ہائے اس زود ’’ پریشاں‘‘ کا ’’ پریشاں‘‘ ہونا

رفیع صحرائی
میڈیا سیل بلاول ہائوس کراچی سے چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی جناب بلاول بھٹو زرداری کا ایک بیان جاری ہوا ہے جس میں انہوں نے ضلع بہاولپور میں دریائے ستلج پر باندھے گئے بند میں شگاف پڑنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بہاولپور اور احمد پور شرقیہ کی بڑی آبادیوں کو سیلاب سے بچانے کے لیے حکومت سے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار بھی کیا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی دریائے ستلج کے سیلاب متاثرین کو تنہا نہیں چھوڑے گی۔ جناب بلاول زرداری نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ حکومت دریائے ستلج کے سیلاب متاثرین کے لیے خصوصی پیکیج کا اعلان کرے۔ انہوں نے پارٹی عہدیداران و کارکنان کو ہدایات جاری کیں کہ حکومت کے ساتھ مل کر سیلاب متاثرین کے لیے امدادی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی آئندہ عام انتخابات جیتنے کے بعد دریائے ستلج کے سیلاب متاثرین کا بھی اسی طرح ساتھ دے گی جس طرح اس نے سندھ میں بارش متاثرین کا ساتھ دیا ہے۔
دیکھا جائے تو ایک ملکی سطح کی سیاسی پارٹی کے سربراہ کی طرف سے یہ بیان بڑا خوش آئند ہے کہ ان کے سینے میں اپنے ملک کے عوام کا کس قدر درد ہے۔ مگر حیرت اس بات پر ہے کہ جب 29اگست 2023ء کو یہ بیان جاری ہوا تو اس وقت دریائے ستلج میں سیلاب کو آئے ہوئے پورے دو ہفتے ہو چکے تھے۔ پاکستان میں دریائے ستلج کا آغاز ہیڈ گنڈا سنگھ ضلع قصور سے ہوتا ہے جہاں15اگست کو سیلاب آ گیا تھا۔ دو ہفتوں کے دوران سیلاب نے ضلع قصور، اوکاڑا، پاک پتن، بہاولنگر، وہاڑی اور لودھراں میں شدید تباہی مچا دی۔ بیسیوں شہر متاثر، سیکڑوں بستیاں زیرِ آب، ہزاروں مکانات تباہ، لاکھوں انسان بے گھر اور لاکھوں مویشی سیلاب کی نذر ہو گئے مگر بلاول بھٹو زرداری صاحب کو صوبہ پنجاب میں ہونے والی اس تباہی و بربادی کا پتا ہی نہیں چلا۔ پنجاب کے نگران صوبائی وزرا ء اور وزیرِ اعلیٰ نے سیلاب زدہ علاقوں کے دورے کئے، تمام سرکاری ادارے سیلاب زدگان کی امدادی سرگرمیوں میں دن رات مصروف ہیں۔ سول سوسائٹی، فلاحی اور رفاہی تنظیمیں، مذہبی جماعتیں، سیاسی لیڈر شپ اور کارکنان، تاجر تنظیمیں، صحافتی انجمنیں اور پاک فوج کے جوان کندھے سے کندھا ملائے سیلاب زدگان کو ریسکیو کرنے، انہیں خوراک اور خشک راشن مہیا کرنے اور محفوظ مقامات پر پہنچانے میں گزشتہ دو ہفتے سے مصروف ہیں مگر بلاول بھٹو زرداری وزارتِ خارجہ کے جانے کا غم غلط کرنے کے لیے کسی گہرے سمندر میں اترے ہوئے ہیں جہاں انہیں دنیا کی اور دنیا کو ان کی کوئی خبر نہیں ہے۔ اب بھی وہ خود سامنے نہیں آئے۔ ان کی میڈیا ٹیم نے ان کی طرف سے بیان جاری کیا ہے۔ اسی سے ان کی سیلاب متاثرین کے لیے سنجیدگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
