آئین یا الیکشن ایکٹ؟

امتیاز عاصی
قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد یہ امید تھی آنے والی نگران حکومت انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کے لئے تیزی سے اقدامات کرے گی لیکن حالات اور واقعات سے آشکار ہوتا ہے ہم کہیں آئینی بحران کا شکار نہ ہوجائیں۔ آئین کے تحت نگران وزیراعظم اس بات کا پابند ہے وہ انتخابات نوے روز کے اند ر کرانے کی ایڈوائس صدر مملکت کو بھیجے لیکن پی ڈی ایم کی حکومت نے الیکشن ایکٹ 2017میں ترمیم کرکے ایک غیر متوقع صور ت حال پیدا کر دی ہے۔آئین سے بے بہرہ بعض سیاست دان الیکشن ایکٹ کو لئے پھر رہے ہیں سوال ہے کیا الیکشن ایکٹ کو پاکستان کے آئین پر فوقیت حاصل ہے؟ سیاسی جماعتوں بالخصوص پیپلز پارٹی ، جماعت اسلامی اور وکلا ء تنظیموں کی طرف سے نوے روز میں انتخابات کرانے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے ورنہ اس خدشے کو رد نہیں کیا جا سکتا وکلا اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کے لئے تحریک کا آغاز نہ کر دیا جائے۔ موجودہ صورت حال کے تناظر میں دیکھا جائے تو سیاست دانوں نے آئین اور قانون کو اپنے طابع کرنے کی ٹھان لی ہے۔ صدر مملکت نے چیف الیکشن کمشنر کو انتخابات کی تاریخ طے کرنے کی دعوت دی تو چیف الیکشن کمیشن نے موقف اختیار کیا ہے صدر کو انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار نہیں ہے۔ تعجب ہے آئین کا آرٹیکل 48صدر کے اختیارات پر قدغن عائد نہیں کرتا کہ وہ نگران وزیراعظم اور کابینہ کی تقرری کے ساتھ انتخابات کی تاریخ کا تعین کرے جو نوے روز سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ آٹیکل 224کے تحت اسمبلی مدت پوری کرنے سے پہلے تحلیل کردی جائے تو بھی نوے روز کے اندر انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کا کہا گیا ہے لیکن الیکشن کمیشن نے نئی مردم شماری کی روشنی میں نئی حلقہ بندیوں کے مکمل ہونے کا عذر بنا کر الیکشن کی تاریخ نہیں دی ہے بلکہ حلقہ بندیوں کے لئے تین چار ماہ تک کا عرصہ لگنے کا عندیہ دیا ہے۔ توجہ طلب پہلو یہ ہے انہی دنوں چیف الیکشن کمشنر کی اسلام آباد میں متعین امریکی سفیر سے ملاقات جس کی تفصیلات منظر عام پر آنے کا امکان نہیں، نئے سوالات جنم لے رہے ہیں ساتھ ساتھ وزارت قانون میں الیکشن سے متعلق تاریخ دینے کے صدارتی اختیارات پر غور کیا جا رہا ہے کہ کیا چیف الیکشن کمشنر انتخابات سے متعلق تاریخ کا تعین کرنے کے لئے صدر مملکت سے مشاورت کا پابند ہے یا نہیں۔ قانونی حلقوں کے نزدیک کوئی ماتحت ادارہ خواہ وہ خودمختار کیوں نہ ہو آئین سے روگردانی نہیں کر سکتا ہے؟ پاکستان کے عوام نگران وزیراعظم سے یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ وہ صدر کو اس امر کی ایڈوائس دیں کہ وہ نوے روز کے اندر انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کے لئے تاریخ کا تعین کرے لیکن نگران وزیراعظم کے طرز عمل سے یہ واضح نہیں کہ وہ آئینی مدت کے اندر انتخابات کرنے کے لئے سنجیدہ ہیں۔ نگران وزیراعظم اور کابینہ کے ارکان کی سرگرمیاں سب کے سامنے ہیں البتہ وہ انتخابات کے سلسلے میں سنجیدگی کا اظہار نہیں کرتے۔