کانگو وائرس، بچائو اور احتیاطی تدابیر۔۔۔۔!

طارق خان ترین
بلوچستان میں رواں سال کانگو وائرس سے متاثرین کی تعداد 70تک پہنچ گئی جبکہ 18افراد ان متاثرین میں وائرس کی وجہ سے جاں بحق ہوچکے۔ ابھی حال ہی میں کوئٹہ کے سنڈیمن سول ہسپتال میں 29، 30اکتوبر کو ایک شخص میں اس وائرس کی تصدیق ہونے کے بعد سے کہیں ڈاکٹرز اور نرسس میں اس وائرس کی تصدیق ہوئی۔ اس وقت تک 60افراد میں اس مرض کی تشخیص ہوچکی ہے جن میں سے 15افراد کا تعلق شعبہ صحت سے ہے۔ ابھی تک 10ڈاکٹرز سمیت 15 افراد کو علاج کے لئے کراچی ریفر کر دیا گیا ہے۔ ہسپتال کے جس وارڈ سے یہ وائرس پھیلا ہے محکمہ صحت کی جانب سے اس وارڈ کو سیل کر دیا گیا ہے۔ بتایا یہ جارہا ہے کہ متاثرہ مریضوں میں سے 2کی حالت تشویشناک ہے۔ ڈاکٹر شکراللہ جن کا تعلق ضلع آواران سے تھا جو اپنے والدین کا اکلوتا بیٹے اور چار بہنوں کے ایک ہی بھائی تھے، اس مرض مرگ میں مبتلا ہوکر خالق حقیقی سے جاملے۔
کانگو وائرس کو کریمین کانگو ہیمورہیجک فیور ( سی سی ایچ ایف) بھی کہا جاتا ہے۔ یہ وائرس کریمیا میں 1944ء میں سامنے آیا تھا اور اس وقت اس وائرس کی موجودگی بر اعظم افریقہ کے ملک کانگو میں بھی نظر آئی تھی، جس کی بنیاد پر اس کا نام ’’ سی سی ایچ ایف‘‘ رکھا گیا تھا۔ ڈاکٹروں کے مطابق کانگو وائرس کی انسانوں میں منتقلی کے دو طریقے ہو سکتے ہیں۔ پہلا یہ کہ جانوروں کے جسم میں ایک چھوٹا سا کیڑا جسے ’’ ٹک‘‘ کہتے ہیں وہ اگر کسی انسان کو کاٹ لے تو اس سے یہ بیماری لگ سکتی ہے۔ کسی جانور کو یہ بیماری لاحق ہو اور یہ کیڑا اس کا خون چوس رہا ہو تو وہ انسان کو کاٹنے کے بعد اس وائرس کو خون میں منتقل کر دیتا ہے۔ دوسری صورت میں یہ جانوروں کے خون سے بھی براہ راست منتقل ہوسکتا ہے، خاص کر قربانی کرتے وقت جب جانور کے جسم سے خون نکلتا ہے۔ اس کا کوئی قطرہ انسان کے ناک، منہ یا آنکھ میں چلا جائے تو یہ وائرس پھیل سکتا ہے۔ متاثرہ جانور کی کھال میں چھپے یہ کیڑے ٹک قربانی کے وقت جانور کی کھال اتارنے کے دوران انسانی جلد پر چپک کر بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اگر اس سے کوئی انسان متاثر ہو جائے تو پھر ایک انسان سے دوسرے میں وائرس منتقل ہونا عام بات ہے۔ یہ ایک شخص سے دوسرے شخص میں خون، لعاب یا پسینے یا پھر مریض کے ساتھ جسمانی ملاپ سے منتقل ہوسکتا ہے۔ اگر کانگو وائرس جانوروں کو لگ جائے تو ان میں اس کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں کیوں کہ اس وائرس کے باوجود بھی جانور صحت مند ہی نظر آرہے ہوتے ہیں۔ کانگو وائرس کی علامات میں تیز بخار کے ساتھ ساتھ گلے میں درد، نزلہ، جوڑوں اور ریڑھ کی ہڈی میں درد کے ساتھ ساتھ متلی اور قے ہونا شامل ہے۔ اس کے علاوہ چہرے اور آنکھوں کا سرخ ہوجانا، جسم پر سرخ دھبے نمودار ہونا بھی کانگو وائرس کی علامات ہیں۔ کانگو وائرس کے لگتے ہی مریض کے پلیٹ لیٹس میں واضح کمی ہونے لگتی ہے اور جب یہ وائرس مریض کے بدن میں پھیل جائے تو پھر قوتِ مدافعت کم ہو جانے کے بعد ہونے والا بخار ہیمورجک فیور کی شکل اختیار کر جاتا ہے جس میں انسانی جسم کے کسی بھی حصے ( ناک، منہ، پیشاب کی جگہ) سے خون آنے لگتا ہے۔ وائرس سے متاثرہ مریض کا خون پتلا ہونے لگتا ہے، جس سے خون کے بہنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ وائرس جگر اور گردوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔ اس بیماری کا علاج ادویات سے تب ممکن ہے کہ اگر تشخیص بروقت ہوجائے، لیکن اگر تشخیص بروقت نہ ہو تو یہ بیماری مہلک ثابت ہوسکتی ہے۔ ابھی تک اس وائرس سے بچائو کے لیے کوئی ویکسین نہیں بنائی گئی ہے، جسے استعمال کرتے ہوئے اس سے بچا جاسکے۔
بلوچستان میں ہر سال بڑی تعداد میں کانگو وائرس کے کیس رپورٹ ہونے کے باعث کوئٹہ میں فاطمہ جناح چیسٹ اینڈ جنرل ہسپتال میں کانگو کے مریضوں کے لیے ایک الگ آئیسولیشن وارڈ قائم کیا گیا ہے تاہم محکمہ صحت کے حکام کے مطابق کانگو سے متاثرہ ایک مریض کو سول ہسپتال کے شعبہ میڈیسن میں داخل کیا گیا تھا، جو ہسپتال میں کانگو وائرس کے پھیلائو کی وجہ بنا۔ بلوچستان میں کانگو وائرس کے بڑھتے کیسز کے پیش نظر ریڈ الرٹ جاری کرکے ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کردی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ 2ہفتے کیلئے نجی مذبح خانوں پر دفعہ 144کے تحت پابندی عائد کی گئی اور شہری آبادی سے دور قائم مذبح خانوں میں جانور ذبح کئے جاسکیں گے۔
بہرحال ہمیں احتیاطی تدابیر اختیار کر لینے چاہیے اور حکومت کو چاہیے کہ تمام ڈیجیٹل میڈیا کے ساتھ ساتھ مین سٹریم میڈیا پر اس بیماری کے تدارک کے لئے لوگوں کو آگاہی فراہم کرے۔ اور ساتھ ہی ساتھ اس بیماری کی روک تھام کے لئے موثر اقدامات اٹھانے چاہئیں تاکہ یہ بیماری مزید نہ پھیل سکے۔ مال مویشیوں کو چیچڑوں سی بچانے کے لیے ان پر چیچڑ مار سپرے کیا جائے۔ ذبح شدہ جانوروں کی آلائشوں کو احتیاط کے ساتھ ٹھکانے لگایا جائے۔ بھیڑ، بکریوں اور دیگر مویشیوں کو ذبح کرتے ہوئے اور ان کی کھال اتارتے ہوئے احتیاط کی جائے۔ قصائیوں اور کھال کے کاروبار کرنے والے افراد کو بے حد احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ مویشی منڈی میں جانوروں کو دیکھنے یا ان کے دیکھ بھال کے وقت دستانوں کا استعمال کریں اور یا چیچڑ وغیرہ سے بچائو کا لوشن لگایا جائے۔ جانوروں کا گوشت دھوتے ہوئے دستانوں کا استعمال کرنے کے علاوہ گوشت کو اچھی طرح سے پکایا جائے۔ متاثرہ مریضوں کی دیکھ بھال کرتے وقت دستانوں، ماسک اور حفاظتی لباس کا استعمال کیا جائے۔ متاثرہ شخص سے ملنے یا ان کی دیکھ بھال کے بعد ہاتھوں کو باقاعدگی سے صابن وغیرہ سے دھویا جائے۔ مریض کا بچا ہوا کھانا تلف کیا جائے۔ کانگو سے ہلاک ہونے والے شخص کی جسمانی رطوبتوں سے احتیاط کرتے ہوئے ان کے غسل اور تدفین کا انتظام کیا جائے۔ یقینی طور پر ان تدابیر پر عمل کرنے سے بچایا جاسکتا ہے۔