ColumnTajamul Hussain Hashmi

جمہوریت پر بمباری

تجمل حسین ہاشمی
سینئر صحافی مظہر عبّاس نے کیا خوب لکھا: ’ حضور جس ملک میں اقتدار ’’ مقبولیت‘‘ نہیں، ’’ قبولیت‘‘ کی بنیاد پر دیا جاتا ہو، وہاں پارلیمنٹ نے ایسے قوانین منظور کئے ہیں جو دراصل ان کے اپنے ’’ وارنٹ گرفتاری‘‘ ثابت ہوں گے‘۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو ’’ قبولیت‘‘ کو بنیاد بنا کر اپوزیشن سلیکٹڈ کہتی رہی۔ ’’ قبولیت ‘‘ کی بنیاد پر حکومت ملنے کے بعد تنقید کا سلسلہ نئی ’’ اپوزیشن‘‘ کی طرف سے جاری رہا۔ سیاسی جماعتیں خود غیر جمہوری الفاظ استعمال اور غیر قانونی تنقید کر کے اپنی راہ ہموار کی کوشش کرتی ہیں۔ پی ڈی ایم نے تحریک عدم اعتماد سے حکومت بنائی لیکن وہ بھی مقبولیت نہیں، قبولیت پر کھڑی رہی، جو واضح طور پر ایک پارٹی کے دو چار ووٹوں پر کھڑی رہی۔ حکومت اپنے 16ماہ پورے کر کے چلی گئی، اپنا مال محفوظ کر گئے۔ ویسے کمال یہ ہوا کہ 40سال میں مفاہمتی دستخط کے بعد بھی ایک دوسرے پر مقدمات بناتے رہے۔ لڑائی جھگڑا کرتے رہے۔ صرف ایک خوف نے ان کو ابھی تک اکٹھا کیا ہوا ہے۔ خوف سے آزادی بڑی نعمت ہے لیکن پی ڈی ایم والوں کو وہ بھی نصیب نہ ہوئی۔ پی ڈی ایم اتحادیوں کو بروقت الیکشن نہ ہونے کا خوف تنگ کر رہا ہے اور خاص کر بیوروکریسی میں تبادلوں کی بھی پریشانی کا خوف کھائے جا رہا ہے۔ ریونیو کے سرکاری افسر کو پریشان دیکھ کر پوچھا کہ کیا بات ہے۔ کہنے لگا کہ اب صبح 9بجے ڈیوٹی پر جانا ہے، سخت آرڈر ہیں۔ اس وقت کئی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ ہر طرف خاموشی ہے۔ تاجر برادری کی دعا اور درخوست قبولیت کے قریب ہے۔ تاریخ میں ایسے حالات واقعات نہیں دیکھے جو ان چند سالوں میں دیکھے گئے ہیں، سابقہ اتحادی حکومت نے چند دن میں قانون سازی کی جو مثال قائم کی وہ شہباز شریف ہی کر سکتا تھا، یقینا تبدیلی تاریخی مقام پائے گی اور جمہوریت والوں کے لیے ہی امتحان ثابت ہو گی، سیاسی مشکلات سیاسی جماعتوں کو در پیش رہتی ہیں لیکن ملک کی حالت تشویشناک تک پہنچ چکی ہے، اس کا حساب اکیلے کرکٹر نے نہیں دینا، احتساب عدل و انصاف سے عزت پائے گا۔ ملک زرعی اور معدنیات سے مالا مال ہے تو بھکاری بننے کا فیصلہ ان طاقتور حکومتی حلقوں کا اپنا ہے۔ ہرس، لالچ اور اقتدار کے حصول نے اندھا بنا دیا ہے۔ توشہ خانہ کیس میں کئی رہنمائوں، افراد کے کارنامے واضح ہیں۔ مسجدوں میں چوری کرنے والے کو معاشرہ میں انتہائی برا سمجھا جاتا ہے اور جو ملک کلمہ کی بنیاد پر بنا اس کو لوٹنے والوں کو کچھ نہیں کہا جاتا بلکہ مزید قانونی تبدیلیوں سے آسانیاں دی جاتی ہیں۔ یہ کیسے وفا دار ہیں، اربوں کے مالک اور کئی فیکٹریاں، ہزاروں مربع زمینوں کے مالک ہیں، ملک کو دینے کے بجائے قومی خزانہ سے گھڑیاں تک لے گئے، چلو شہباز شریف کابینہ نے بہتر قانون سازی کر دی، اب جو گھڑی لے گا وہ قانون کی گرفت میں ہو گا۔ ویسے توشہ خانہ میں اکیلا سزا کا مستحق سابق کرکٹر ٹھہرا اور نواز شریف بھی پاناما انکوائری میں اکیلا ٹھہرا۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کو دی جانے والی سزا پر چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے ریمارکس دئیے، جس پر میاں نواز شریف نے لندن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ’ اس وقت کے چیف جسٹس نواز شریف کو دیوار سے لگانے میں لگے تھے، آج کے چیف جسٹس عمران کو بچانے میں لگے ہیں‘۔ سیاسی جماعتوں کے کردار پر نظر ڈالیں تو ان کا یہی وتیرہ رہا حکومت کے دوران اپوزیشن کے خلاف مقدمات بنائے جاتے رہے جو سالہا سال چلتے رہے۔ 90ء کی دہائی سے پہلے کا پاکستان معاشی طورپر طاقتور تھا۔ نوے کی دہائی کے بعد ملک کی معاشی حالت تشویشناک حد تک پہنچا دی گئی ہے، نواز شریف نے کتاب ’’ غدار کون ‘‘ میں لکھا کہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا مادہ ہونا چاہئے، ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنا چاہئے۔ ہونا تو پاکستان کی سیاست میں یہی چاہئے، ہمارے خلاف تحریکیں چلتی رہیں، کچھ ہم تحریکیں چلاتے رہے۔1997ء کے الیکشن کے حوالے سے میاں صاحب کا کہنا تھا کہ یہ جمہوریت نہیں کہ الیکشن سے پہلے آپ قوانین تبدیل کریں، جیسا کہ پچھلے الیکشن میں مشرف نے کیا تھا، الیکشن سے پہلے بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو ایک قانون کے تحت پارٹی صدارت سے محروم کرنے کے لیے قانون بدل دئیے۔ آج وہ وقت ہے کہ آپ کی اپنی جماعت وہ کام کر گئی۔ جس مشرف سی آپ کو تکلیف تھی اسی کے نقش قدم پر چلے پڑے ہیں۔ اشفاق احمد صاحب کہتے ہیں کہ بابا بنانا آسان نہیں ہوتا، ہمارے سیاست دان باتوں سے بابا بنانا چاہتے ہیں، لیکن ایسا ممکن نہیں اسی لیے تو ملک کی ایسی حالت ہو چکی ہے، برداشت، تحمل کی تلقین ضرور کرتے ہیں لیکن عمل سے بالکل خالی ہیں، کرونا، سیلاب، ڈیفالٹ کے خطرے میں بھی سیاسی جماعتوں نے سرکاری سبسڈی ، فنڈز میں مال کھڑا کیا۔ سیاسی جماعتیں بتائیں کہ کب ان کو عوامی مقبولیت ملی؟ ہر دفعہ تو قبولیت سے اقتدار ملتا رہا، ملک میں اگر کوئی بہتری رہی تو وہ بھی قبولیت کرانے والی کی دور میں رہی ، جمہوری جماعتوں کو جب بھی اقتدار ملا انہوں نے عوامی مفادات کو چھوڑ کر خارجہ پالیسی میں پڑ گئے، کیوں حکمرانوں کی نظر میں خارجہ کے معاملات میں سکون زیادہ آتا ہے، ویسے ملکی معیشت میں ان کو کوئی لگائو نہیں رہا اگر کبھی معاملات میں پھنس جائیں تو دنیا کے تعلقات کام آ جائیں گے، طاقتور غیر ملکی قوتیں ایسے معاملات میں ماضی میں بھی متحرک رہی ہیں اور آج بھی متحرک ہیں، لیکن ہمارے جمہوری لیڈر کہتے ہیں کہ ہم مقبول جماعت ہیں، حقیقت میں وہ درست کہتے ہیں، کیونکہ ڈبوں میں ووٹ ان کے حق میں نکلتے ہیں ۔

جواب دیں

Back to top button