نگران صرف نگرانی کریں

علی حسن
ڈالر کی اڑان پر قابو پانے کے لئے اس کے پر کاٹے جا رہے ہیں اور اس کے بارے میں پیسے پیسے کی کمی کے بارے میں خبریں دی جا رہی ہیں۔ ابھی ڈالر کے ریٹ پر قابو پانی کی بات ہو رہی تھی کہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کی خبریں عام ہو گئیں۔ چینی اور کھاد کے ذخائر پر چھاپوں کی خبریں بھی عام ہیں۔ یہ سب کچھ بہترین ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ پہلے کیوں نہیں ہو سکتا تھا۔ انٹیلی جنس بیورو ( آئی بی) وفاقی حکومت کا خفیہ اطلاعات جمع کرنے کا ادارہ ہے، جو معلومات جمع کر کے وزیر اعظم اور دیگر محکموں کو معلومات فراہم کرتا ہے۔ اسی دارے کی ایک رپورٹ کے مطابق کہ چینی اور ڈالر کی سمگلنگ میں مختلف صوبوں میں کتنے کتنے لوگ ملوث ہیں۔
آئی بی کے مطابق گزشتہ سال 417رپورٹس متعلقہ محکموں کو بھجوائی تھیں، حساس ادارے کی نشاندہی پر 90147میٹرک ٹن ذخیرہ شدہ اور سمگل ہونے والی گندم قبضے میں لی گئی۔ رپورٹ میں سمگلروں کی مدد کرنے والے 259اہلکاروں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق صوبائی حکومتوں میں تعینات اہلکار سمگلروں اور ذخیرہ اندوزں کو مدد فراہم کرتے ہیں۔ پنجاب میں 272، سندھ میں 244، خیبر پختونخوا میں 56، بلوچستان میں 15اور اسلام آباد میں 5 سرکاری اہلکار سمگلروں کے مددگار اور ساتھی ہیں۔ گندم کی سمگلنگ میں592 ذخیرہ اندوزں کی نشاندہی کی گئی ہے، گندم کی سمگلنگ میں 26سمگلر شامل ہیں۔ سرکاری ذرائع کا دعویٰ ہے کہ حکومتی ہدایات پر انتظامیہ اور سکیورٹی اداروں کی جانب سے ڈالر کی سمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف کارروائیوں کے بعد بعد روپے کی قدر میں مسلسل بہتری آرہی ہے۔
صرف پشاور سے اطلاعات ہیں کہ ایف آئی اے کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران 440کارروائیاں کی گئیں جس دوران 44 دکانوں کو سیل کیا گیا جبکہ 519افراد کو گرفتار کرکے ان سے ایک کروڑ 80لاکھ ڈالر بھی برآمد کیے گئے۔ وہ کام جو پی ڈی ایم حکومت کو کرنے تھے وہ نہیں ہو سکے تھے۔ آئی بی کی رپورٹوں پر بر وقت عمل د ر آمد کیوں نہیں کیا گیا تھا۔ ایف آئی اے کے حکام کا کہنا ہے کہ بیرون ممالک میں حوالہ ہنڈی میں ملوث افراد کیخلاف انٹرپول سے بھی رابطے کیے گئے ہیں۔ نیب افسران کو وفاقی وزارتوں اور ریگولیٹری اتھارٹیز کی کارکردگی بہتر بنانے کیلئے ڈیپوٹیشن پر تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ نیب افسران کو ایف بی آر، اسٹیٹ بنک، ایف آئی اے اور وفاقی وزارتوں میں تعینات کیا جائے گا۔ نیب کے افسران کو 2سال کے لیے ڈپیوٹیشن پر بھیجنے کی پالیسی بنائی جائے گی۔ نیب افسران کے تجربے سے وفاقی وزارتوں اور اداروں کی کارکردگی بہتر ہو سکے گی۔ چیئرمین نیب نے وفاقی حکومت سے نیب افسران کو ڈپوٹیشن پر بھجوانے کیلئے خط لکھ دیا ہے۔
