کاراباخ انتخابات، بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی

امتیاز عاصی
دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں جس کی اپنے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ کسی نہ کسی حوالے سے کشیدگی نہ ہو۔ ماسوائے امریکہ کہ جس نے اپنے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھے ہوئے ہیں۔ روس سے آزادی حاصل کرنے کے باوجود وسطی ایشیائی ملکوں کو کسی نہ کسی ملک سے کشیدگی کا سامنا ضرور ہے ۔آذربائیجان کی خطے میں امن اور استحکام کی کوششوں کے باوجود خطے میں کشیدگی کم ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔ آرمینیاء کی حکومت اور کاراباخ علیحدگی پسندوں کے حمایتی دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی بڑھانے کے لئے کوشاں ہیں۔ کاراباخ جنگ میں آرمینیا اپنی شکست کے باوجود اشتعال انگیزی جاری رکھے ہوئے ہے۔ کاراباخ پر آرمینیا کے غیر قانونی قبضے کے بعد کٹھ پتلی حکومت کی طرف سے صدارتی انتخابات دراصل جمہوریہ آذربائیجان کے آئین اور بین الاقوامی قانون کے اصولوں کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ جمہوریہ آذربائیجان کا آئین اور قوانین ہی جمہوریہ آذربائیجان کے علاقے میں انتخابات کے ذریعے اپنی مرضی کے اظہار کی قانونی بنیاد بناتے ہیں۔ یہ سب کچھ کٹھ پتلی علیحدگی پسند حکومت اس کی جارحیت اور نسلی تطہیر کی پالیسی کا نتیجہ ہے جو قریبا تیس سال تک جاری رہی۔ آرمینیا کی فوجی، سیاسی، مالی اور دیگر اقسام کی حمایت کی وجہ سے اس حکومت نے اپنے وجود کو جاری رکھنے کے لئے جو اقدامات کئے ہیں ان کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے۔ یہ تمام اقدامات آرمینیا کی اشتعال انگیز سرگرمیوں کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ نام نہاد انتخابات ظاہر کرتے ہیں کہ آرمینیا اور اس کی تخلیق کردہ کٹھ پتلی حکومت جس نے جمود کو برقرار رکھنے اور اپنی قبضے کی پالیسی جاری رکھنے کے لئے جو اقدامات کئے ہیں امن کے عمل میں واقعی دل چسپی نہیں رکھتے حالانکہ آرمینیا کو اپنے عوام اور عالمی برادری کو دھوکہ دینے کی فضول کوششوں کو ختم کرنے کے ساتھ آذربائیجان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے خلاف دعووں کو ختم کرنا چاہیے۔ ایک طرف وہ کاراباخ سمیت آذربائیجان کی علاقائی سا لمیت کو تسلیم کرتے ہیں دوسری طرف وہ دستاویز میں جو کچھ کہا گیا ہے اس پر عمل کرنے سے انکاری ہیں۔ آذربائیجان کے صدر الہام علیئیف نے کئی بار نیکول پشینیان کے امن معاہدے پر دستخط کی اہمیت کا اظہار کیا لیکن وہ آذربائیجان کی علاقائی سالمیت کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں۔ دونوں ملکوں کے مابین کشیدگی کا عمل جاری رہا تو سرحدوں کی تعین کا معاملہ طول پکڑ سکتا ہے۔دونوںملک اگر ایک دوسرے کی علاقائی سالمیت کو تسلیم نہیں کرتے تو اس سے کشیدگی میں اضافے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ درحقیقت بین الاقوامی دنیا میں کچھ ممالک اب بھی آرمینیائیوں کے حمایتی ہیں۔ سوال ہے کاراباخ کو آذربائیجان کا علاقہ تسلیم نہیں کرتے تو مغربی زنگیزرو کو آرمینیا کا حصہ کیسے تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ کاراباخ کی آرمینیائی کمیونٹی باکو کے ساتھ بات چیت سے انکار کرتی ہے اور آغدام خنکیندی سٹرک کھولنے سے انکار کرتی ہے تو آذربائیجانی فوج کے لئے خطے میں امن وامان قائم کرنا ضروری ہو جائے گا۔