Column

مسلح افواج اور قوم یک جان ایک قالب

محمد اعجاز الحق
آج 6ستمبر وطن عزیز کا 58واں یومِ دفاع ہے۔ قوم ہر سال ملی جوش و جذبے اور ملک کی بقاء و سلامتی کی خصوصی دعائوں کے ساتھ یومِ دفاع مناتی ہے۔ گزشتہ سال ملک بھر میں ہونیوالی سیلاب کی تباہ کاریوں کے باعث یومِ دفاع کے حوالے سے پروگرام اور تقریبات محدود کر دی گئی تھیں افواج پاکستان نے سیلاب زدگان کی معاونت و بحالی کیلئے خدمات سرانجام دینے کے باعث یومِ دفاع کی تقریب منسوخ کی گئی تھی، اس ملک کی حفاظت کے لیے مسلح افواج اور قوم یک جان ایک قالب ہیں، دونوں کا باہمی اعتماد ملک کی ترقی، دفاع اور اس خطہ میں امن تباہ کرنے والی کسی بھی قوت کے خلاف قوت ایمانی کا وہ نشان ہے جسے تا قیامت مٹایا نہیں جاسکتا، ہماری عسکری قوت کی دھاک اللہ کے کرم سے دشمن کے دلوں پر بیٹھی ہوئی ہے، ہم پر امن ہیں اور امن چاہتے ہیں لیکن بد امنی پھیلانے والوں کے لیے خوف کی علامت ہیں، آج دن کا آغاز مساجد میں نماز فجر کے بعد شہدائے جنگ ستمبر کیلئے قرآن خوانی اور ملک و قوم کی سلامتی و استحکام کی خصوصی دعائوں سے ہوگا جبکہ دفاع وطن کیلئے جانیں نچھاور کرنیوالے پاک فوج کے جوانوں اور افسران کی قبور اور یادگاروں پر پھول چڑھانے کی تقاریب کا انعقاد ہوگا اور شہداء کیلئے فاتحہ خوانی کی جائیگی۔ اس حوالے سے آج سول و فوجی حکام، سیاسی قائدین اور عوام شہداء کی یادگاروں پر حاضری دیں گے۔ شہداء کی قبروں پر پھولوں کی چادریں چڑھائی جائیں گی۔ آج یومِ دفاع کی اہمیت اہلِ پاکستان کیلئے اس حوالے سے بھی اجاگر ہوئی ہے کہ ہمارے شاطر و مکار دشمن بھارت کی مودی سرکار نے چار سال قبل پانچ اگست 2019ء کو بھارتی آئین کی دفعات 370اور 35اے کو ختم کرکے اپنے ناجائز زیرتسلط کشمیر کو مستقل طور پر بھارتی سٹیٹ یونین کا حصہ بنایا بھارت کا یہ اقدام پاکستان اور اس خطہ میں امن اور سلامتی کے لیے ایک کھلا چیلنج ہے۔ مسلح افواج اور ملت پاکستان کا ہر ہر فرد اس چیلنج کو سمجھتا ہے اور مقابلے کے لیے تیار ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں یہ صورت حال یہ صورتحال پوری قوم کے اپنی جری و بہادر افواج کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہونے کی متقاضی ہے اور مسلح افواج نے مکمل طور پر اپنی توجہ دفاع وطن کی ذمہ داریوں پر مرکوز رکھنی ہے جس کیلئے افواج پاکستان میں یکسوئی کی ضرورت ہے۔ آج ایک ماحول موجود ہے جس کی وجہ سے شر پسند عناصر ملت پاکستان اور قومی دفاع کو چیلنج کر رہے ہیں لیکن مسلح افواج اور اس کی قیادت عوام کے دلوں میں غلط فہمیاں پیدا کرنے والوں کی بیخ کنی کر نے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے لیکن انہیں علم نہیں ہے کہ جس دھرتی پر ہمارے عظیم شہداء کیپٹن سرور شہید، میجر عزیز بھٹی، میجر طفیل، کرنل شیر خان، میجر شبیر شریف، میجر محمد اکرم، لانس نائیک محمد محفوظ، سوار محمد حسین، لاک جان، راشد منہاس اور ان جیسے دیگر بہادر، نڈر، دلیر جوانوں کا پاکیزہ اور گرم لہو گرا ہو وہ دھرتی تا قیامت دشمن کے لیے دھات اور خوف کی علامت بنی رہے گی۔ پاک مسلح افواج نے ہر دور میں ملک کی سلامتی کے لیے اپنے سینوں کو گولیوں کے حوالے کیا ہے۔ آج بھی ہمارے جوان دھرتی کے لیے لہو دینے کی حسین کا علم تھامے رسم شبیری نبھا رہے ہیں۔ آج کی بات ہو یا گزرے ہوئے کل، ہمارے فوجی افسر ہوں یا جوان، سب پاکستان کی حفاظت کا پرچم تھامے ہوئے تھے۔ ستمبر1965ء کی جنگ میں بری فوج نے چونڈہ، برکی سمیت ہر محاذ پر دشمن کے دانت کھٹے کیے، اس جنگ میں نندی پور میں جنرل ضیاء الحق شہید ( اس وقت) آرمڈ ڈویژن کے جے ایس او تعینات کیے گئے تھے، چونڈہ کے محاذ پر کمپنی کمانڈر کیپٹن عبدالوحید کاکڑ تعینات تھے، 1965ء کی جنگ مختلف محاذوں پر لڑی جارہی تھی۔ کہیں ٹینکوں کی ٹینکوں سے، کہیں انفینٹری کی انفینٹری سے اور کہیں پیادوں کی پیادوں سے لڑائی ہو رہی تھی چونڈہ کے محاذ پر انڈین فوج سے بھرپور معرکہ ہوا، سیالکوٹ سیکٹر میں سب سے پہلے ہندوستان کے ون آرمڈ ڈویژن نے بارڈر کراس کیا دشمن کی فوج نے سیالکوٹ کے چاروا اور سیاراجکے کے علاقے میں بارڈر کراس کیا۔ دشمن نے دو تین سو ٹینکوں کے ساتھ حملہ کیا جبکہ پاکستان کی سرحد کے دفاع کے لیے محض دو سو فوجی تھے، جو مختلف جگہوں پر تھے ہمارے جوانوں نے بھارتی فوج کا بھرکس نکال دیا بہت سے فوجی ہم نے قیدی بھی بنا لیے تھے۔ دنیا میں جنگوں کی تاریخ میں کسی اور جگہ ٹینکوں کی اتنی زبردست جنگ نہیں ہوئی جتنی بڑی جنگ چونڈہ کے محاذ پر ہوئی تھی ہماری پلٹن آرمڈ کور کی یونٹ 25کیولری نے 8ستمبر کو ہندوستان کے ٹینکوں کے ساتھ اور آرمڈکور کی یونٹ گریژن کیولری نے بہت اچھے کارنامے انجام دیئے تھے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مسلح افواج میں آرمی چیف سے سپاہی تک ہر افسر و اہلکار حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہے اور دفاع وطن کا ہر تقاضا نبھانے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ آج ہمارا مکار دشمن بھارت جن گھنائونی سازشوں کے تحت پاکستان کی سلامتی کے درپے ہے، اس کے پیش نظر تو قوم کی جانب سے عساکر پاکستان کے حوصلے بڑھائے رکھنے کی ضرورت ہے۔ قوم کا تو ہر فرد، ہر ادارہ اور ہر شعبہ پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے اور اقوام عالم میں اس کا تشخص خراب کرنے کی بھارتی سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے اپنی بہترین صلاحیتیں بروئے کار لا رہا ہے۔ یوم دفاع کے موقع پر قوم کی جانب سے بھارت کو یہ ٹھوس پیغام ہے کہ پاکستان کی سلامتی کی جانب اٹھنے والی اس کی میلی آنکھ پھوڑ دی جائیگی۔ قوم کا یہی جذبہ 65ء کی جنگ میں عساکر پاکستان کے شامل حال تھا، جو بھارت کی جانب سے ہم پر مسلط کی گئی تھی۔ اس جنگ میں بے شک افواج پاکستان نے ہر محاذ پر دفاع وطن کے تقاضے نبھاتے ہوئے دشمن کے دانت کھٹے کئے اور کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرتے ہوئے مکار دشمن کی افواج کو زمینی، فضائی اور بحری محاذوں پر منہ توڑ جواب دیکر قربانیوں کی نئی اور لازوال داستانیں رقم کیں جبکہ پوری قوم سیسہ پلائی دیوار بن کر افواج پاکستان کے شانہ بشانہ ملک کی سرحدوں کی حفاظت و پاسبانی کے تقاضے نبھاتی رہی۔ اس جنگ نے ہی قوم میں ’’ پاک فوج کو سلام‘‘ کا بے پایاں جذبہ پیدا کیا تھا جس کے نتیجہ میں ملک کی مسلح افواج نے اپنے سے تین گنا زیادہ دفاعی صلاحیتوں کے حامل مکار دشمن بھارت کی فوجوں کو پچھاڑ کر انہیں پسپائی پر مجبور کیا اور بھارتی لیڈران اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی دہائی دیتے نظر آئے۔ اہل وطن دفاع وطن کے اس جذبے کو تازہ رکھنے اور نئے عزم و تدبر کی صف بندی کیلئے ہر سال 6ستمبر کو یوم دفاع کے طور پر مناتے ہیں جو حب الوطنی کا تقاضا بھی ہے۔ اس برس یوم دفاع کی اہمیت اس لئے زیادہ ہو گئی ہے کہ آج خطہ میں بھارت سازشوں کے نئے جال بچھا رہا ہے۔
وہ مقبوضہ کشمیر اور اپنے تعلیمی داروں میں انسانی حقوق کی بد ترین تذلیل کر رہا ہی، سکولوں میں مسلمان بچوں کے منہ پر تھپڑ مارنے کی ایک نئی روایت ڈالی جارہی ہے اور ہمیں دنیا میں تنہا کرنے کی سازشوں میں بھی مصروف ہے مگر اس پر ایسا خدا کا غضب ٹوٹا ہے کہ وہ زخم چاٹ رہا ہے۔ افغانستان سے امریکہ کے انخلا کے ساتھ ہی بھارت کو بھی رسوا ہوکر افغانستان سے دُم دبا کر بھاگنا پڑا۔ اس کی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ڈوب گئی اور پاکستان میں مداخلت کے راستے بند ہوگئے۔ وہ اب پاکستان کیخلاف سازشوں کے نئے جال بُن رہا ہوگا۔ ہمارے اس مکار دشمن کو اب تک پاکستان پر 65ء اور 71ء جیسی جارحیت مسلط کرنے کی تو اسے پوری قوت کے ساتھ وہی جواب دیا جائے گا جو راجیو گاندھی کو جنرل محمد ضیاء الحق شہید نے دیا تھا۔ ہمارے سپہ سالار جنرل عاصم منیر بھارتی عزائم سے واقف ہیں، وہ کنٹرول لائن سمیت ہر اگلے مورچوں پر جا کر جوانوں کا حوصلہ بڑھاتے اور دشمن کو دفاع وطن کیلئے مکمل تیار اور چوکس ہونے کا ٹھوس پیغام دیتے رہتے ہیں۔ جنگ ستمبر ہو یا کوئی اور آزمائش کی گھڑی قوم اور پاک افواج نے نامساعد حالات، محدود جنگی سازوسامان کے باوجود ایسے کارہائے نمایاں انجام دئیے ہیں کہ اقوام عالم ورطہ حیرت میں مبتلا اور دشمن پر سکتہ طاری کر دیا۔ دنیا کے عسکری ماہرین بھی حیران اور پریشان ہیں کہ پاک افواج نے ایسے علاقوں میں جہاں عالمی طاقتیں ناکام ہوتی رہیں وہاں فتوحات کیسے حاصل کیں۔6ستمبر یوم دفاعِ پاکستان جہاں تاریخ کا ایک روشن باب ہے، وہیں ہمیں اس دن کی یاد دلاتا ہے، جب شجاعت و خود اعتمادی کی دولت سے مالا مال پاک افواج کے جری جوانوں نے سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے بہادر اور غیور پاسبانوں کی فہرست میں اپنا نام رقم کر دیا، بھارت نے رات کی تاریکی میں کئی انفنٹری ڈویژن، ٹینکوں اور توپ خانے کی مدد سے 3اطراف سے لاہور پر حملہ کیا لیکن ستلج رینجرز کے نوجوانوں نے بی آر بی نہر کا پل تباہ کرکے دشمن کے عزائم خاک میں ملا دئیے۔ اس تمام تر صورتحال کو یقینی بنانا کسی طور معجزے سے کم نہ تھا۔ پاکستانی جوان کس قدر نڈر اور دلیر ہیں، جوان سے جرنیل تک کو میں نے اس طرح آگ کے ساتھ کھیلتے دیکھا جس طرح گلی میں بچے کانچ کی گولیوں سے کھیلتے ہیں، جو قوم موت کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلنا جانتی ہو، اسے بھلا کون شکست دے سکتا ہے؟۔ بھارت کے لیفٹیننٹ ہربخش سنگھ نے بھی اپنی کتاب میں میجر عزیز بھٹی کی جرات و بہادری کا ذکر کرتے ہوئے اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ پاکستانی افواج نے بہادری سے لڑتے ہوئے زمین کے ایک ایک انچ کا خوب دفاع کیا۔ لاہور میں صرف 150جوانوں کی ایک کمپنی نے 12 گھنٹے تک ہندوستان کے ہزاروں فوجیوں کو روک کر پاک فوج کو دفاع مضبوط کرنے کا بھر پور موقع فراہم کیا۔ میجر عزیز بھٹی شہید جو برکی میں کمپنی کمانڈر تعینات تھے، مسلسل 5دن تک بھارتی ٹینکوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح ڈٹے رہے۔ آپ کی یونٹ 17پنجاب103بریگیڈ کا حصہ تھی، جو 10ڈویژن کا دفاعی بریگیڈ تھا۔ اس کمپنی کی2پلاٹون بی آر بی نہر کے دوسرے کنارے پر متعین تھیں۔ بھارتی فوج ٹینکوں اور توپوں سے بے پناہ آگ برسا رہی تھی مگر راجہ عزیز بھٹی نا صرف اس کے شدید دبائو کا سامنا کرتے رہے بلکہ اس کے حملے کا تابڑ توڑ جواب بھی دیتے رہے۔ بھارتی دعوئوں کی قلعی کھولنے کے لئے لاہور کے محاذ پر ہونے والے حملے کو بھی ہی ٹیسٹ کیس کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔ قصور، بیدیاں، برکی، بھیسن اور مقبول پورہ سائفن پر انڈین آرمی کی 11ویں کور نے جو حملہ کیا اس کا مرکز واہگہ، باٹا پور اور کچھ دور شمال میں بھینی کے مقام پر تھا۔ بھارتی افواج کی یہ کوشش تھی کہ پاکستانی دستے لاہور کے بڑے دروازے یعنی باٹا پور اور بھینی پر اپنی دفاعی قوت کو مرکوز نہ کر سکیں۔ طاقت کے نشے میں چور بھارت نے پاک فوج کی توجہ لاہور محاذ سے ہٹانے کے لئے600ٹینکوں اور ایک لاکھ فوج کے ساتھ سیالکوٹ میں چارواہ، باجرہ گڑھی اور نخنال کے مقام پر چڑھائی کی، عددی برتری کے لحاظ سے دشمن کے پاس بہت اسلحہ تھا لیکن پاکستان کے عظیم سپاہیوں نے مادرِ وطن کی حفاظت کے لئے اپنے سینوں پر بم باندھ کر ٹینکوں کو تباہ دیا۔ ہندوستان کا سب سے بڑا اور خطرناک حملہ سیالکوٹ کے محاذ پر ہوا جس کا مقصد لاہور، گوجرانوالہ شاہراہ کو کاٹنا تھا۔ چونڈہ کا مقام اب بھی’’ ٹینکوں کے قبرستان‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ وطن کے ان بہادر سپوتوں کے کارناموں کی لازوال داستانیں رہتی دنیا تک جرات و بہادری کی جاویداں مثالوں کے طور پر یاد رکھی جائیں گی۔ بلاشبہ وطن کا تصور اور دفاع تمام اقوام عالم میں بلا تخصیص مذہب، ملت، معاشرت، معیشت، جغرافیہ اور رنگ و نسل ایک مقدس مذہبی معاشرتی فریضہ جانا جاتا ہے، جس کی ادائیگی کے لیے جوانان وطن کی سرفروشی بہادری جرات مندی اور جانبازی کی داستانوں سے تاریخ انسانی ابواب در ابواب بھری پڑی ہے۔ دیگر اقوام عالم کی نسبت وطن عزیز کا دفاع ابتدائی ایام سے ہی سازشوں اور مشکلات در مشکلات سے دوچار رہا ہے۔ تاہم مسلح افواج نے ہمیشہ دلیری اور ہمت کی ایسی ایسی داستانیں رقم کیں جسے بین الاقوامی سطح پر عسکری تاریخ میں ہمیشہ حوالہ بنایا جاتا رہا ہے۔

جواب دیں

Back to top button