بیٹیوں کو ناگوار بوجھ نہ بننے دیں

رفیع صحرائی
بات صرف اتنی سی تھی کہ نکاح کے وقت دلہن کے والد کے منہ سے یہ بات نکل گئی تھی کہ نکاح نامے میں اس شرط کا اندراج کیا جائے کہ اگر دلہا بلاوجہ اپنی بیوی کو طلاق دے گا تو اسے پانچ لاکھ روپے بطور ہرجانہ ادا کرنے ہوں گے۔ یہ سنتے ہی دلہا کا والد آگ بگولا ہو کر کہنے لگا کہ آپ نے ہمیں سمجھ کیا رکھا ہے، کیا ہم اتنے گئے گزرے اور گھٹیا لوگ ہیں کہ اپنے بیٹے کا رشتہ شرطوں پر کریں گے، یہ تو سراسر ہماری توہین کی گئی ہے۔ بات بگڑتے بگڑتے یہاں تک پہنچ گئی کہ بغیر دلہن ہی بارات کی واپسی کا فیصلہ کر لیا گیا۔ دلہن کے والد نے تھوڑی دیر بعد ہی لوگوں کے کہنے پر اپنے مطالبے سے دستبرداری کا اعلان کر دیا تھا مگر دلہا کا باپ تھا کہ کسی طور مان ہی نہیں رہا تھا۔ دلہن کے باپ شفیق صاحب کی تین بیٹیاں تھیں۔ ان تینوں سے چھوٹا ایک بیٹا تھا مراد۔ شفیق صاحب ایک سرکاری محکمے میں ملازم تھے۔ اوپر کی آمدنی کے سخت خلاف تھے۔ بیوی انہیں کافی سگھڑ ملی تھی۔ شوہر کی قلیل آمدنی میں سے بھی کچھ نہ کچھ بچت ہر مہینے کر لیا کرتی تھی۔ کپڑے سلائی کرنا جانتی تھی۔ ادھر سے بھی کچھ آمدن ہو جایا کرتی تھی۔ رشتہ دار سبھی امیر تھے اس لیے نہ کبھی وہ ان کے ہاں آئے اور نہ ہی یہ لوگ ان کے ہاں جانے کی ہمت کر پاتے۔بیٹیاں تو بکائن کا درخت ہوتی ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے بڑی ہو جاتی ہیں۔ شفیق صاحب کی تینوں ہی بیٹیاں جوان ہو چکی تھیں۔ میاں بیوی کو اب دن رات ان کی شادی کی فکر کھائے جاتی تھی۔ جاننے والوں کے علاوہ رشتہ کرانے والوں سے بھی بڑی بیٹی کے رشتے کے لیے کہہ رکھا تھا۔ بے تحاشہ مہنگائی کے اس دور میں تینوں بیٹیوں کی ایک ساتھ شادی کرنا ممکن نہ تھا۔ ایک کا فرض ادا ہو جاتا تو باقی دو کے بارے میں سوچتے۔ایک رشتہ کرانے والی مائی کے ذریعے ہی یہ رشتہ طے ہوا تھا۔ لڑکا کسی فیکٹری میں سپروائزر تھا۔ رشتہ کرانے والی نے لڑکے اور اس کے خاندان والوں کی تعریفوں کے اتنے پُل باندھے تھے کہ شفیق صاحب اور ان کی بیگم کو اپنی بیٹی کی قسمت پر ناز ہونے لگا تھا۔ رشتہ طے ہوا اور شفیق صاحب کے گھر لڑکے والوں کی آمدورفت شروع ہو گئی۔ کبھی نند، کبھی جیٹھانی، کبھی چاچی ساس، کبھی مامی ساس تو کبھی تائی ساس۔ ہر رشتے کو یکساں احترام دلانے کی خاطر وہ لوگ الگ الگ ٹولیوں میں آتے رہتے اور آنے سے پہلے فون کر کے آگاہ کر دیا جاتا کہ آپ لوگوں نے جس خلوص اور محبت سے مامی اور ان کے گھر والوں کی خاطر تواضع کی ہے اس نے تو انہیں
آپ کا گرویدہ بنا دیا ہے اور تائی امی کے گھر والوں کے سامنے مامی نے آپ لوگوں کی اتنی تعریف کی ہے کہ وہ لوگ بھی آپ کے ہاں آنے کو بے تاب ہو گئے ہیں۔ اس لیے کل ہمارے ساتھ تائی امی کے گھر والے آ رہے ہیں۔ یہ گویا ایک طرح کی وارننگ ہوتی تھی کہ دیکھنا مہمانوں کی خاطر مدارات میں کوئی کمی نہ آنے پائے۔ جہاں تک مہمانوں کا تعلق تھا تو ان کی آمد کے ساتھ ساتھ جہیز کی آئٹمز کی فہرست بھی لمبی ہوتی جا رہی تھی۔ براہٍ راست بھی اور بالواسطہ طور پر بھی مطالبات کی فہرست میں اضافہ ہو رہا تھا، ’’ اے بہن بیٹی کو فریج کون سی کمپنی کی لے کر دے رہی ہو؟، زیادہ بڑا اے سی نہ دینا دو ٹن کا ہی کافی ہے۔ موٹر سائیکل اچھی کمپنی کی دیجئے گا‘‘۔ پندرہ لاکھ روپے جہیز پر خرچ ہو گئے تھے۔ کچھ پاس تھے باقی قرض لیا گیا تھا۔ شادی کی تاریخ طے کرنا بھی باقاعدہ ایک تہوار کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ اور اس تہوار کا سارا بوجھ لڑکی والوں کو اٹھانا پڑتا ہے۔ مہمانوں کی وی آئی پی کھانے سے تواضع کرنے کے علاوہ سب کے لیے کپڑے خریدنے پڑتے ہیں۔ مہمان دس ہوں یا پچاس، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ شفیق صاحب کو پندرہ لوگوں کا بتایا گیا اور پینتالیس مرد و خواتین آ گئے۔ افراتفری میں ہوٹل سے ریڈی میڈ کھانا منگوانا پڑا اور مزید تیس لوگوں کے لیے کپڑوں کا بندوبست کرنا پڑا۔ پھر یوں ہوا کہ چار، پانچ لوگوں نے شفیق صاحب کو گھیر لیا کہ بارات میں کتنے بندے آ جائیں؟ وہ چپ کھڑے ان کا منہ دیکھنے لگے، اس اچانک حملے کے لیے وہ ذہنی طور پر تیار ہی نہیں تھے۔ مہمانوں میں سے ہی ایک بولا ’’ دیکھیں جی ڈیڑھ سو کے قریب تو ہمارے رشتہ دار ہی بنتے ہیں، سو کے قریب دوست احباب اور محلے دار ہو جائیں گے۔ آپ بس ڈھائی سو باراتیوں کا انتظام کر لیجئے گا اور ہاں بارات کے ساتھ واپسی پر دو دیگوں سے زیادہ کھانا مت بھیجے گا‘‘۔ شفیق صاحب گُنگ کھڑے تھے کہ اب انہیں کیا جواب دیں کہ مت لانا اتنے بندے، میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ وہ لوگ شفیق صاحب کے جواب کا انتظار کیے بغیر چلتے بنے۔ مہمان چلے گئے تو شفیق صاحب حساب لگانے بیٹھ گئے کہ چار، پانچ لاکھ سے زائد رقم تو صرف کھانے کی مد میں ہی درکار ہو گی۔ صرف ایک بیٹی کی شادی پر تیس لاکھ روپے خرچ ہوتے نظر آ رہے تھے۔ وہ سوچ رہے تھے کہ اس پہلی بیٹی کی شادی پر لیا گیا قرضہ واپس کرنے میں ہی تین، چار سال لگ جائیں گے۔ باقی دو بیٹیوں کی شادی کا فرض کیسے ادا ہو پائے گا۔ اب نکاح کے وقت دولہا کے والد نے نیا بکھیڑا کھڑا کر دیا تھا۔ جب بات بگڑتی ہی چلی گئی تو شفیق صاحب کے دوستوں اور محلے والوں کو بھی طیش آ گیا اور پھر پہلا تھپڑ دلہے کے والد کے منہ پر پڑنے کی دیر تھی کہ پوری بارات گھونسوں، تھپڑوں، جوتوں اور ڈنڈوں کی زد میں آ گئی۔ لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا اس لیے ہر ایک نے حسبٍ توفیق اس کارٍ خیر میں حصہ ڈالا۔ جس باراتی کا جدھر منہ اٹھا بھاگ کھڑا ہوا۔ شادی میں شریک شفیق صاحب کے دفتر میں ہی ملازم ایک نوجوان کے ساتھ لڑکی کا نکاح کر کے رخصتی کر دی گئی۔ یہ کوئی افسانہ نہیں سچا واقعہ ہے۔ دوستو! آئیے مہم شروع کریں کہ بیٹی کو والدین کے لیے عذاب بنانے کی بجائے رحمت ہی رہنے دیا جائے۔ توڑ دیجئے فضول رسموں کی یہ زنجیریں جن کی وجہ سے ایک باپ توبہ کر اٹھے کہ اللّٰہ اس کو بیٹی ہی نہ دے۔ قبل از اسلام بیٹی کو پیدا ہوتے ہی مار دیا جاتا تھا، کہیں ایسا نہ ہو کہ قبیح رسموں کی وجہ سے مہذب معاشرے میں الٹرا سائونڈ رپورٹ دیکھ کر بیٹیوں کو پیدائش سے پہلے ہی والدین قتل کرنا شروع کر دیں۔ ان رسموں سے چھٹکارا پا لیں کہ جن کی وجہ سے بیٹی ماں باپ کی غربت دیکھ کر اپنی شادی کا خیال ہی دل سے نکال دے۔ اپنے بیٹے کے لیے سادگی سے نکاح کر کے بہو گھر لا کر دیکھیں، اپنی بیٹی کو بھی ایسے ہی سادگی سے رخصت کر کے دیکھیں، آپ کو سکون ملے گا، یاد رکھئے کہ یہ بیٹیاں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جتنی لاڈلی نہیں ہیں اور نہ ہی یہ بیٹے حضرت علی کرم اللہ وجہہ جتنے محترم ہیں، آئیے عہد کریں کہ آنے والی نسل کی زندگی کو آسان بنائیں گے۔ بیٹی کو رحمت ہی رہنے دیں گے، اسے ناگوار بوجھ نہیں بننے دیں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: سب سے برکت والا نکاح وہ ہے جو آسان ہو اور کم خرچ ہو ( مشکوۃٰ شریف)