Column

سیاسی جماعتیں عوام کی عدالت میں!

یاور عباس
پاکستان کی سیاسی او ر معاشی صورتحال عدم استحکام کا شکار ہے، ’ ملک نازک دور سے گزر رہا ہے ‘، یہ فقرہ گزشتہ 70سال سے سن سن کر کان پک گئے ہیں، نازک موڑ اتنا بھی طویل ہوسکتا ہے، کوئی اندازہ نہیں کر سکتا، ہم سے بعد میں آزاد ہونے والے ملک ہم سے آگے نکل گئے ، ہم سے علیحدگی اختیار کرنے والا بنگلہ دیش آج ہم سے آگے ہے ، گزشتہ 4دہائیوں سے دنیا کی 2سپر پاورز روس اور امریکہ کے ساتھ جنگیں کرنے والا ہمارا ہمسایہ ملک افغانستان آج ہم سے آگے ہے ، چین ، جن ملکوں کو کبھی ہم معاشی مشورے اور قرضے تک دیتے رہے ہیں آج ہم کشکول لیے انہی کے در پر کھڑے رہتے ہیں، جرمنی کی تباہی کے بعد ہم دنیا کے ان سات ملکوں میں شامل ہیں جنہوں نے جرمنی کو امداد دی مگر آج جرمنی کہاں ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں ؟ ہمارے ساتھ آزاد ہونے والا ہمارا دشمن ملک بھارت آج ہم سے خوفزدہ نہیں بلکہ ہمیں طعنہ دے رہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ اب ہمیں جنگ کی ضرورت ہی نہیں رہی ، 40سال حکومتیں کرنے والے سیاستدان عوام کو ابھی بھی چکمہ دے رہے ہیں کہ ہم نے ملک کو معاشی بحران سے نکال لیا ، ابھی چند ماہ گزرنے دیں جب قرضوں کی اقساط دینے کی باری آئے گی پھر ہمارے ریاستی ادارے کہیں گے ڈیفالٹ کا خطرہ ہے پہلے ریاست بچائیں گے پھر الیکشن کرائیں گے ۔
’ ووٹ کو عزت دو ‘ اور ’ جمہوریت بہترین انتقام ہے ‘ کے بیانیہ سیاسی جماعتوں نے خود ہی دفن کر دئیے ہیں ۔ ’ روٹی کپڑا مکان ‘ دینے کا نعرہ لگانے والوں نے عوام کے منہ سے روٹی کا نوالہ چھین لیا ، گھر دینے والوں نے ہی عوام کو بے گھر کر دیا ، ’ اپنے کپڑے بیچ کر آٹا دوں گا ‘ کا نعرہ لگانے والے وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے کپڑے تو بیچے نہیں البتہ عوام کے کپڑے ضرور اتروا دئیے ہیں اور آٹا سستا دینے کی بجائے دگنا کر دیا ہے ، امراء کے کتے گوشت کھا رہے ہیں دودھ پی رہے ہیں مگر غریب آدمی دو وقت کی روٹی کو ترس رہا ہے ۔ غریب خوشحال کیسے ہوسکتا ہے جب امیر شہر ہی لوگوں کی بوٹیاں نوچنے پر اُتر آئے ، مہنگائی مکائو مارچ عوام کی آنکھوں پر دھول جھونکنے کا بہانہ تھا ایک ایسا سبز باغ تھا جس طرح مکڑے نے مکھی کو سہانے خواب کا لالچ دے کر جال میں پھنسا لیا تھا اسی طرح پی ڈی ایم نے عوام کو پھنسا لیا ، مہنگائی کا 70سالہ ریکارڈ توڑ دیا ، ڈالر اور پٹرول کی قیمتیں آدھی کرنے والے تجربہ کاروں نے ہر چیز دگنی سے بھی زیادہ کردی۔ ہر دور میں احتساب کے نام پر سیاستدان کو جال میں پھنسایا گیا پھر انہیں اقتدار پر بٹھایا گیا ملک نازک دور میں داخل کرنے والے ہی حکمرانی کریںگے تو نازک دور ختم کیسے ہوگا، اس طرح کے بے شمار سوالات عوام کے ذہنوں میں جنم لے چکے ہیں مگر پاکستانی جمہوریت میں سوال پوچھنا ہی سب سے بڑا جرم بن چکا ہے جس طرح تگڑے تھانیدار کے سامنے بکری بھی ہاتھی ہونے کا اعلان کر دیتی ہے کچھ یہی حال پاکستانی عوام کا کر دیا گیا ہے کہ لوگ اپنی حالت زار کا نوحہ بھی نہیں پڑھ سکتے ۔
