ColumnRoshan Lal

مہنگائی، کیسے قومی مفاد؟

روشن لعل

کوئی اور یہ بات مانے یا نہ مانے مگر اس معاملے میں شاید ہمارے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا یقین کامل ہے کہ مہنگائی میں کیے گئے اضافہ کو قومی مفاد میں اٹھایا گیا قدم بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ اگر کسی کو شک ہے کہ کسی وزیر خزانہ کا ایسا یقین نہیں ہو سکتا تو وہ اسحاق ڈار کا پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرتے وقت دیا گیا بیان دیکھ سکتا ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جب پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کا اعلان کیا تو ساتھ یہ بھی کہا کہ اس عمل کا فیصلہ بہترین قومی مفاد میں کیا گیا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرنے پر گوکہ ڈار صاحب کے لیے کسی مثبت جذبے کا اظہار ممکن نہیں ہے مگر اس کے باوجود نہ جانے کیوں انہیں داد دینے کو دل کر رہا ہے۔ اپنے وزیر خزانہ کو داد پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ پر نہیں بلکہ اس دیدہ دلیری پر دینے کو دل کر رہا ہے جس کا مظاہرہ انہوں نے مہنگائی میں اضافہ کا باعث بننے والے عمل کو قومی مفاد قرار دے کر کیا۔ جونہی اسحاق ڈار صاحب نے اپنی زبان سے یہ الفاظ ادا کیے کہ بہترین قومی مفاد میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا جارہا ہے نہ جانے کیوں اسی وقت ذہن میں ہٹلر، کچھ امریکی صدور اور مرحوم سوویت یونین کی قیادت کے نام آنا شروع ہو گئے۔ ان لوگوں کے نام اس لیے ذہن میں آئے کیوں کہ انہوں نے بھی کسی زمانے میں کیے گئے اپنے الٹے سیدھے کاموں کو قومی مفاد میں اٹھائے گئے اقدام قرار دیا تھا۔ ہٹلر کی جس توسیع پسند پالیسی کے باعث دوسری جنگ عظیم شروع ہونے سے لاکھوں انسانی جانیں ضائع ہوئیں ، وہ اس پالیسی کو قومی مفاد ات میں اختیار کی گئی پالیسی کہتا تھا۔ امریکہ کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے فوجی اڈوں کو اس کی معیشت پر بہت بڑا بوجھ قرار دیا جارہا ہے مگر ہر امریکی صدر ان فوجی اڈوں کو اپنے ملک کا بہترین قومی مفاد قرار دیتا ہے، مرحوم سوویت یونین کا شیرازہ افغانستان میں فوجیں بھیجنے کے بعد بکھرنا شروع ہوا مگر جب تک سوویت یونین قائم رہا اس کی قیادت افغانستان میں فوجی مداخلت کو اپنے قومی مفاد میں اٹھایا گیا عمل قرار دیتی رہی۔
جہاں تک دو لفظوں کے مجموعے ’’ قومی مفاد‘‘ کے بطور اصطلاح استعمال ہونے کا تعلق ہے تو یاد رہے کہ اس مبہم اصطلاح کو حکمرانوں نے ہمیشہ اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی۔ ہمارے ملک میں مارشل لا کا نفاذ کرتے وقت ضیا الحق نے بھی یہ کہا تھا کہ وہ یہ عمل بہترین قومی مفاد میں کر رہے ہیں۔ ’’ قومی مفاد ‘‘ جیسی اصطلاح کی تشریح چاہے کوئی جیسے بھی کرے مگر یہ بات فراموش نہیں کی جاسکتی کہ ’’ قومی‘‘ لفظ ’’ قوم‘‘ سے اخذ شدہ ہے جو کسی خاص وصف کی بنا پر بننے والے افراد کے چھوٹے یا بڑے گروہوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ افراد کے گروہ کو چاہے جس بھی وصف کی بنا پر قوم کہا گیا ہو ، یہ بات کسی صورت تسلیم نہیں کی جاسکتی کہ اس میں شامل انسانوں کا مفاد مہنگائی میں اضافہ سے وابستہ کیا جا سکتا ہے ۔
یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ آئی ایم ایف سے اس قرض کا حصول جاری رکھنے کے لیے کیا جس کا معاہدہ عمران خان کی حکومت میں سخت ترین شرائط تسلیم کر کے کیا گیا تھا۔ عمران حکومت نے پہلے آئی ایم ایف کی سخت شرائط کو تسلیم کیا اور پھر ان پر عمل درآمد سے منحرف بھی ہوگئے۔ اس کے بعد آئی ایم ایف نے پاکستان کو قرض کی فراہمی روک دی۔ عمران حکومت کی رخصتی کے بعد بننے والے وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے ان شرائط پر عملدرآمد کا وعدہ کر کے آئی ایم ایف کو قرض کی فراہمی جاری رکھنے پر آمادہ کر لیا جنہیں تسلیم کرنے کے باوجود عمران خان منحرف ہو گئے تھے۔ پھر یہ ہوا کہ مفتاح اسمٰعیل کی جگہ ا س اسحاق ڈار کو خاص لانڈری میں ڈرائی کلین کر کے وزیر خزانہ بنا دیا گیا جو قبل ازیں کرپشن کے الزامات کی وجہ سے لندن میں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کیے ہوئے تھے۔ اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ بناتے وقت یہ دعوے کیے گئے تھے کہ وہ پاکستانی معیشت کی کایا پلٹنے کے لیے ایسے کام کر گزریں گے جو پی ٹی آئی کے اسد عمر، حفیظ شیخ ، شوکت ترین اور مسلم لیگ ن کے مفتاح اسمٰعیل کے بس کی بات نہیں تھی۔ اسحاق ڈار نے ملکی معیشت کی کایا پلٹنے کی بجائے جو کام کیے ان کا مختصر ترین خلاصہ یہ ہے کہ کفن چور بیٹے کی وارداتوں کے بعد اب اس کا مرحوم کفن چور باپ بھلا لگنے لگا ہے۔ اس بات کی وضاحت یہ ہے کہ پہلے وزرائے خزانہ قیمتوں اور مہنگائی میں اضافہ معذرت خواہانہ انداز میں کیا کرتے تھے جبکہ اسحاق ڈار نے مہنگائی کا تمام تر بوجھ عوام پر ڈالنے کو حیران کن طور پر قومی مفاد قرار دے دیا ہے۔
عمران خان کی حکومت میں ایف بی آر کے چیئرمین بنائے گئے اور اسی دور میں اپنے عہدے سے مستعفی ہونے والے شبر رضا زیدی نے گزشتہ دنوں دیئے گئے انٹرویو میں جو ناقابل تردید حقائق بیان کیے ان سے یہ بات بڑی حد تک واضح ہو جاتی ہے کہ اصل میں یہاں قومی مفاد میں کون سے ایسے کام ہونا ضروری ہیں جن کی راہ میں ہر قسم کی اشرافیہ حائل ہوجاتی ہے۔ نہ تو یہ بات عمران خان اور ان کے وزرائے خزانہ کو بتانے کی ضرورت تھی اور نہ ہی اسحاق ڈار کو سمجھانے کے لیے انہیں دوبارہ سکول میں داخل کرانا ضروری ہے کہ بجٹ خسارہ کم کرنے کے لیے عام لوگوں کی آمدن بڑھائے بغیر ان کی عام استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں اضافے کو کسی صورت قومی مفاد نہیں سمجھا جاسکتا ۔ شبر رضا زیدی نے اپنے انٹرویو میں بتایا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران انہیں عمران خان کے قریبی ساتھی اسد قیصر نے خیبر پختونخوا کے تمباکو مافیا کو ٹیکس نیٹ میں لانے سے منع کیا ، شاہ محمود قریشی نے ملتان کے بڑے زمینداروں پر ٹیکس عائد کرنے سے روکا ، جنرل ( ر) قمر جاوید باجوہ نے پراپرٹی سے وابستہ کاروبار پر ٹیکس نافذ کرنے سے گریز کا کہا اور اسی طرح عمران حکومت کے لوگوں نے سابقہ فاٹا میں سٹیل بزنس سے وابستہ لوگوں کو ٹیکس کے دائرے میں شامل کرنے سے روک دیا۔ قبل ازیں سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان میں موجود کل 22لاکھ دکانوں میں سے صرف 30ہزار ٹیکس نیٹ کا حصہ ہیں جبکہ قومی مفاد یہ ہے کہ تمام چھوٹے بڑے دکانداروں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا۔
اسحاق ڈار نے اگر وہ مذکورہ کام کیے ہوتے جنہیں عمران خان کی حکومت دوران کرنے سے روک دیا گیا تھا تو یقیناً آنکھیں بند کر کے ان کے ہر عمل کو قومی مفاد میں کیا گیا کام تسلیم کر لیا جاتا لیکن اگر موصوف عمران خان کی حکومت اور اپنی سابقہ روایات کے عین مطابق اشرافیہ کا بال بانکا کیے بغیر مہنگائی کا تمام پر عام لوگوں پر ڈالنے کی مشق جاری رکھے ہوئے ہیں تو ان کے اس طرح کے کاموں کو کیسے قومی مفاد میںکیے گئے افعال تسلیم کیا جاسکتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button