یادش بخیر یہ وہی بلاول بھٹو زرداری ہیں جنہوں نے عمران خان کی حکومت کے آخری دنوں میں کراچی سے اسلام آباد تک مہنگائی مارچ کیا تھا۔ بے پناہی مہنگائی کا رونا روتے ہوئے عمران خان کو ملک و قوم کے لیے عذاب قرار دیا تھا۔ عمران حکومت جانے کے بعد جناب بلاول بھٹو زرداری کی ’’ عظیم جدوجہد‘‘ کے صلے میں انہیں وزارتِ خارجہ کے منصبِ جلیلہ پر سرفراز کیا گیا اور ان کی آنکھوں، کانوں اور منہ پر تالے لگا دئیے گئے۔ پھر انہیں پی ڈی ایم کے دورِ حکومت میں بڑھتی ہوئی ہوشربا مہنگائی نظر آئی نہ عوام کا معاشی قتل ان کے ضمیر پر دستک دے سکا۔ انہوں نے بے حسی کی چادر اپنے اوپر تان لی اور دنیا بھر کے سیر سپاٹوں میں مصروف رہے۔
ہاں اس دوران ایک مرتبہ انہیں عوام کے نام پر لوٹ مار کا موقع ضرور ملا جو انہوں نے ضائع نہیں کیا۔ پی ڈی ایم حکومت کے پیش کردہ سالانہ بجٹ 24۔2023ء کے موقع پر انہیں اچانک یاد آیا کہ حکومت نے 2022ء کے سیلاب زدگان کی خاطر خواہ مدد نہیں کی۔ بلاول بھٹو زرداری نے حکومت کو دھمکی دے دی کہ اب آپ بجٹ پاس کر کے دکھائیں۔ شہباز شریف کو ان کی قیمت کا اندازہ تھا۔ انہوں نے سیلاب زدگان کے نام پر بیس ارب روپے جاری کر دئیے اور بلاول زرداری ان کے ساتھ شیر و شکر ہو گئے۔ وہ بیس ارب روپے کہاں خرچ ہوئے؟ یہ بلاول کو پتا ہو گا یا پھر شہباز شریف جانتے ہوں گے۔
اپنے تازہ بیان میں جناب بلاول زرداری نے الیکشن جیتنے کا دعویٰ بھی داغ دیا ہے البتہ یہ نہیں بتایا کہ وہ کون سی اعلیٰ کارکردگی ہے جس کی بنا پر عوام انہیں ووٹ دیں گے۔ وہ ضلع اوکاڑا کو پنجاب میں پیپلز پارٹی کا لاڑکانہ قرار دیتے ہیں۔ جب ان کا یہ لاڑکانہ ڈوب رہا تھا تو انہیں خبر ہی نہ ہوئی۔
نی سسیے بے خبرے تیرا لٹیا شہر بھنبھور
پنجاب کے اضلاع قصور، اوکاڑا، پاکپتن، بہاولنگر، لودھراں اور وہاڑی اب بھی سیلاب میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ لوگ ریسکیو اور امدادی ٹیموں کے آسرے پر بیٹھے ہیں مگر چیئرمین بلاول زرداری کو اس کا علم نہیں ہے۔ ان اضلاع میں ان کی پارٹی بھی کہیں امدادی سرگرمیوں میں حصہ لیتی نظر نہیں آئی۔ ضلع بہاولپور کا درد بھی محض میڈیا ٹیم کے ذریعے جاری کئے گئے ایک بیان تک ہی محدود ہے۔
جناب بلاول بھٹو زرداری کو دریائے ستلج میں سیلاب آنے پر ایک موقع ملا تھا کہ وہ آفت زدہ علاقوں کا خود دورہ کرتے۔ اپنی پارٹی کے کارکنان و عہدیداران کو متحرک کر کے عوام کی ہمدردیاں سمیٹتے۔ ایئر کنڈیشنڈ کمروں سے نکل کر جب وہ اپنے مصیبت زدہ عوام میں پہنچتے تو یقیناً یہ ان کی پارٹی کے لیے فائدہ مند اور ان کے ووٹ بنک میں اضافے کا سبب بنتا مگر وہ ابھی اپنی زندگی کی پہلی وزارت اور شہنشاہی مراعات ختم ہونے کے سوگ میں مبتلا ہیں۔ پتا نہیں یہ سوگ کب تک جاری رہے گا۔ ان کا میڈیا سیل کی طرف سے جاری کردہ بیان بعد از مرگ واویلا سے بڑھ کر کچھ حیثیت نہیں رکھتا۔ دو ہفتے بعد سیلاب زدگان کے لیے ان کے سینے میں اٹھنے والے درد پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ ( مرزا غالب سے معذرت کے ساتھ):
ہائے اس زود ’’ پریشاں‘‘ کا ’’ پریشاں‘‘ ہونا۔