نیب کہاں تک افسران مختلف محکموں میں بھیجے گی۔ جب اداروں کو کسی اصول اور ضابطوں کے بغیر چلایا جائے گا تو انجام وہ ہی ہوگا جو پاکستان کے مختلف اداروں کو ہو رہا ہے۔ یہ خبر ہے کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز ( پی آئی اے) بند ہونے کے دہانے پر پہنچ گئی ہے۔ طیارہ ساز کمپنیوں بوئنگ اور ایئر بس نے طیاروں کے پرزے فراہم کرنے کا پروگرام بند کر دیا ہے۔ پی آئی اے کے اعلیٰ انتظامی افسر نے نجی ٹی وی چینل کو بتایا ہے کہ آئندہ دو دن میں پی آئی اے کو فنڈز نہ ملے تو پی آئی اے کا فلائٹ آپریشن جاری نہیں رہ سکے گا۔ ذرائع کے مطابق انٹرسٹ سپورٹ پروگرام کے تحت حکومت پی آئی اے پر عائد قرضوں پر سود کی ادائیگی کیلئے ہر سال 23ارب روپے دیتی ہے جبکہ قرض کی ادائیگی پی آئی اے خود کرتی ہے، گزشتہ سال پی ڈی ایم حکومت نے یہ رقم پی آئی اے کو نہیں دی اور اب نگران حکومت نے بھی ہاتھ کھڑے کر رکھے ہیں۔ رقم نہ ملنی کے باعث پی آئی اے کی ادائیگیوں کا توازن بگڑ گیا ہے جبکہ قابل پرواز طیارے 30 سے کم ہوکر 23ہوئے اور پچھلے 15دن کے دوران مزید کم ہوکر 16رہ گئے اور اسی باعث پروازیں کم ہونے سے یومیہ آمدنی میں کروڑوں روپے کی کمی ہوگئی۔ ایندھن کے پیسے ادا نہ کرنے پر دبئی ایئرپورٹ پر پی آئی اے کے چار طیاروں جبکہ سعودی عرب کے دمام ایئرپورٹ پر ایک طیارے کو روک لیا گیا تھا۔ دمام ایئرپورٹ پر پی آئی اے کو 20ملین ریال کی ادائیگی کرنی ہے تاہم بعد میں تحریری یقین دہانی پر واپس جانے کی اجازت دی گئی۔ وزارت ہوا بازی نے وزارت خزانہ پر واضح کر دیا ہے کہ اگر پی آئی اے کو آ ئوٹ سورس کرنا ہے تو فلائٹ آپریشن جاری رکھنا ہوگا، تب ہی پی آئی اے کو اچھا خریدار مل سکتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نگران حکومت تذبذب کا شکار ہے کہ فنڈز فراہم کرے یا پی آئی اے کو بند کر دے۔ پی آئی اے ترجمان کا کہنا ہے کہ ایئر لائن انتظامیہ وزارت خزانہ سے مسلسل رابطے میں ہے اور صورتحال کی بہتری کی کوشش کر رہی ہے۔ نگران حکومت بھی نجکاری کے معاملہ پر کام کر رہی ہے اور پی آئی اے کو موجودہ بحران بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ یہ غور کرنے کے لئے کوئی تیار نہیں ہے کہ پی آئی اے دنیا کی بہترین کمپنی ہونے کے باوجود اس تباہی پر کیوں پہنچی ہے۔ آمدنی سے بہت زیادہ اخراجات کمپنی کی تباہی کا سبب ہیں۔
ڈالر، چینی، گندم، کھاد، پٹرول، بجلی وغیرہ وغیرہ کی قیمتوں میں تو اضافہ تو معمول کی کہانی بن گئی ہے اور اب کارروائی کر کے بغلیں بجائی جارہی ہیں لیکن کیا حکمرانوں اور حکام کے علم میں ہے کہ کراچی جیسے ملک کے سے بڑے شہر میں لوگوں کے لئے زندہ رہنا تو مشکل ہی ہے لیکن اپنے مردوں کی تدفین بھی ایک عجیب و غریب معاملہ بن گیا ہے۔ قبرستان بھی مافیا کے کنٹرول میں ہیں لیکن انتظامیہ بری طرح ناکام ہے۔ قبروں کے لئے سرکاری فیس کے ساتھ اضافی پیسے وصول کئے جارہے ہیں۔ کراچی میں مجموعی طور پر 213قبرستان ہیں۔ بلد یہ عظمیٰ کی حدود میں 38قبرستان ہیں، ہر قبرستان میں قبر کی الگ الگ قیمتیں ہیں، بہت سے قبرستانوں پر کچھ عناصر کا قبضہ بھی ہے، جہاں قبروں کی من مانی قیمت وصول کی جا رہی ہے۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے قبرستانوں میں قبر کی سرکاری قیمت 14500روپے ہے جبکہ قبرستان کا عملہ 25سے 50ہزار روپے تک وصول کر رہا ہے۔ سب سے زیادہ ریٹ سوسائٹی قبرستان میں ہے، جہاں ایک سے پانچ لاکھ روپے تک کی قبر فروخت کی جا رہی ہے جبکہ میوہ شاہ اور پاپوش نگر قبرستان مبینہ طور پر مافیاز کے کنٹرول میں ہے، جہاں کے ایم سی کا عملہ داخل بھی نہیں ہوسکتا۔