دبئی لیکس اور ٹوٹ بٹوٹ صحافی

تحریر : روشن لعل
اگر کوئی بچہ یا پھر بڑی عمر کا انسان ، اسقدر لاپرواہ اور نٹ کھٹ ہو کہ اپنے ناخوشگوار تجربوں کے باوجود بھی کسی کے سمجھانے سے نہ سمجھے اور مسلسل الٹی سیدھی حرکتیں کرتا رہے توعموماً اسے’’ ٹوٹ بٹوٹ‘‘ کا نام دے دیا جاتا ہے۔ ’’ ٹوٹ بٹوٹ‘‘ پاکستان میں بچوں کے لیے لکھے گئے ادب کا ایک کردار ہے۔ اس کردار کو اردو ادب کے اساتذہ میں اہم مقام رکھنے والے صوفی تبسم مرحوم نے تخلیق کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ صوفی تبسم مرحوم کے عبدالخاق نامی دوست کا ایک بیٹا تھا جو ضروری کام کے نام پر اکثر عجیب و غریب اور اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتا رہتا تھا۔ صوفی تبسم نے پہلے تو اپنے دوست کے بیٹے کو اس کے رویے کی وجہ سے ٹوٹ بٹوٹ کہا اور پھر بچوں کے لیے کچھ ایسی نظمیں لکھیں جن کے مرکزی کردار کا نام ٹوٹ بٹوٹ رکھا ۔ ان نظموں میں ٹوٹ بٹوٹ نے کھیر پکائی اور نوٹ بٹوٹ کے مرغے زیادہ مشہور ہیں۔ زیر نظر تحریر کے عنوان میں دبئی لیکس کے ساتھ ٹوٹ بٹوٹ صحافی کی گرہ لگی دیکھ کر قارئین کے ذہن میں یہ بات آسکتی ہے کہ کیا کوئی صحافی بھی ٹوٹ بٹوٹ ہو سکتا ہے ۔
صحافت دنیا کا سنجیدہ ترین ہی نہیں بلکہ خطرناک ترین پیشہ بھی تصور کیا جاتا ہے۔ بیک وقت سنجیدہ اور خطرناک ہونے کی وجہ سے دنیا بھر میں اس پیشے کو معتبر اور اس سے وابستہ لوگوں کو انتہائی قابل احترام سمجھا جاتا ہے۔ جہاں تک پاکستان کا معاملہ ہے ، یہاں کچھ صحافیوں نے مختلف قسم کی ’’ لیکس‘‘ انتہائی سنسنی خیز انداز میں لوگوں کے سامنے پیش کرنے کو اپنا محبوب مشغلہ بنا رکھا ہے۔ صحافت میں ، بدعنوانیوں سے مزین ایسے معاملات کو منظر عام پر لانے کو ’’ لیکس ‘‘ کہا جاتا ہے جنہیں کچھ لوگوں کے مفاد ات کے تحفظ کے لیے جان بوجھ کر خفیہ رکھا گیا ہوتا ہے۔ جن معاملات کو خاص حکمت عملی کے تحت، جان بوجھ کر خفیہ رکھا گیا ہوتا انہیں منظر عام پر لانے کو دنیا میں آسان نہیں بلکہ جان جوکھوں میں ڈال کر کرنے والا کا م سمجھا جاتا ہے۔ وطن عزیز کی صحافتی دنیا میں بہت کم نام ایسے ہیں جن کے متعلق وثوق سے کہا جا سکے کہ وہ اپنا کام جان جوکھوں میں ڈال کر کرتے ہیں۔ پاکستان میں جو ’’ لیکس ‘‘ زیادہ مشہور ہوئیں ، ان میں سے کسی پر بھی ہمارے صحافیوں نے انفرادی یا اپنے طور پر نہیں بلکہ کسی نہ کسی بیرونی ایجنسی کا حصہ بن کر کام کیا۔ ان صحافیوں نے کسی بیرونی ایجنسی کا حصہ بن کر کسی خفیہ رکھے گئے معاملے کو منظر عام پر لانے کا کام تو کر دیا مگر اس معاملے میں بعد ازاں اپنے ملک کی حد تک انفرادی طور پر جو کام کرنے کی گنجائش اور ضرورت موجود تھی اسے کرنے کی زحمت گوارا نہ کی۔ آج کل پاکستان میں ’’ دبئی لیکس ‘‘ کا بہت ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے۔ یہ ڈھنڈورا کانوں کو بہت بھلا لگتا اگر قبل ازیں یہاں ’’ پانامہ لیکس‘‘ اور’’ پنڈورا لیکس ‘‘ کے ڈرامے دیکھے نہ جا چکے ہوتے۔ جس قسم کے صحافیوں نے یہاں بدعنوانیوں کو بے نقاب کرنے نام پر پہلے’’ پانامہ لیکس ‘‘ اور ’’ پنڈورا لیکس‘‘ کا شور مچایا اور اب ’’ دبئی لیکس‘‘ کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں ان کے غیر شفاف طرز عمل سے نہ تو قبل ازیں ملکی وسائل لوٹنے والے بدعنوانوں کی اکثریت بے نقاب ہوئی اور نہ ہی اب ہونے کا امکان ہے۔ جن صحافیوں کا مقصد ’’ پانامہ، پنڈورا یا دبئی لیکس ‘‘ کا شور مچا کر کسی ایک یا چند سیاستدانوں کو نشانہ بنانا ہو اور ہر مرتبہ وہ اس طرح کی حرکت کرنے کے بعد کسی ضروری کام سے لمبی تان کر سو جاتے ہوں انہیں نہ جانے کیوں ٹوٹ بٹوٹ صحافی کہنے کو دل کرتا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں کوئی دور بھی ایسا نہیں گزرا جس میں ٹوٹ بٹوٹ نما صحافی اپنی کارگزاریوں میں مصروف نظر نہ آئے ہوں۔ جب بھی نسبتاً بہتر سیاستدانوں کو سیاسی منظر نامے سے غائب کرنے اور کاسہ لیس سیاستدانوں کو عوام کے ذہنوں پر سوار کرنے کے مقصد کے تحت بدعنوانی کے خاتمے کے نام پر پوڈا، پروڈا اور ایبڈو جیسے قوانین بنائے گئے، ہر ایسے وقت میں’’ ٹوٹ بٹوٹ ‘‘ صحافی ایسے قوانین کی وکالت کرتے پائے گئے۔ ماضی قریب میں ان’’ ٹوٹ بٹوٹ صحافیوں‘‘ نے اکتوبر 2007ء میں این آر او کے اجرا پر بہت زیادہ شور مچایا۔ این آر او کے اجرا پر جن صحافیوں نے شور مچایا اگر ان کا نشانہ صرف آصف علی زرداری نہ ہوتا تو انہیں ’’ ٹوٹ بٹوٹ ‘‘ کہنے سے گریز کیا جاسکتا تھا ۔ مشرف دور میں جو لوگ این آر او سے مستفید ہوئے ان کی کل تعداد 8041تھی۔ اس دھرتی کو سب کے لیے ماں جیسی بنانے کے دعووں کی بنیاد پر بحال ہونے والی عدلیہ اور ٹوٹ بٹوٹ صحافیوں نے آصف علی زرداری کو نشانہ بنا کر این آر او تو ختم کرا دیا مگر اس کے بعد کسی ٹوٹ بٹوٹ صحافی نے عدلیہ سے یہ پوچھنا گوارا نہ کیا کہ جس جوڈیشل ایکٹوازم کا نشانہ زرداری کو بنایا گیا ، ملک سے بدعنوانی کے خاتمے کے لیے اس قسم کے جوڈیشل ایکٹوازم کا مظاہرہ این آر او سے مستفید ہونے والے بقایا 8040لوگوں کے لیے کیوں ضروری نہیں سمجھا گیا۔
این آر او کے بعد پانامہ لیکس کا ڈھنڈورا پیٹا گیا۔ پانامہ لیکس میں شریف فیملی کے لوگوں سمیت کل 259پاکستانیوں کے نام شامل تھے۔ ان پاکستانیوں میں نہ صرف سیاستدان بلکہ دیگر شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ انتہائی متمول لوگ بھی شامل تھے۔ عدلیہ نے یہ اعلان کرتے ہوئے کہ شریف فیملی کے خلاف کاروائی کا آغاز کیا کہ پانامہ لیکس میں جن دیگر پاکستانیوں کا نام آیا ہے انہیں بھی نہیں چھوڑا جائے گا۔ بعد ازاں دیکھا گیا کہ عدلیہ نے شریف فیملی کے لوگوں کو تو وہ رعایت بھی نہ دی جو ان کا قانونی حق تھا مگر پانامہ لیکس میں شامل دیگر تمام لوگوں کو غیر اعلانیہ استثنا دیئے رکھا اور ہمارے وہ ٹوٹ بٹوٹ صحافی خاموش تماشائی ثابت ہوئے جنہوں نے شریف فیملی کے خلاف آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا۔
پانامہ لیکس کے بعد 2021میں جب ’’ پنڈورالیکس ‘‘ کا سکینڈل سامنے آیااس وقت پاکستان میں عمران خان کی حکومت تھی۔ حیر ت کی بات یہ ہے کہ پانامہ لیکس پر جن ٹوٹ بٹوٹ صحافیوں نے آسمان سر پر اٹھایا تھا، پنڈورا لیکس پر ان میں سے اکثر کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ پنڈورا لیکس میں جن 240پاکستانیوں کا نام آیا ان میں صرف سیاستدان ہی نہیں بلکہ دفاع، بزنس اور میڈیا سے وابستہ لوگ بھی شامل تھے۔ پنڈورا لیکس پر ٹوٹ بٹوٹ صحافی اور ہماری عدلیہ قطعاً اس طرح سے متحرک نہ ہوئی جس طرح انہیں این آر او اور پانامہ لیکس کے دوران دیکھا گیا تھا۔ پنڈورا لیکس کے بعد اب دبئی لیکس کا سکینڈل سامنے لایا گیا ہے۔ یہ سکینڈل 17000پاکستانیوں کی دبئی میں خریدی گئیں 23000جائیدادوں سے متعلق ہے۔ اس سکینڈل کے متعلق جو خبریں شائع ہوئی ہیں ان میں 17000پاکستانیوں میں سے ابھی تک صرف چند سیاستدانوں کا نام سامنے لایا گیا ہے ۔ اس مرتبہ بھی یہی لگتا ہے کہ ٹوٹ بٹوٹ صحافی چند سیاستدانوں کے ناموں کی جگالی کرنے کے بعد کسی دوسرے مبینہ بدعنوان پاکستانی کا نام لیتے ہوئے شرما جائیں گے۔