وہ کون تھا جس نے بچپن میں اپنے دوستوں کو اپنے حکمران بننے کی پیش گوئی کی تھی ؟ کیا وہ حکمران بنا ؟

عبدالرحمن ارشد:
میں بڑا ہو کر پورے اندلس پر حکمرانی کروں گا ، جو مانگنا ہے ابھی سے مانگ لو یہ بات اس نے اپنے پاس بیٹھے دوستوں کو کہی اور اس بات پر سب دوستوں نے اس دیوانے کا مذاق اڑایا ۔ کیا اس دیوانے کا یہ خواب کبھی پورا ہو سکا ؟ کیا وہ پورے اندلس کا حکمران بن پایا ؟
ہم بات کر رہے ہیں مسلم تاریخ کی ایک عظیم الشان کمانڈر اور شخصیت محمد بن ابی عامر المنصور کی ۔
محمد بن ابی عامرکے آباواجداد کا تعلق یمن سے تھا اور اس کا جدا مجد عبدالمالک المعافری طارق بن زیاد کی فوج میں سپاہی تھا جو اندلس میں جزیرہ الخضرہ کے قریب ایک قصبہ ”طرش“ میں آکر آباد ہو گیا۔محمد بن ابی عامر اسی کی آٹھویں نسل میں طرش ہی میں 938ءمیں پیدا ہوا۔
اس کے کیرئر کا آغاز بھی عجیب و غریب انداز میں ہوا جس کا ذکرمشہور مورخ ڈوزی(DOZY) نے بہت لطیف پیرائے میں کیا ہے۔ مصنف عبدالقوی ضیاء نے اس کوباپنی کتاب ”تاریخ اندلس“ میں کچھ یوں بیان کیا ہے: ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ پانچ طالب علم قرطبہ کے ایک باغ میں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے ‘ یہ نوجوان غالباً پکنک منانے کے لیے یہاں آئے تھے ، کیونکہ کھانے پینے کا سامان بھی ان کے پاس تھا۔یہ سب کھا پی رہے تھے اور ایک دوسرے سے چہلیں بھی کر رہے تھے۔لیکن ان میں سے ایک طالبعلم گم سم کسی خیال میں ڈوبا ہوا خاموش بیٹھا تھا۔اس کی شکل و صورت سے شرافت اور ذہانت ٹپک رہی تھی،ماتھے پر غرور کی علامات بھی تھیں۔ ساتھی طالبعلموں نے اسے چھیڑتے ہوئے خاموشی کا سبب پوچھا تووہ چونک کر بولا:”مجھے یقین ہے کہ میں بہت جلد اس ملک کا حکمران بن جاﺅں گا، اسی وقت کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ میں نے اس ملک کے مسائل کو کیسے حل کرنا ہے؟“ اس کے ساتھی یہ سن کر ہنسنے اور اس کا مذاق اڑانے لگے۔ اس نے اس ہنسی ‘ مذاق کا کچھ بھی اثر نہ لیا اور بڑے اعتماد سے بولا:”دوستو!وہ وقت دور نہیں جب قوت، طاقت اور حکومت میرے ہاتھ میں ہوگی اور میں پورے اندلس کا حکمران ہوں گا، تم لوگ ابھی سے مجھ سے مانگ لو جو تمہیں چاہئیے کہ یہ وقت ِقبولیت ہے، بتاﺅ!تم سب کن کن عہدوں پر مامور ہونا چاہو گے؟“ اس کے دوست پھر ہنس دیے، لیکن جب اس خوبرو نوجوان نے ان کو مجبور کیا تو ان میں سے ایک بولا:”میاں !ہمیں تو آج کی یہ میٹھی روٹیاں اور خستہ ٹکیاں بہت اچھی لگیں، تو تم مجھے انسپکٹر بازار مقرر کر دینا تاکہ جب جو چیز چاہوں بڑے شوق سے کھاﺅں۔ دوسرا بولا:”ہمیں تو یہ انجیر بہت پسند آئے ، تم مجھے مالقہ کا قاضی بنا دیناکہ وہ میرا وطن بھی ہے اور وہاں کے انجیر بھی بہت لذیذ ہوتی ہے۔ تیسرے نے باغ کے ہرے بھرے درختوںکی طرف دیکھ کر کہا کہ مجھے تو یہ سر سبز باغ بہت پسند ہے ، تم مجھے قرطبہ کا حاکم بنا دینا۔ چوتھا خاموش بیٹھا اس متکبر دوست سے زیادہ اپنے بقیہ ساتھیوں پر پیچ و تاب کھا رہا تھاکہ وہ اس سے عہدے اس انداز سے طلب کر رہے تھے جیسے و ہ سچ مچ بادشاہ اندلس ہوگیا ہو۔ جب اس نے اس سے پوچھا تو وہ غصہ سے بولا:” جب طاقت تمہارے ہاتھ میں آ جائے تو میرے سارے جسم پر شہد مل دینا تاکہ خوب مکھیاں بیٹھ کر بھنبھنائیں اور کاٹیں، پھر منہ کالا کر کے گدھے پر الٹا سوار کرا کے سارے شہر میں گشت کرا دینا۔ وہ بولا : ”دوستو !گھبراﺅ نہیں ایسا ہی ہوگا۔“پھر قدرت کوبھی یہی منظور تھا اور ایک وقت آیاکہ وہ نوجوان اندلس کاوزیر اعظم بنا اور وزیر اعظم بھی ایسا کہ اندلس کی تاریخ میں پھر ایسا وزیر اعظم کوئی دوسرا نہ بن سکا اور پھر اس نے اپنے تمام دوستوں کی خواہشات بھی من وعن پوری کیں۔