آرمینیا کے دوران آرمینیائی علیحدگی پسندوں نے سرسنگ کے ذخائر میں ماحولیاتی تباہی پیدا کی جس میں پانی کی گنجائش 560ملین کیوبک میٹر تھی۔ سارسنگ آبی ذخائر پر کونسل آف یورپ کی پارلیمانی اسمبلی کی قرارداد بھی آذربائیجان میں سرسنگ آبی ذخائر کے انتظامات کو سنبھالنے کی بنیاد بناتی ہے۔ آرمینیائی اور آذربائیجان کے درمیان تنازعہ میں فرانس کی پالیسی واضح ہے کم از کم توازن برقرار رکھنے کی بھرپور کوشش کی۔ فرانس نے دوسری کاراباخ جنگ اور اس کے بعد کے عرصے میں آرمینیا کا پورا پورا ساتھ دیا۔ میکرون کے یک طرفہ بیانات فرانسیسی شہروں کے میئروں کا ایک گروپ لاچین روڈ کے آغاز پر آنا اور اشتعال انگیز بیانات دینا آذربائیجان میں علیحدگی پسندی کو فروغ دینے کے اقدامات ہیں۔ اہم بات یہ ہے واشنگٹن آذربائیجان کے ساتھ امن و سلامتی ور توانائی کے تعاون کو اہمیت دیتا ہے۔ آذربائیجان نے حالیہ برسوں میں یورپ کو توانائی کی فراہمی میں اہم کردار ادا کیا۔ روس یوکرین جنگ کے پس منظر میں دیکھا جائے تو آذربائیجان یورپی یونین اور امریکہ دونوں کے مفادات کو پورا کرتا ہے۔ دوسری طرف واشنگٹن بھی آذربائیجان کی یوکرین کے لئے انسانی امداد کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ بدقسمتی سے بین الاقوامی دنیا میں کچھ عناصر اب بھی ہیں جو آرمینیائیوں کی سنجیدگی کو آواز دینے کو ترجیح دیتے ہیں یہی وہ مراکز ہیں جنہوں نے تیس سال تک آذربائیجان کی سرزمین پر قبضے سے آنکھیں چرائیں۔ان حالات میں کاراباخ آرمینیائی باشندوں کو اس بات کا فیصلہ کرنا ہوگا وہ آذربائیجان کے قوانین کے تحت رہنا چاہیں گے یا آذربائیجان چھوڑنا ہوگا ۔ کاراباخ کے اس حصے میں اب بھی افراتفری ہے جو قبضے سے آزاد نہیں ہوا ہے علیحدگی پسندوں کے رہنما نے استعفیٰ دے دیا ہے اور اس کی جگہ کسی اور کو مقرر کیا گیا ہے لہذا اس کا ایک ہی حل انہیں غیر مسلح ہونا اور آذربائیجان کی شرائط کو قبول کرنا ہوگا ۔اگر کاراباخ کی آرمینیائی کمیونٹی باکو کے ساتھ بات چیت سے انکار کر تی ہے اور آغدام خنکیندی سٹرک کو کھولنے سے انکار کرتی ہے تو آذربائیجان کی فوج کے لئے خطے میں امن و امان قائم کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ آرمینیائی حکام اور علیحدگی پسند اپنی گرفت چھوڑنے اور لاچین جانے والی سٹرک کو کھولنے کا مطالبہ کرتے ہیں جو ناممکن ہے۔ قبضے کے دوران انہوں نے لاچین روڈ کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کیا، ہتھیار اٹھائے، سڑکوں پر بارودی سرنگیں بچا دیں جسے آذربائیجانی فوج نے کیا اور لاچین روڈ کے آغاز میں ایک سرحدی کراسنگ پوائنٹ قائم کر دیا گیا ہے۔ چنانچہ فی الحال کاراباخ آرمینی باشندے اس سٹرک کا استعمال کرتے ہیں اور سرحدی کراسنگ پوائنٹ پر آذربائیجان کے سرحدی محافظوں کی طرف سے جانچ پڑتال کے عادی ہو چکے ہیں۔ یہ بات علیحدگی پسندوں کے مفادات کو پورا نہیں کرتی جن کے ہاتھ بے گناہوں کے خون میں رنگے ہیں وہ سرحدی کراسنگ پوائنٹ کو استعمال کرنے اور آذربائیجان چھوڑنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ ادھر پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کاراباخ کو جمہوریہ آذربائیجان کا خودمختار علاقہ قرار دیتے ہوئے غیر قانونی حکومت کی طرف سے نام نہاد انتخابات کی کوشش کی مذمت کی ہے۔ ترجمان نے نام نہاد انتخابات کو اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون اور اصولوں کی خلا ورزی قرار دیا ہے۔