Column

علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید، ایک عہد ایک تحریک

میاں محمد توقیر حفیظ

علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ علامہ صاحب ایک دینی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ علامہ صاحب علم کے سمندر میں تاریخ ساز بلند قامت شخصیت کے حامل تھے۔ علمی و دنیا وی تعلیمی سر گر میوں کے بعد علامہ صاحب نے خطا بت کے ساتھ ساتھ میدان سیاست کا آغاز1967میں اقبال پارک میں عید کے خطبہ سے کیا شیخ الحدیث مولانا حافظ اسماعیل سلفی نے آپ کو مولانا سید دائود غزنوی کی اور اہلحدیثوں کی قدیم تاریخ ساز مسجد ’’ جامع مسجد چینیانوالی اہلحدیث ‘‘ کی مسند میں لا کر کھڑا کر دیا۔ جب 1975کو ختم نبوت کی چوکیداری کے فرائض سر انجام دینے والے آغا شورش کاشمیری مرحوم کو حق بیان کرنے کے جرم میں پابند سلال کر دیا گیا تو ایسے عالم میں ’’ فتنہ قادیانیت‘‘ اپنے عروج پر تھا تو ملک بھر کی تمام مذہبی جماعتوں میں ایک سناٹا چھایا ہوا تھا تب جمعیت اہلحدیث پاکستان کے بانی علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید محمد عربیؐ کی نبوت کی چوکیداری کی عظمت کے لئے میدان عمل میں نکلے اس وقت آپ خطابت اور جوانی کے پورے عروج پر تھے عالم اسلام کا یہ انمول سپاہی پوری آب و تاب کے ساتھ بے باکی، بے خوفی، شعلہ نوائی، اور قائدانہ صلاحیتیوں کے ساتھ میدان عمل میں اُترا کہ کوئی شخص بھی آپ کی اس ولولہ انگیز ،جرات اور لازوال ہمت کے سامنے ٹھہرنے کی جرات اور ہمت نہیں کر سکا۔
علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید مسلک اہلحدیث کے ماتھے کا جھومر ایک روشن چمکتا ہوا ستارہ تھے خطیب ایسے کہ دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں اور دلوں سے خوف باہر نکل جائے اور آمروں کے پانی پتے ہو جائیں۔ حق و صدقت کی جیتی جاگتی زندہ تصویر تھے ایسی خوشبو جس سے سارا عالم اسلام معطر ہو گیا شعلہ بیانی ایسی کہ شرک وبدعات کے ایوانوں میں سنا ٹا چھا جا تا۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید خطابت وسیاست کے بے باک شہسوار تھے آپ کا شمار عالم اسلام کے چند بڑے لوگوں میں ہو تا ہے جو اپنے آپ میں ایک مکمل فرد اور بھرپور تحریک تھے خطابت ایسی کہ دلوں سے خوف باہر نکال کر تی۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید عالم اسلام کے نامور سپوت، عظیم محقق، عظیم سیاستدان، بلند پایاں صحافی، بے باک لیڈر، شعلہ نوا خطیب، اور جرات مند قائد بن کر اُبھر ے۔ آپ کی للکار اور شعلہ نوائی خطابت نے جمعیت اہلحدیث اور سیاست کو ایک نیا رُخ دیا۔
علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید نے مختصر وقت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ صلاحیتوں سے جو بلند مقام حاصل کیا اپنے ہوں یا بیگانے سبھی اُن کی خداداد صلاحیتوں کے قائل ہوئے بنا رہ نہ سکے۔ میدان خطابت میں آپ کا کوئی ثانی نہیں تھا اور نہ ہی آج تک یہ خلاپر ہو سکا ہے۔ مدینہ یونیورسٹی میں قیام کے دوران جب آپ ابھی طالبعلمی کے دور میں تھے حج کے موقع پر آپ نے حرم نبوی ٔ باب السعود کے پاس کھڑے ہو کر عربی میں خطاب شروع کر دیا ایسی لطافت سے عربی میں خطاب جا ری رکھا کہ سننے والا دھنگ رہ گیا ایک پاکستانی اتنی روانی سے شعلہ نوائی انداز میں عربی خطاب بھی کر سکتا ہے۔ ایک دفعہ پھر آپ کو دوبارہ اسی جگہ خطاب کا موقع ملا نماز مغرب کا وقت تھا آپ نے حسب معمول ’’ آیات جہاد‘‘ تلاوت کیں فلسطین، کشمیر، قبرص کے حوالے سے تاریخ کو ایسے کھولا کہ سامعین کی آنکھیں بھیگتی چلی گئیں یہ ان دنوں کی بات ہے جب یہودیوں نے ’’ بیت المقدس‘‘ پر قبضہ جما لیا اور آپ کی خطابت میں شدت آتی چلی گئی سسکیاں آہوں میں بد ل گئیں ایک طنطنعہ تھا جس نے ماحول کو گرما دیا تھا علامہ شہید تقریر کر رہے تھے مسجد بنویؐ کے اندر سکوت طاری تھا، یہاں تلک کہ اذان عشاء نے تقریر کا سلسلہ منقطع کر دیا نماز کھڑی ہو گئی لیکن حرم کے یمین و یسار میں سسکیاں آہیں گونجتی رہیں جیسے ہی سلام پھرا لوگ اظہار محبت کیلئے آپ کی طرف لپکے، عربوں کے ہاں رواج ہے کہ وہ اظہار محبت کیلئے ماتھے کو چومتے اور ناک پر بوسہ دیتے اسی کشمکش میں آپ نے دیکھا ایک انتہائی خوب صورت وجیہ عرب چہرے پر ہلکی داڑھی رکھے دو نوجوانوں کی سہارے سے مجمعے کو دھکیلتے ہوئے آگے بڑھے جسم پر فالج کے اثرات اور طبیعت میں بزرگی کے اثرات نمایا ں تھے پوچھا کہاں سے ہیں؟ آپ نے جواب میں کہا پاکستان سے، اُنہوں نے حیرت واستعجاب سے پوچھا پاکستان سے؟ آپ نے کہا جی ہاں اُنہوں نے آپ کو اپنے گلے سے لگاتے ہوئے کہا پاکستانی ایسے ہی باکمال ہوتے ہیں لوگ مجھے عالم عرب کا سب سے بڑا خطیب کہتے ہیں لیکن میں آپ کو کہتا ہوں تم مجھ سے بڑے خطیب ہو آپ نے پوچھا آپ کون تو اُنہوں نے کہا ’’ ڈاکٹر مصطفیٰ سبائی‘‘، اب علامہ حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکے کہ عالم عرب کا اتنا بڑا خطیب مجھ گناہگار کو اتنے بڑے لقب سے ہمکنار کر چکا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ علامہ صاحب کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے خداداد صلاحیتوں سے نوازا تھا ۔
علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید عمدہ کمالی سے حالات کو ایسے قابو کرتے کہ دیکھنے والا حیران و ششدر رہ جا تا۔ ملک میں کوئی بھی احتجاجی تحریک ہوتی علامہ شہید کی شخصیت ہر تحریک میں پیش پیش ہوتی کوئی بھی تحریک آپ کی گھن گھرج خطابت کے بغیر مکمل نہیں ہو تی تھی ذوالفقار علی بھٹو کی نام نہاد پارٹی کے خاتمے کے لئے ’’ تحریک ختم نبوت‘‘ میں بھر چڑھ کر حصہ لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے آپ کا شمار مرکزی قائدین میں ہونے لگا۔ آپ ایم آرڈی کے رکن بھی رہے مگر اس میں زیادہ عرصہ شمولیت اختیار نہیں کی جب بھٹو نے غلام مصطفی کھر جیسے سفاک اور نام نہاد شخص کو پنجاب کا گورنر بنایا تو سب سے پہلے عالم اسلام کے نامور سپوت علامہ شہید نے کھر کی سفاکی اور ظلم کے خلاف کلمہ جہاد بلند کیا مال روڈ کی تحریک اس بات کی گواہ ہے جب فوج کے ایک افسر اپنے دستے کی سرپرستی کر رہے تھے اُنہوں نے مال روڈ پر جلوس کے راستے پر ایک سُرخ لائن کھینچ دی اور اعلان کر دیا جو بھی یہ لکیر عبور کرے گا اُس کا سینہ گولیوں سے چھلنی کر دیا جائیگا غالباً کرفیو کے دن تھے ایسے عالم میں ایک جلوس جس کی قیادت خطیب ملت علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید کر رہے تھے چلتے چلتے جلوس سُرخ لائن پر پہنچ گیا دوسری طرف فوج کے جوانوں نے اپنی بندوقیں چوکس کر لیں کہ کب ہما رے کمانڈر کا حکم ہو اور گو لیوں سے جلوس والوں کو چھلنی چھلنی کر دیا جائے ایسے عالم میں شیر دل قائد اپنا سینہ کھولے ہوئے کہتے ہیںکہ ابھی مائوں نے وہ بچہ نہیں جنا جو ’’ احسان الٰہی ظہیر‘‘ کے جلوس پرگو لیاں برسا سکے۔ آپ کی آواز میں اتنا دبدہ تھا اتنا رعب تھا کہ تنی ہوئی بندوقیں ہاتھ سے گر گئیں اور علامہ سُرخ لائن کو عبور کر گئے یہ آپ کی دلیری، شجاعت، بہادری کی عظیم داستان ہے۔
حریت فکر کی تاریخ میں علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید کا نام ہمیشہ سنہرے حروف سے جانا جائیگا۔ آپ سے کوئی اختلاف کرے یا اتفاق حقیقت یہی ہے کہ ان کی تقاریر دلوں سے خوف باہر نکال کرتی۔ علامہ صاحب کی خطابت کا طنطنہ اس بات کا واضح ثبوت تھا کہ اللہ رب العزت نے آپ کا خمیر ایسی مٹی سے اُٹھایا تھا جس میں نہ ڈر تھا، نہ خوف تھا، نہ دہشت تھی اگر تھا تو رب پر توکل تھا اللہ پر اعتماد تھا آپ نے سیاسی، صحافت، تحقیقی میدان میں بھی اپنی جرات اور بے باک قائدانہ صلاحیتوں کی بدولت لوہا منوایا آپ ایک شعلہ بیان خطیب تھے جب بھی تقاریر کرتے بڑے بڑے آمروں کی صفوں میں لرزا طاری ہو جاتا حتی کہ آپ اپنوں کے دلوں میں بھی کانٹوں کی طرح چبنے لگے۔
