Ali HassanColumn

عوام کی بنیادی ضرورت

تحریر : علی حسن
سندھ ہائیکورٹ نے حکومت کو صوبے کے 32اضلاع میں پبلک ٹوائلٹس ( عوام کے لئے بیت الخلاء) تعمیر کرنے کا حکم دے دیا۔ سندھ ہائیکورٹ میں عوامی مقامات پر پبلک ٹوائلٹس کی عدم دستیابی سے متعلق طارق منصور ایڈووکیٹ کی درخواست پر سماعت ہوئی، جسٹس صلاح الدین پہنور کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے فیصلہ سنایا۔ ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر درخواست گزار ( طارق منصور ایڈوکیٹ ) کو ہی نظر رکھنا چاہئے اور حکومت کی طرف سے عمل در آمد میں تاخیر پر توہین عدالت کی درخواست دائر کرنا چاہئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عدالتوں کے لاتعداد فیصلے اپنی جگہ موجود ہیں لیکن ان پر عملدرآمد ہی نہیں ہوتا ہے۔ انفرادی مفاد کے پیش نظر تو توہین عدالت کی درخواست دائر کی جاتی ہے لیکن جہاں اجتماعی مفاد ہوتا ہے وہ نظر انداز ہو جاتا ہے۔ شہروں میں قائم کھیل کے میدان ، پارک، قبرستان، وغیرہ کسی بھی ایسی سہولت سے محروم رہتے ہیں جو عوام الناس کی ضرورت پورا کرنے کے لئے بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ہائیکورٹ کے جسٹس صلاح الدین پھنور کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کا یہ فیصلہ کئی لحاظ سے یوں بہتر ہے کہ مسافروں اور بازاروں میں خریداری کے لئے آنے والوں خصوصا خواتین کو اذیت سے گزرنا پڑتا ہے۔ سالوں قبل حیدر آباد کے سب سے طویل اور بڑے شاہی بازار میں ہر تھوڑے فاصلے پر بیت الخلاء قائم تھے، جن سے بازار میں خریداری کے لئے آنے والے لوگ مستفید ہوتے تھے۔ بدبختی کا ایسا دور آیا کہ موقع پرست لوگوں نے سوچے سمجھے بغیر ان پر قبضے کر لئے۔ اپنا کاروبار کھول کیا۔ حیران کن امر یہ ہی کہ انہیں کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ پورے بازار میں موجود تمام بیت الخلاء پر قبضہ ہو گیا۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ خواتین خریدار غیر جان پہچان والے لوگوں کے گھروں پر دستک دے کر انہیں سہولت فراہم کرنے کی اجازت طلب کرتی ہیں۔ یہ آج بھی ہو رہا ہے۔ ایک ایک دوکان جس کی مالیت کروڑوں میں ہے، اسے بلدیاتی ادارے، کنٹونمنٹ بورڈ، نجی رہائشی سکیموں میں قائم بازاروں میں دکانوں وغیرہ میں کہیں بھی یہ سہولت موجود نہیں ہے کہ ضرورت مند افراد اپنی حاجت پوری کر سکیں۔ مرد حضرات مساجد کو رخ اختیار کرتے ہیں جو نماز کے اوقات کے بعد بند کر دی جاتی ہیں۔ خواتین کو اذیت سے ہی گزرنا پڑتا ہے۔ ایک ایک دکان سے لوگ کم از کم ہزاروں روپے کی خریداری کرتے ہیں لیکن مالکان دکان یہ احساس ہی نہیں رکھتے ہیں کہ ان کے گاہک اپنی حاجت پوری کرنے کہاں جائیں گے۔
