حکومت کے آخری ایام

تجمل حسین ہاشمی
حکومت اقتدار کے آخری ایام میں تیز رفتاری سے قانون سازی کرنے میں مصروف ہے، صرف دو روز میں قومی اسمبلی سے 53 قوانین منظور کرائے گئے ۔ اکثر بل ایسے ہیں جن سے ارکان اسمبلی تک کو لاعلم رکھا گیا ، حکومت نے قومی اسمبلی سے جمعرات27جولائی کو24اور جمعہ28جولائی کو29بل منظور کرائے۔ ایوان بالا سینیٹ بھی 24جولائی سے اب تک 21بل منظور کر چکا ہے۔ انتخابات ایکٹ ترمیمی بل2023کی کثرت رائے سے منظوری دے دی گئی۔ پہلی مرتبہ یہ ترامیم پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی جانب سے تجویز کی گئیں تھیں۔ الیکشن ایکٹ ترمیم کے مسودے کے مطابق جاری معاشی منصوبوں اور بین الاقوامی معاہدوں پر عمل درآمد کا اختیار نگران حکومت کو مل جائے گا۔ اختیارات میں نجکاری کمیشن ایکٹ، پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ اور انٹر گورنمنٹل پرائیویٹائزیشن ایکٹ کے تحت چلنے والے منصوبے شامل ہوں گے۔ ترامیم کے تحت قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے انتخاب میں پارٹیوں کے ووٹوں کی تعداد میں بالترتیب آٹھ اور چار ہزار سے کم فرق کی صورت میں گنتی دوبارہ کی جائے گی۔ پریذائیڈنگ افسران حاصل نتیجے کو فوری طور پر الیکشن کمیشن کو بھیجنے کے پابند ہوں گے۔ ریٹرننگ افسر کیلئے فائنل نتائج کی تصویریں بنا کر الیکشن کمیشن کے ساتھ شیئر کرنا لازمی ہو گا۔ پریذائیڈنگ افسر انتخاب کا نتیجہ پولنگ کی رات دو بجے تک دینے کا پابند ہوں گے۔ نتائج جمع کرانے کی ڈیڈ لائن اگلی صبح10بجے تک ہو گی۔ بل کے مطابق نادرا الیکشن کمیشن آف پاکستان کو نئے شناختی کارڈز کے ریکارڈ فراہم کرنے کا بھی پابند بناتا ہے، نئے قانون کے تحت الیکشن ٹربیونل میں ریٹائرڈ ججوں کو شامل نہیں کیا جائے گا۔ کامیاب امیدواروں کے حلف لینے سے متعلق بل میں کہا گیا ہے کہ امیدوار ساٹھ روز میں قومی اسمبلی یا سینیٹ کی سیٹوں کا حلف اٹھانے کا پابند ہو گا، بل کے مطابق سینیٹ کی نشستوں کے لیے ٹیکنو کریٹ کی تعلیمی قابلیت کے علاوہ20سالہ تجربے کو بھی ضروری بنایا گیا ہے۔ حلقہ بندیوں کے حوالے سے بل میں کہا گیا کہ حلقہ بندیاں آبادی کے تناسب پر ہی کی جائیں گی اور ایسا انتخابی شیڈول کے اعلان ہونے سے چار ماہ قبل مکمل کرنا ہو گا جبکہ حلقوں میں ووٹرز کی تعداد میں فرق10فیصد سے زیادہ نہیں ہو گا۔ الیکشن کمیشن فائنل نتائج پر پولنگ عملے کی دی گئی تفصیلات ویب سائٹ پر جاری کرے گا، نتائج کے تین روز کے اندر مخصوص نشستوں کی حتمی ترجیحی فہرست فراہم کرنا ہو گی۔ ترمیم کے مطابق انتخابی مہم پر قومی اسمبلی نشست کے لیے40لاکھ سے ایک کروڑ تک خرچ کرنے کی اجازت ہو گی، صوبائی نشست کے لیے انتخابی مہم پر20سے40لاکھ خرچ کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ امیدوار10روز میں حلقے میں پولنگ عملے کی تعیناتی چیلنج کر سکے گا۔ انتخابی عملے کی وجہ سے الیکشن میں خرابی ہوئی تو عملے کے خلاف بھی کارروائی ہو گی۔ خواجہ سرائوں کو انتخابات لڑنے اور ووٹ ڈالنے کی اجازت حاصل ہو گی۔ سکیورٹی اہلکار پولنگ سٹیشن کے باہر ڈیوٹی دیں گے اور ہنگامی صورت حال میں پریذائیڈنگ افسر کی اجازت سے اندر آ سکیں گے۔ انٹرا پارٹی انتخابات منعقد نہ کرنے پر پارٹی کو شوکاز نوٹس کا اجرا اور جرمانہ بھی عائد ہوگا۔ الیکشن ایکٹ ترمیم کی شق نمبر230میں تبدیلی کے حوالہ سے رضا ربانی نے مخالفت کی اور کہا کہ قومی اثاثوں کو فروخت کرنا نگران حکومت کے اختیار میں کہاں سے آتا ہے؟ میں سیکشن230میں ترمیم کی مخالفت کرتا ہوں۔ مسلم لیگ ن کے سردار ایاز صادق کا کہنا تھا کہ ورلڈ بینک کو تشویش ہے کہ معاہدوں پر دستخط کون کرے گا؟ ملکی معیشت کو دیکھتے ہوئے حکومت نے نگران حکومت کو اضافی اختیارات دے کر غیر ملکی مالیاتی اداروں کے تحفظات کا ادراک کیا ہے، ویسے الیکشن ایکٹ کی تمام شقوں پر تمام جماعتیں متفق تھیں ماسوائے شق نمبر230جس پر تحفظات تھے، شق230نگران حکومت کے اختیارات سے متعلق ہے۔ الیکشن ایکٹ میں ترمیم ہو چکی، نگران حکومت کو اضافی اختیارات حاصل ہو چکے ہیں، ملکی صورتحال کے لیے شق نمبر230میں تبدیلی ضروری تھی ورنہ اگلے مہینوں میں دوبارہ معاشی بحران کھڑا ہو جاتا۔ انتخابی ترمیم کے بعد سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر الزام تراشی اور حاصل نتائج کو تسلیم کر کے خاموش ہو جائیں گی۔ اپوزیشن الزامات اور القابات کے بغیر کیسے زندہ رہیں،75سال میں تو الزامات کی سیاست پر الیکشن اور اپوزیشن کی ہے۔ اسمبلی میں سلیکٹڈ، آمریت کی پیداوار جیسے سوالات سے خلاصی ممکن ہو جائے گی، ترمیم کی وجہ سے سیاسی افراتفری سے نجات مل جائے گی، حکومت اپنا پاجامہ بچا کر عوامی فلاح پر توجہ مذکور کرے گی۔ ایسا ممکن نہیں لگتا ، عادت آرام اور جلدی سے نہیں جاتی، کیا عوام مزید انتظار کر لے گی؟۔