1992 کے سپریم کورٹ کے بارہ رکنی بینچ نے آفتاب احمد شیر پائو بنام فیڈریشن آف پاکستان اور خواجہ احمد طارق رحیم بنام فیڈریشن آف پاکستان دونوں مقدمات میں فیصلہ دیا تھا کہ نگران حکومت کا کام روز مرہ کے معمول کے معاملات کے علاوہ شفاف اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کے سوا اور نہیں۔ لاہور ہائی کورٹ نے 2014میں جس بینچ کی سربراہی اس وقت کے چیف جسٹس عبدالسلام شکور کر رہے تھے اور بلوچستان ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ جس کی سربراہی اس وقت کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے فیصلوں میں نگران حکومت کے اختیارات کا تعین کر دیا تھا۔ آئین پاکستان کے ابتدائیہ میں یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ ریاست کے عوام کو یہ اختیار ہے کہ وہ اپنے نمائندوں کا انتخاب خود کریں۔ یوں بھی نگران حکومت کا کام کسی منتخب حکومت کی عدم موجودگی میں ماسوائے چوکیداری کے سوا اور نہیں۔ عجیب تماشا ہے آئین پاکستان کے ساتھ سپریم کورٹ، لاہور ہائی کورٹ اور بلوچستان ہائی کورٹ کے فیصلوں کو پس پشت ڈالنے کی کوشش ہو رہی ہے اور ملک کو ایک نئے آئینی بحران کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ جہاں تک مردم شماری کا تعلق ہے وہ کب کی ہو چکی تھی۔ مردم شماری کے فوری بعد حلقہ بندیوں کا کام مکمل ہو جاتا تو نہ عدلیہ اور نہ نگران حکومت کے لئے مشکلات پید ا ہوتیں۔ چلیں حلقہ بندیاں مکمل ہو جائیں تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے انتخابات مقررہ وقت پر ہو سکیں گے۔ جیسا کہ الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں کا کام چودہ دسمبر تک مکمل کرنے کا عندیہ دیا ہے گویا اس لحاظ سے دیکھا جائے تو الیکشن مارچ میں ہو سکیں گے۔ حقیقت تو یہ ہے ملک کے عوام کے ذہنوں میں خدشات جنم لے رہے ہیں آیا الیکشن ہو ں گے یا نہیں؟ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتخابات میں غیر ضروری التواء کرکے ملک کو آئینی بحران کا شکار کر دیا ہے۔ بعض سیاسی رہنمائوں کے خیال میں ان حالات میں عدالت عظمیٰ سے آئین کے آرٹیکل 184(3)کے تحت درخواست کی جا سکتی ہے کہ وہ نگران حکومت کو الیکشن کرانے کا حکم دے۔ دراصل سیاست دانوں نے ذاتی مفادات کے حصول کے لئے آئینی اداروں کو غیر متوقع صورت حال سے دوچار کر دیا ہے۔ اس سے قبل دو صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل ہوئیں تو کے پی کے میں الیکشن نہ کرانے کا مولانا واضح طور پر اعلان کر چکے تھے جب کہ پنجاب کے ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ نون کی پی ٹی آئی کے ہاتھوں شکست نے الیکشن سے راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔آئین اور قانون سے راہ فرار کا یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا۔ عوام کو اپنے نمائندوں کے انتخاب کے حق سے محروم کرنی کا نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا بلکہ ہمارا ملک ایک نئے آئینی بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔ ایک بڑی سیاسی جماعت کو انتخابات سے باہر رکھنے کا نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا بلکہ عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہوگا لہذا الیکشن کمیشن آف پاکستان کو جیتنا جلد ہو سکے عام انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنا کر حب الوطنی کا ثبوت دینا چاہیے۔