بڑے شہر ہوں یا چھوٹے شہر، کہیں بھی افسران میں یہ احساس ہی نہیں پایا جاتا ہے کہ لوگ اپنی ضروریات کیسے اور کہاں پوری کریں گے۔ دنیا کے دیگر ممالک میں اس بات کو اس حد تک خیال رکھا جاتا ہے کہ ان ممالک کے بلدیاتی ادارے کے اہلکار پابندی کے ساتھ اپنے اپنے علاقے کے ایک، ایک کاروباری مرکز یا دکان کا دورہ صرف یہ ہی دیکھنے کے لئے کرتے ہیں کہ ان کے احکامات پر کس حد تک پابندی کی جا رہی ہے۔ کوئی درگزر نہیں، کوئی معافی تلافی نہیں بلکہ براہ راست جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔ اس جرمانہ کی وجہ سے دکاندار خوفزدہ رہتے ہیں۔ ہمارے ملک میں تو شہروں میں دکانوں میں یہ سہولت فراہم ہی نہیں کی جاتی ہے، اسی طرح ہائی ویز پر بھی سرکار کی طرف سے یہ سہولت فراہم نہیں کی جاتی ہے۔ جب مسافر زیادہ ہی شور کرتے ہیں تو ڈرائیور سڑک کنارے گاڑی روک دیتا ہے اور لاچار مسافر اپنی حاجت پوری کر لیتے ہیں۔ جہاں جہاں یہ سہولت موجود ہے، بڑے سرکاری دفاتر، تعلیمی ادارے وغیرہ ہوں وہاں صورتحال اتنی زیادہ خراب ہوتی ہے کہ بیت الخلاء میں داخل ہوتے ہی ابکائی ہوتی ہے کہ کوئی صفائی کا انتظام ہی نہیں ہوتا ہے۔ کہیں پانی نہیں ہوتا ہے، کہیں لوٹا نہیں ہوتا ہے۔ پٹرول پمپوں پر پابندی ہے کہ بیت الخلاء قائم کئے جائیں اور انہیں پابندی سے صاف رکھا جائے لیکن انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پٹرول پمپوں کے بیت الخلاء کی حالت بہت خراب ہوتی ہے جس پر مالکان توجہ ہی نہیں دیتے ہیں۔ پمپ قائم کرنے والی کمپنیاں بھی توجہ نہیں دیتی ہیں۔ کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ گھر یا دفتر سے مہنگی بڑی گاڑی میں نکلے، اگر ضرورت محسوس ہوئی تو لوگ سڑک کے کنارے ہیں ضرورت پوری کرتے ہیں۔ اہل خانہ کی موجودگی میں سڑک کے کنارے پیشاب بھی کرنا معیوب تصور کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں جہاں جہاں عوام کی سہولت کے لئے اقدامات ضروری ہوتے ہیں وہ ہی حکومت، انتظامیہ، بلدیاتی اداروں کی نظروں سے نظر انداز رہتے ہیں۔ وجہ کیا ہے اس کی وضاحت بنیادی طور پر عوام کے منتخب نمائندوں کو کرنی چاہئے ۔ سندھ کے اکثر علاقوں میں اس وقت ٹمپریچر 50ڈگری سے بھی تجاوز کر گیا ہے، ہر طرف گرمی، دھوپ، شدت لو کی تپش ہے۔ ایسے میں بلدیاتی داروں کی سرگرمی دیکھنے میں نہیں آتی ہے۔ اللہ کی مخلوق کی خدمت میں خوف خدا رکھنے والے لوگ مصروف عمل ہیں لیکن بلدیاتی محکموں کے اہلکار غائب ہیں۔ اس گرمی میں بلدیاتی ادارے لوگوں کے پینے کے لئے سبیلیں تو لگا سکتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ حیدرآباد شہر یا دیگر شہروں میں درختوں کی بھر مار ہوا کرتی تھی، جو سایہ فراہم کرنے کا معقول سبب ہوا کرتے تھے۔ کیا درخت لگانا بلدیاتی اداروں کی ذمہ داری نہیں ہے۔ لیکن وہ یہ ذمہ داری ادا کرنے میں سرے سے ناکام ہیں۔ کیا یہ ذمہ داریوں بھی عدالتیں یاد دلائیں گی؟ تمام صوبائی حکومتوں کو اپنے اپنے محکمہ بلدیات اور بلدیاتی اداروں کو از سر نو منظم کرنا چاہئے، اسی طرح جیسے قیام پاکستان سے قبل تھے۔ بلدیاتی ادارے پرائمری تعلیم سے لے کر صحت کی بنیادی ضروریات اور دیگر تمام ضرورتوں کو پورا کرتے تھے ۔ بعد میں حکومتوں نے بلدیاتی اداروں سے ذمہ داریاں واپس لے لیں جس کے بعد کوئی پرسان حال نہیں رہا ہے۔

جواب دیں

Back to top button