کشیدگی کسی کے مفاد میں نہیں ؟

عبد الرزاق برق
موجودہ نگران حکومت کی دور میں ایک بار پھر افغانستان اور پاکستان کے درمیان پاکستان میں دہشت گرد کارروائیاں زیادہ ہونے سے کشیدگی زوروں پر ہے، جس سے یہ خدشہ لاحق ہو رہا ہے کہ دونوں ممالک کے باہمی تعلقات تنائو، کشیدگی کے عمل سے گزرتے ہوئے بالاخر کھلی مخاصمت کی جانب بھی بڑھ رہے ہیں۔ اس کشیدگی اور مخاصمت کی وجہ سے نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ بعض لوگ حکومت پاکستان کو یہ تجویز دے رہا ہیے کہ پاکستان کو افغانستان کے اندر گھس کر دہشت گردی کے ٹھکانوں کو تباہ کر دینا چاہیے، اس بارے میں اہم سوال یہ ہے کہ ایسے کارروائی کرنے سے کس کا نقصان، کس کا فائدہ ہوسکتا ہے؟ کیا ایسی کارروائی کا ردعمل خطرناک نہیں ہو سکتا؟ کشیدگی اور باہمی عدم اعتماد کے اس ماحول میں اگر خدا نخواستہ ایک نئی افغان جنگ چھڑ جائے، کیا ہم ایک نئی جنگ کے متحمل ہوسکیں گے یا نہیں؟، اگر ہم مجبوراً جنگ یا افغانستان کے اندر آپریشن کی طرف دھکیلے گئے تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی اور تنائو کیوں پیدا ہوا ؟ افغان طالبان تو وہی طالبان ہیں جن کے کابل پر قبضے کے بعد ہم نے جشن منایا۔ اس سے پہلے جب افغانستان میں کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتیں تھی ہمارے تعلقات ان کے ساتھ اچھے نہیں بن سکے۔ ہماری ہمدردیاں افغان طالبان کے ساتھ تھیں، انہی طالبان کے لئے پاکستان دنیا بھر میں بدنام ہوا، پھر اس خطے میں کیا ہوا کہ نگران حکومت اور افغان حکومت کے درمیان کشیدگی پیدا ہوئی ؟۔ جس وقت ہم نے طالبان حکومت کی حمایت کی تھی کیا اس وقت ہمارے عقل کو تالے لگے ہوئے تھے؟ تو پھر کیوں افغان حکومت کی حمایت کی گئی؟۔ اب دونوں طرف سے ایک دوسرے پر الزامات لگانے کے بیان بھی سامنے آنے کے بعد ایسا لگ رہا ہے کہ یہ کشیدگی اور تنائو ہرگز ختم نہیں ہوگا بلکہ اور آگے بڑھے گا، کیا موجودہ وقت ایک دوسرے کو کڑا جواب دینے کا ہے یا حالات کو ٹھنڈا کرنا ہے، بظاہر ہمارے اس خطے میں افغانستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں کشیدگی ٹی ٹی پی کے افغانستان سے پاکستان میں دہشت گرد حملی پیدا کرتے ہیں، جن میں اب تک سیکڑوں اہلکار و افراد شہید ہوئے ہیں، ان حملوں کو روکنے کے لئے حکومت پاکستان نے بار بار افغان حکومت سے درخواست کرنے کے ساتھ اس بات کے واضح ثبوت افغان طالبان کو دئیے کہ پاکستانی طالبان کو افغان طالبان اور ان کی حکومت کی مکمل سرپرستی حاصل ہے، مگر اس کے جواب میں افغان طالبان نے اپنا سرکاری موقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اندرونی مسائل خود حل کرے اور اپنی ناکامی کا ذمہ دار افغانستان کو قرار نہ دے، اسی لئے پاکستان کی موجودہ نگران حکومت نے افغان حکومت کو دوٹوک الفاظ میں پیغام دیا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی یا پاکستان میں کسی ایک کو چن لیں، ایک اہم سوال یہ بھی بنتا ہیے کہ کیا افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف افغانستان کے اندر کارروائی کر سکتے ہیں ؟، افغان طالبان کی حکومت ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی اس لئے نہیں کر سکتی کہ ٹی ٹی پی اور افغان طالبان ایک نظریہ، ایک سوچ رکھتے ہیں، ٹی ٹی پی نے افغانستان میں افغان طالبان کے ساتھ امریکہ اور نیٹو کے خلاف بیس سال جنگ لڑی ہے اور اس بات کے کئی ثبوت بھی موجود ہیں کہ امریکہ اور نیٹو کی فوجوں پر ٹی ٹی پی نے خود کش حملے بھی کئے، اب اگر افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کریں گے تو بہت سے ٹی ٹی پی والے افغان طالبان کے دشمن کی صفوں میں شامل ہوں جائیں گے، جس کے بہت سے نقصانات افغان طالبان کو پہنچیں گے، اب اگر افغان طالبان ٹی ٹی پی اور دشمن دہشتگردوں کے خلاف کارروائی نہیں کریں گے تو باقی دنیا ان کے دعوے کو کوئی اہمیت نہیں دے گی کہ آئندہ افغان سرزمین دہشت گردوں کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ طالبان حکومت اگر چاہتی ہے کہ دنیا اسے تسلیم کرے تو دہشت گردوں کے خلاف بھرپور طریقے سے کارروائی کرنا ہوگی۔ افغانستان اور پاکستان کے درمیان موجودہ تنائو اور کشیدگی خاتمی کے لئے نگران حکومت کو چاہیے کہ کل جماعتی کانفرنس کا انعقاد کرکے تمام سیاسی پارلیمانی جماعتوں کو اعتماد میں لیا جائے اور ساتھ ہی سفارتی اور دیگر ذرائع سے طالبان حکومت کو مجبور کیا جائے کہ وہ ٹی ٹی پی کی حمایت چھوڑ دے، اس کے علاوہ طالبان کے اندر اپنا حامی گروپ ڈھونڈا جائے اور اس کی مدد کی جائے کیونکہ ایک اور افغان جنگ ملک کے لئے تباہ کن ہوگی، جنگ معیشت کے متضاد ہیں اور یہی جنگ ہمیشہ معیشت کو لے بیٹھتی ہے۔ افغان قیادت پاکستان سے رابطہ کرے اور ان تمام معاملات میں بہتری لانے کا راستہ نکالنے کا طریقہ کار طے کرے جو دونوں ممالک کے لئے خرابی کا باعث بن رہے ہیں۔ افغان طالبان کسی دوسرے کے ہاتھوں میں کھیلنے کے بجائے اپنے عوام اور پاکستان میں حالات کی بہتری کے لئے قدم اٹھائیں تاکہ پاکستان 45برس کے بعد امن کے راستے پر آسکے۔ جس طرح پاکستان نے ایک بھرپور کارروائی کے ذریعے افغانوں کو ان کے وطن واپس بھیجنے کا انتظام کیا ہے، افغان حکومت بھی اسی طرز پر ایک آپریشن لانچ کرکے وہاں سے غیرقانونی طور پر موجود پاکستانیوں کو ان کے وطن بھیجنے کا انتظام کرے، پاکستان کی جانب سے افغان طالبان حکومت پر الزام عائد کرنے کی بجائے ہمیں براہ راست امریکہ اور نیٹو سے پوچھنا چاہئے کہ انہوں نے کیوں افغانستان کے اندر اربوں ڈالر کے اسلحہ چھوڑا، جو اب انتہاپسندوں کے ہاتھ لگا اور انہوں نے امریکی اسلحے کا استعمال کیا۔