے بے روزگاروں کی بڑی تعداد جہاں سمگلنگ، غیر قانونی سرگرمیوں کا سبب بن رہا ہے تو دوسری جانب انتقامی کاروائی اور مذہبی کارڈ کا استعمال کرنے کی روش نے ایسے افغان مہاجرین کو اپنی صفوں میں جگہ فراہم کی ہے جن کی وجہ سے خود افغان طالبان کی عبوری حکومت کو ایسی سرگرمیوں کا سامنا ہے جو وہ خود امریکہ اور نیٹو ممالک کے خلاف کارروائیوں میں اختیار کیا کرتے تھے، اس وقت یہ سب ان کے لئے جائز تھا کیونکہ ان کے استدلال کے مطابق وہ غیر ملکی جارحیت کے خلاف جدو جہد کر رہے ہیں، تاہم امریکہ کے انخلا کے بعد ان کا یہ جواز بھی ختم ہو چکا ہے اور عالمی برادری دوحہ معاہدے کے نتیجے میں بننے والی عبوری حکومت سے انتقال اقتدار کے لئے عوام کی منشا کے مطابق جدید نظام و انصرام کے تحت تمام سٹیک ہولڈر کی مشترکہ حکومت کا قیام چاہتے ہیں۔ افغان طالبان کی عبوری حکومت کا یہ جواز بھی اب تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ان گروپوں کو اقتدار میں شرکت نہیں کرے گی جو ان کے ساتھ طویل مدت سے جنگ کرتے رہے، کیونکہ افغان طالبان تو اب ان ممالک کے ساتھ تجارتی و سفارتی تعلقات اختیار کر رہے ہیں، جو افغانستان پر قابض رہے اور کشت و خون کا بازار گرم کیا۔ اسے میں افغان طالبان کی عبوری حکومت کا سیاسی سرگرمیوں اور نمائندہ حکومت میں پیش رفت نہ کرنا سوالیہ نشان ہے۔