ظلم کے اندھیرے مٹا نے کا ابدی پیغام

تحریر : نثار حسین
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور سیرت طیبہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اس کی عملی تصویر ہے، اس میں نہ صرف معاشی ، سماجی انصاف، معاشرتی نظام، حقوق و فرائض سفارتکاری سمیت زندگی کے تمام پہلوئوں کا حل موجود ہے بلکہ حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی انفرادی اجتماعی اور گھریلو زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں جس سے حیات طیبہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے رہنمائی نہ لی جا سکے۔ آپؐ نے انسان کو غلامی سے نجات دلائی، عدل و انصاف سے دلوں پر حکمرانی کی اپنے کردار و عمل سے دشمن کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ اہل مکہ نے آنحضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑے، ہجرت پر مجبور کیا اور سالوں جنگ کرتے رہے لیکن فتح مکہ کے بعد جب آپؐ مکہ میں داخل ہوئے تو سر رب العزت کے آگے جھکا ہوا تھا۔ آپؐ نے در گزر کیا، نجی زندگی ہو یا تجارتی معاملات، ہر جگہ آپؐ کا کردار ایک جیسا ہے۔ ریاستی قوانین سے لے کر انفرادی معاملات تک حکام پر عمل کر کے امت کو عملی نمونہ پیش کیا۔ آپؐ تمام فیصلے وحی خدا اور پیغمبرانہ بصیرت سے کرتے۔ اس لئے وہ علم انسانی، بصیرت سے بے انتہا بہتر ہوتے، ہجرت کے بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آئے تو معاشی طور پر لوگ دو حصوں میں تقسیم تھے، کچھ مالدار اور کچھ متوسط، ان حالات میں محسن انسانیتؐ نے سود کا خاتمہ کیا اور فرمایا کہ تم سب بھائی بھائی ہو، ایک دوسرے کے کام آئو، انصار کو قرضہ حسنہ دینے کی ہدایت کی۔ حضور صلی علیہ وسلم کے فضائل کا احاطہ ممکن نہیں مگر آپ صلی علیہ وسلم کی ذات اقدس سے ظاہر ہونے والے روحانی معجزات و کمالات کا مقصد دلوں میں ان کی عظمت و تکریم کا نقش ثبت کرنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادات و اطوار اور افعال و اعمال سے آپؐ کے اسوہ حسنہ کے مطالعہ کا موقع ملتا ہے اور اس کی روشنی میں انسان اپنے عمل کی اصلاح کر سکتا ہے اور اپنی زندگی کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے سانچے میں ڈھال سکتا ہے۔ سیرت کا یہ پہلو اطاعت کی ترغیب دیتا ہے، سیرت نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے حوالے سے قران مجید ہی معیار ہے اس امر میں کوئی اختلاف نہیں کہ قرآنی حکام و تعلیمات نبویؐ اور اخلاق و کردار محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کا سب سے عظیم منبع ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’مومنو! بے شک تمہارے لیے رسول اللہ کی زندگی بہترین نمونہ عمل ہے‘‘۔ ( الاحزاب21:33)، ’’ اور ( اے رسول) ہم نے آپ کو سارے جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا‘‘۔ ( الانبیا107:21)، ’’ یقینا آپ کا خلق عظیم ہے‘‘۔ ( القلم 4:6)۔ حقیقت یہ ہے تمام معاشی نظام الگ الگ متضاد نام کے حامل ہونے کے باوجود سارے ایک ہیں اور ان کا بنیادی فلسفہ ایک ہے، سب نظام روٹی کی بات کرتے ہیں اور یوں
انسان نے معیشت کو ترجیح دے کر خود کو بھلا دیا ہے اور خالق کائنات کی طرف رجوع کرنے کے بجائے ہر مسئلہ کا حل خود تلاش کرنا شروع کر دیتا ہے۔ قرآن مجید کا یہ اعلان ہے کہ دنیا کی ہر چیز، زمین، جائیداد، سونا، سب کا مالک رب العزت ہے: ’’ ہاں وہ اپنی ملکیت اپنے بندوں کو نفع کمانے کے لئے اس شرط پر دیتا ہے کہ وہ اس کے استعمال میں اللہ کے پابند رہیں‘‘، اللہ تعالیٰ نے جو کچھ تمہیں دیا ہے اس کے ذریعے آخرت بنانے کی کوشش کرو دنیا میں بھی اپنے حصے کو نظر انداز نہ کرو اور جس طرح تم پر اللہ نے احسان کیا تم بھی دوسروں پر احسان کرو اور زمین پر فساد پھیلانے کی کوشش نہ کرو تاہم اسلامی معاشی نظام میں تجارت کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور کہا گیا ہے زیادہ رزق تجارت میں ہے۔ اور ’’ زر‘‘ یعنی کرنسی حقیقی دولت پر مبنی جنس سونا گندم چاول وغیرہ ہو تا ہے اور یہ سب سود و ہر قسم کے ٹیکس سے پاک ہونا چاہئے اور انسان کو رویوں میں آخرت کو مد نظر رکھنا چاہیے۔ اسلامی مالیات اور کاروبار کے بنیادی اصول قران وسنت میں بیان کر دئیے گئے ہیں اسلام میں دولت کی تقسیم اور ایک متوازن معاشی نظام کے لئے ضروری ہے کہ سیرت طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کر کے اس سے رہنمائی حاصل کی جائے اور اس پر عمل کر کے جامعہ منصوبہ بندی اور حکمت عملی مرتب کی جائے تاہم موجودہ معاشی مشکلات اور چیلنجز سے نمٹنے کیلئے معاشرے میں عدل و انصاف بھی لازمی ہے۔