علامہ شہید نے جمعیت اہلحدیث پاکستان کو پو ری دنیا میں روشنا س کرانے کیلئے خود کو تحریکی میدان میں صف اول پیش کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے آپ نے تحریک نظام مصطفیٰ، تحریک استقلال، تحریک ختم نبوت، سقوط ڈھاکہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، آپ نے اہلحدیث نوجوانوں اور علمائے کرام کو ایک پلیٹ فارم جمع کرنا شروع کیا۔ اس موقع پر آپ کو اپنے ہی کچھ لوگوں میاں فضل حق، حافظ عبدالقادر روپڑی، مولانا معین الدین لکھوی کی مخالفت کو بھی سہنا پڑا مگر آپ نے اپنے مشن کو جاری رکھا۔ علامہ صاحب نے دن رات کی کوششوں سے ملک کے نامور جید علمائے کرام اور اہلحدیث نوجوانوں کی بہت بڑی کھیپ تیار کر لی اور دیکھتے ہی دیکھتے اہلحدیثوں کو ایک مضبوط، سیاسی و مذہبی قوت بنا کر ایک مضبوط پلیٹ فارم مہیا کیا نفاذ اسلام ، اہلحدیث کی عظمت و رفعت اور پاکستان کو اسلام کا دیس بنانے کیلئے ،محمد عربی ٔ کی عظمت کے لئے وطن عزیز کے تمام شہروں میں تاریخ ساز جلسہ عام کر کے اہلحدیثوں کو پوری دنیا میں روشناس کر وا دیا۔
(باقی صفحہ5پر ملاحظہ فرمائیں)
23مارچ1987کو قلعہ لچھمن سنگھ راوی روڈ لاہور میں ایک ’’سیرت النبیؐ ‘‘ کے عنوان سے جمعیت و اہلحدیث یوتھ فورس پاکستان کے زیر اہتمام عظیم الشان جلسہ عام کا انعقاد کیا گیا جلسے سے مولانا محمد خان نجیب شہید ، مولانا عبد الخالق قدوسی شہید، علامہ حبیب الرحمان یزدانی شہید کے علاوہ دیگر علمائے کرام نے پر زور خطا بات کئے۔ علامہ یزدانی شہید کی تقریر کے بعد قائد اہلحدیث علامہ شہید کو دعوت سخن دی گئی آپ کی تقریر ہمیشہ شیر ربانی علامہ حبیب الرحمان یزدانی شہید کے بعد ہوا کرتی تھی اس عظیم الشان جلسے میں بھی آپ کا خطاب، خطاب عام تھ، آپ نے اپنے روایتی انداز میں تقریر شروع کی آپ سیرت النبیؐ کے موتی بکھیر رہے تھے اسی اثناء میں آپ جب اقبالؒ کے اس شعر پر پہنچے
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
پر مومن تو ہے بے تیغ بھی لڑ
ابھی یہ فقرہ مکمل بھی نہ ہونے پایا تھا کہ ایک ہولناک دھماکہ ہوا اور قیامت صغرا برپا ہو گئی۔ مولانا محمد خان نجیب، مولانا عبدالخالق قُدوسی، علامہ حبیب الرحمان یزدانی موقع پر ہی جام شہادت نوش کر گئے ( انا للہ وا نا الہ راجعون) جبکہ علامہ صاحب شدید زخمی حالت میں میو ہسپتال داخل ہوئے۔ عالم اسلام کے عظیم مجاہد ملت30مارچ1987 کی درمیانی شب سعودی عرب ’’ ریاض ‘‘ میں شہادت جیسے عظیم رتبے پر فائز ہو گئے۔
بچھڑا وہ اُس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اک شخص سارے جہان کو ویران کر گیا۔
آپ کی نماز جنازہ ریاض میں آپ کے شفیق اُستاد محترم الشیخ علامہ عبدلعزیز ابن باز نے بڑے ہی رقت آمیز انداز سے پڑھائی۔ تاریخ کا ایک روشن باب ہمیشہ کے لئے گل ہو گیا۔ عالم اسلام کے نامو ر سپوت اور مدینہ کی گلیوں کے عاشق کو سیدنا امام مالک کے پہلوئوں میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ اللہ رب العزت نے آپ کو سر زمین رسول ٔ کا مہمان بنا دیا اللہ اکبر کتنی سعادت کی بات ہے کہ جب روز محشر جنت البقیع سے تمام صحابہ کرامؓ اور ازواج مطہراتؓ کو اُٹھایا جائے گا تو اُن میں اللہ رب العزت کے یہ عظیم مجاہد ملت علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید بھی شامل حال ہوں گے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
تمہی سو گئے داستان کہتے کہتے

جواب دیں

Back to top button