Column

ماضی سے نکلیں مستقبل میں جھانکیں

تحریر : سیدہ عنبرین
ہر آنے والا سیاسی دن ابہام دور کرتا نظر آتا ہے، انتخابات کرانے کے فیصلے میں سنجیدگی نظر آنے لگی ہے اب کوئی واقعہ ہو جائے یا حادثہ، انتخابات کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیا جائیگا۔ انتخابی کمپین میں آج بھی سیاستدان ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے نظر آتے ہیں اس سے بڑھ کر شاید ان کے پاس کچھ اور ہے بھی نہیں دنیا مستقبل میں زندہ رہنا چاہتی ہے ہمارے صف اول کے سیاستدان ماضی کے لحاف اوڑھے موسم سرما کا مزہ لے رہے ہیں، سوئی وہیں پر اٹک کر رہ گئی ہے کہ ’’ مجھے کیوں نکالا‘‘۔ وہ یہ بھولے بیٹھے ہیں کہ وہ بذات خود کسی اور کو ایک سے زائد مرتبہ نکلوانے میں سہولت کار بنے تھے۔ مجموعی طور پر تقریباً دس مرتبہ اقتدار گھر آیا ہر مرتبہ اس سے وہی سلوک کرتے نظر آئے جو کبھی صدی پہلے گھر کی لونڈی سے کہا جاتا تھا۔ دس مرتبہ اقتدار کیوں اور کیسے ملا اس کا حساب نہ دینے پر کمربستہ پرانی راگنی چھیڑے بیٹھے ہیں جو سن سن کر قوم اکتا چکی ہے، اس کے سر تال میں اب سننے والوں کیلئے کوئی کشش نہیں رہی جبکہ نئی راگنی تیار کرنے کی صلاحیت نہیں۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں ہونے کے دعویداروں نے اپنے ووٹر اپنے سپورٹر کو کیا سوچ دی ہے، عوامی سروے اس کی قلعی کھول رہے ہیں۔
کیمرہ مائیک اٹھائے ایک نوجوان اندرون سندھ جا نکلا تا کہ جان سکے نوجوان کیا سوچ رہے ہیں، سوال تقریباً اٹھارہ برس کے لڑکے سے تھا، آپ بڑے ہوکر کیا بنیں گے، جواب شادی کریں گے، دلہا بنیں گے۔ دوسرا سوال شادی کے بعد۔۔ نوجوان نے مسکراتے ہوئے جواب دیا بچے پیدا کریں گے، آخری سوال یہ تھا کہ شادی بھی ہو گئی بچے بھی پیدا ہو گئے وہ آپ کی عمر کو پہنچ گئے پھر اس کے بعد آپ کیا کریں گے۔ نوجوان کے چہرے پر خوشی رقصاں نظر آئی وہ چہکتے ہوئے بولا، پھر ہمارے بچے کام کریں گے کمائیں گے اور ہم بیٹھ کر کھائیں گے۔ اندازہ کیجئے ایک اٹھارہ سالہ نوجوان کا آئندہ اٹھارہ برس کیلئے صرف ایک خواب ہے کہ اس کے بچے کام کریں گے یعنی محنت ضروری کریں گے اور وہ بیٹھ کر کھائے گا، گویا اس نے زندگی کے سب سے اہم خواب کی تعبیر پا لی۔ کیمرہ اور مائیک صوبہ خیبر کے گائوں میں پہنچتا ہے۔ اٹھارہ سالہ نوجوان سے پوچھا جاتا ہے، صوبہ خیبر کے دیہی علاقوں میں ہر گھر میں چھ، چھ، آٹھ، آٹھ بچے نظر آتے ہیں اس کی وجہ کیا ہے، نوجوان جواب دیتا ہے، ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی اور کام ہی نہیں ہے۔ کیمرہ اور مائیک اپنا سفر طے کرتے کرتے پنجاب کے ایک گائوں میں رکتا ہے۔ پنجاب کو آدھا پاکستان کو کہا جاتا ہے جو درست ہے، وسائل سے مالا مال اور آبادی میں بھی پہلے نمبر پر موجود پنجاب کے ایک گائوں کی سوچ بھی کچھ کم افسوسناک نہ تھی۔ ہمارے مستقبل کی وارث سمجھی جانے والی نئی نسل کے نمائندہ اٹھارہ برس کے نوجوان سے پوچھا آپ کیا کرتے ہیں، سوال سن کر نوجوان کے چہرے پر کچھ ایسے تاثرات ابھرے جیسے اسے کسی نے بہت غلیظ گالی دے دی ہو، معاملے کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے سوال کو ایک مختلف انداز میں دہرایا گیا کہ دیکھئے اللہ تعالیٰ نے ان گنت مخلوقات پیدا کی ہیں ہر ایک اپنے انداز میں کچھ نہ کچھ کرتی نظر آتی ہے۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات کا درجہ عطا فرمایا تو یقیناً اس کی ذمہ داریاں دیگر مخلوق سے کچھ مختلف اور کچھ اہم ہونگی۔ اب آپ فرمائیے کہ آپ کیا کرتے ہیں۔ زندگی کے شب و روز کیسے بسر ہوتے ہیں اس گفتگو کے بعد خیال تھا کہ نوجوان کا غصہ کچھ ٹھنڈا پڑ جائے گا اور وہ سوچ سمجھ کر شاید سوال کا کچھ معقول جواب دیگا لیکن یہ خواہش پوری نہ ہو سکی نوجوان پہلے سے زیادہ بھڑک اٹھا پھر اس نے سر کو جھٹکتے ہوئے جواب دیا۔ میرے چار بھائی بیرون ملک ہیں مجھے کچھ کرنے کی کیا ضرورت ہے، میں زندگی کو انجوائے کر رہا ہوں سوچ یہ تھی کہ اگر گھر میں روٹی کے لالے نہیں پڑے تو پھر کچھ کرنے بالخصوص علم و ہنر سیکھنے کی تو کوئی ضرورت ہی نہیں۔ باقی رہا معاملہ زندگی کو انجوائے کرنے کا تو اب انٹر نیٹ نے ’’ انجوائمنٹ‘‘ کے طریقے ہر ایک کو سکھا دئیے ہیں بلکہ گھر کی دہلیز تک پہنچا دئیے ہیں۔ صرف دس برس قبل جس بات بلکہ واہیات فعل کے بارے میں صرف سوچا جا سکتا ہے اب آن لائن بکنگ کی باتصویر سہولت موجود ہے، شہروں اور گائوں میں ذوق، شوق، رجحان ایک جیسا ہی ہے، ضرورت ہو نہ ہو جیب میں جدید ترین آئی فون ہونا ضروری ہے، پھر موٹر سائیکل ہو یا کار، ٹینک بھروایا جاتا ہے اور پہلے سے منتظر شخصیت کو فون کر کے پک کیا جاتا ہے۔ پھر فریقین ضروری کام سے فارغ ہوکر اپنے اپنے گھر پہنچ جاتے ہیں، جہاں انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ نمک کی کان میں جا کر گھر کا ہر فرد نمک بن چکا ہوتا ہے۔ پولیس اور انتظامیہ ایک گھنٹے کے نوٹس پر کرونا اور سموگ کنٹرول کرنے میں پورا شہر کامیابی سے بند کرا دیتی ہے ستر برس ہوئے ہیں اس سے جوئے، منشیات اور فحاشی کے اڈے بند نہ ہوسکے۔
گزشتہ ہفتے لاہور کے ایک متمول گھر کا بگڑا ہوا نوجوان اسی قسم کی انجوائمنٹ تلاش کرنے گھر سے نکلا اور ایک ایسی کار کا تعاقب کرنے لگا جس میں ایک شریف خاندان کی خواتین اپنے گھر کے مردوں کے ساتھ بیٹھی تھیں، منع کرنے کے بعد اپنی حرکتوں سے باز نہ آیا پھر بات نہ ماننے پر اس نے کار سوار خاندان کو زچ کرنے کیلئے اپنی کار ڈیڑھ سو کلومیٹر کی رفتار سے چلاتے ہوئے انہیں سائیڈ ماری، حادثے کے نتیجے میں کار میں سوار ایک ہی خاندان کے چھ افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔ بگڑے ہوئے نوجوان کو بچانے کیلئے اور اسے نابالغ ثابت کرنے کیلئے آدھا لاہور متحرک ہے۔ جو بیچارے بے موت مارے گئے ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
سروے کے آخری مرحلے میں کیمرہ اور مائیک بلوچستان کے ایک گائوں میں پہنچتا ہے ایک خوش پوش نوجوان کو روک کر یہی سوال کیا جاتا ہے کہ آپ بڑے ہو کر کیا کام کرنا پسند کریں گے۔ نوجوان کا جواب لکھتے ہوئے قلم کو پسینہ آگیا ہے، نوجوان نے اپنے ہاتھ کا مکہ بنایا پھر ایک انتہائی فحش ایکشن کیا۔
نوجوانوں کی جس تعداد پر ہم فخر کرتے ہیں خوشی سے پھولے نہیں سماتے اس کی سوچ یہ ہے، قومی سطح کا سیاستدان پوچھتا پھرتا ہے مجھے کیوں نکالا، کوئی اس سے پوچھے اس نے نوجوان نسل کو دیا کیا ہے۔ کاش وہ سمجھیں، ماضی سے نکلیں، مستقبل میں جھانکیں۔ آج کل انہیں سسٹم میں ایک مرتبہ پھر ڈالا جارہا ہے جس پر پورا خاندان بہت خوش و مطمئن ہے۔

جواب دیں

Back to top button