جمہوری جماعتیں عوام کی ترجمان ہوتی ہیں اور ان کی اصل طاقت عوام ہوتی ہیں مگر جب جمہوریت جماعتیں ہی فیصلہ کر لیں کہ عوام کی کوئی حیثیت نہیں اور اقتدار بندر بانٹ کے ذریعے حاصل کرنا ہے ، کبھی میثاق جمہوریت اور کبھی سیاست نہیں ریاست بچائو کے نام پر اپنی لوٹ مار جاری رکھیں اور عوام کو مہنگائی ، غربت اور بے روزگاری کی چکی میں پیستے رہیں تو پھر ملک معاشی طور مستحکم ہوگا نہ ہی سیاسی طور پر ۔ خلائی مخلوق کے کردار کو ختم کرنے والے کا بھائی آج ملک کا وزیراعظم ہونے کے باوجود اعتراف کر رہا ہے کہ ہاں میں اسٹیبلشمنٹ کا بندہ ہوں اور اس پر مجھے طعنے بھی سننے پڑتے ہیں اور اپوزیشن دور میں بھی میں اسٹیبلشمنٹ سے ملتا رہا تو پھر جمہوریت کا لبادہ اوڑھنے کی ضرورت ہی نہیں ۔ جس طرح تھوک کے حساب سے قومی اسمبلی میں ایک ہفتہ میں درجنوں بل بغیر بحث کیے پاس ہوگئے ہیں اسی طرح ایک بل پاس کر لیں کہ پاکستان میں الیکشن کی ضرورت ہی نہیں ریاست اہل افراد کا چنائو کرے گی اور اقتدار کے لیے عوام کے پاس جانے کی ضرورت ہی نہیں ۔ یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں ترازو کے پلڑے برابر کرنے کے باوجود اگر ملک کی تمام جماعتیں اور طاقتیں اکٹھی ہونے کے باوجود وقت مقررہ پر الیکشن نہیں کروا رہی ۔ سیاسی جماعتوں کی طرف سے انتخابات سے راہ فرار حاصل کرنا تاریخ میں پہلی بار دیکھ رہے ہیں جس سے صاف نظر آرہا ہے کہ حزب اقتدار کی جماعتیں عوامی حمایت کھو بیٹھی ہیں اور انہیں پختہ یقین ہے کہ تمام تر انتظامات کے باوجود وہ عوام کا سامنا نہیں کر سکتے ۔
کسی بھی جمہوری ملک میں سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام نہیں آسکتا ، تجربوں کے ذریعے ملک ترقی نہیں کرتے بلکہ انصاف ، محنت ، اخلاقیات ، اتحاد، ایمانداری اور جذبہ حب الوطنی کے ذریعے قومیں ترقی کرتی ہیں ۔ جس معاشرہ میں تفریق پیدا ہوجائے وہاں بگاڑ اور انتشار بڑھتا ہے طاقت کے زور پر نظریہ دبائے تو جاسکتے ہیں مگر دفنائی نہیں جاسکتے ۔ پاکستان میں حقیقی احتساب کی ضرورت ہے جس کے لیے نظام عدل کا مضبوط ہونا ضروری ہے مگر جہاں ملک کا چیف جسٹس دو صوبوں میں 14مئی کو الیکشن کروانے کے فیصلے پر عمل درآمد نہ کروا سکے اور ایک ایڈیشنل سیشن جج کے فیصلہ پر 10منٹ میں پوری ریاستی مشینری حرکت میں آجائے اور فیصلے پر عمل درآمد کروا لے تو پھر ہماری عدلیہ کا عالمی رینکنگ میں اپنی پوزیشن کیسے بہتر کر سکتا ہے ۔ توشہ خانہ سے ایک سابق وزیر اعظم کو جیسے تیسے سزا دلوا دی گئی مگر دیگر وزرائے اعظم ، صدور اور اعلیٰ شخصیات کو کئی گنا زیادہ تحائف لے جانے پر بھی کوئی سرزنش کا نہ سوچے؟ حکمرانوں کی ترجیح عوامی ریلیف کی بجائے اپوزیشن کا خاتمہ ہو، سول بیوروکریسی عوامی مسائل کو حل کرنے کی بجائے وزراء کی چاپلوسی کرے ، ترقیاتی کاموں میں کمیشن کا سسٹم رائج ہو تو پھر ملک کے عوام خوشحال کیسے ہوسکتا ہیں۔9اگست ( کل ) کو حکومت رخصت ہونے کا اعلان کر چکی ہے، عوامی عدالت لگنے کو تیار ہے مگر سیاسی جماعتیں نگران سیٹ اپ کو طوالت دے کر عوامی عدالت سے راہ فرار حاصل کرنے کے چکر میں لگ رہی ہیں ۔

جواب دیں

Back to top button