CM RizwanColumn

تانبے، سونے کے ذخائر اور خزانہ خالی

 

سی ایم رضوان
یادداشت قائم، دائم رکھنے والے پاکستانی جانتے ہیں کہ پچھلے پچاس ساٹھ سال میں ہر سال، چھ ماہ بعد سرکاری سطح پر اعلان کیا جاتا ہے کہ ملک کے فلاں علاقے میں سونے، تانبے، گیس، تیل اور تانبے وغیرہ کی وسیع معدنیات دریافت ہو چکی ہیں اور ان ذخائر کی بازیابی کے بعد ملک امیر ترین ممالک میں شامل ہو جائے گا مگر ہر بار بات صرف خوشخبری سنانے تک رہتی ہے۔ آگے کچھ بھی نہیں، اب بھی گزشتہ روز ریکوڈک کے بعد شمالی وزیرستان کے علاقے دتہ خیل میں محمد خیل کاپر منصوبہ پاکستان کے دوسرے بڑے کاپر مائننگ منصوبے کی حیثیت سے سامنے آیا ہے۔ یہ بھی خبر ہے کہ یہ منصوبہ دنیا کا بہترین تانبا پیدا کر رہا ہے۔ یاد رہے کہ ایف ڈبلیو او کا ماتحت ادارہ منرل ایکسپلوریشن اینڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن اس منصوبے پر کام کر رہا ہے اور اسی علاقے میں قائم پلانٹ میں یہاں سے حاصل ہونے والا خام مال پراسس ہو رہا ہے جس سے تانبے کی پیداوار ہو رہی ہے۔ شنید ہے کہ اس منصوبے سے 22ہزار ٹن تانبا تیار کرکے دنیا کو ایکسپورٹ کیا جا چکا ہے۔ منرل ایکسپلوریشن اینڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان میں 6ٹریلین ڈالر مالیت کی تانبے سمیت دیگر معدنیات موجود ہیں جن سے فائدہ اٹھانے کے لئے درکار جدید ترین ٹیکنالوجی اور بھاری غیر ملکی سرمایہ کاری بہت اہم ہے۔ سرکاری اطلاعات کے مطابق پاکستان سونے کے ذخائر رکھنے والا دنیا کا دسواں بڑا، تانبے کے ذخائر رکھنے والا 13واں، کوئلے کا دوسرا جبکہ نمک کے ذخائر رکھنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ جی سی سی ممالک سمیت دنیا کے دیگر ممالک کے بڑے سرمایہ کاروں نے پاکستان میں معدنیات اور کان کنی کے شعبے میں سرمایہ کاری کے لئے دلچسپی ظاہر کی ہے۔ یہ بھی سنا ہے کہ پاکستان میں معدنیات اور کان کنی کے شعبے میں ایک اور بڑی پیش رفت ہونے جارہی ہے اور وہ یہ کہ اسلام آباد میں سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلی ٹیشن کونسل کے زیر انتظام پاکستان منرلز سمٹ یکم اگست کو منعقد ہونے جا رہی ہے جس میں دنیا کے بڑے سرمایہ کار اور معدنیات کے ماہرین شرکت کرنے جا رہے ہیں، اس میں پاکستان کی اعلیٰ سول، عسکری قیادت بھی خصوصی طور پر شرکت کرے گی۔ اس سمٹ میں معدنیات اور کان کنی کے شعبے میں پاکستان میں موجود کھربوں ڈالرز کا پوٹینشل بھی دنیا کے سامنے رکھا جائے گا۔ یقیناً دنیا کی حیرانی کی وجہ یہ ہو گی کہ پاکستان میں معدنیات کی اتنی بڑی دولت ہونے کے باوجود آئے روز ان کا خزانہ خالی ہوتا ہے اور ہمیشہ اس کے حکمران کشکول لے کر دنیا میں پھر رہے ہوتے ہیں۔ تخمینہ جات کے یقینی طور پر امید افزا ہونے اور ان ذخائر کے حقیقت میں موجود ہونے کے باوجود یہ منصوبہ جات ملک و قوم کے حالات کیوں بدل نہیں پاتے مثال کے طور پر سینڈک کا منصوبہ دیکھا جاسکتا ہے۔ پاکستان اور ایران کی سرحد پر واقع قصبے تفتان کی حدود شروع ہونے سے کچھ پہلے انگریزی اور چینی زبان میں لکھا آسمانی رنگ کا ایک بورڈ آویزاں نظر آتا ہے، جس پر تحریر ہے ’’ ویلکم ٹو سیندک پراجیکٹ ‘‘ لیکن یہ خیر مقدم ہر شہری کے لئے نہیں، کچھ خاص لوگوں کے لئے ہے۔ اس پراسرار جگہ پر سونے اور چاندی کے ذخائر تو ہیں مگر یہ معدنیات کیسے نکالی جاتی ہیں، کہاں فروخت ہوتی ہیں اور کیا منافع ہوتا ہے اور کہاں جاتا ہے یہ سب راز ہیں جو چند سینوں یا پھر بعض دستاویزات میں ہی موجود ہیں۔ یہ بھی سوچا جا سکتا ہے کہ چلو ملک وقوم نہ سہی اس منصوبے پر کام کرنے والے مقامی لوگ تو خوشحال ہونے چاہئیں لیکن حقائق یہ ہیں کہ سینڈک ( سونے) کی کانوں کے ملازمین بھی انتہائی مشکل سے دوچار ہیں۔ بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع اس منصوبے کا آغاز 1990میں ہوا تھا، جس میں چینی کمپنی کو کان کی کھدائی، دھات کی صفائی کے کارخانے، بجلی، پانی کی فراہمی اور رہائشی کالونی کی تعمیر کی ذمہ داری دی گئی۔ 1995میں سینڈک کا آزمائشی آپریشن شروع کیا گیا اور 1500میٹرک ٹن تانبے اور سونے کی پیداوار کی گئی جبکہ اگلے ہی سال تکنیکی اور مالی وجوہات کی بنا پر اس منصوبے کا آپریشن معطل کر دیا گیا۔ بعد ازاں 2003سے دوبارہ آپریشن بحال ہوا۔ اپریل 2019 تک یہاں کان کنی اور صفائی، پیداوار کا کام چینی کمپنی ایم آر ڈی ایل کے پاس تھا۔ آپریشن کے دوران 24گھنٹے کام جاری رہتا تھا۔ مغربی کان میں کھدائی مکمل ہو چکی تھی جبکہ مشرقی اور شمالی کانوں سے خام مال حاصل کیا جا رہا تھا۔ یہ کام 24گھنٹے بغیر کسی وقفے کے جاری رہتا۔ پراسس کے مطابق 10ڈمپر 80سے 90ٹن خام مال کو سیمولیٹر کے پاس ذخیرہ کرتے ہیں، جہاں سے یہ ریت بن کر دوسرے سیکشن میں جاتا ہے، وہاں سے مختلف رولرز سے گزار کر پانی اور کیمیکل سے اس کو پراسس کیا جاتا ہے۔ اس طرح یہ بھٹی میں پہنچتا ہے جہاں اس کے بلاک بنائے جاتے ہیں۔ سات برس تک اس منصوبے میں بطور کاسٹنگ آپریٹر کام کرنے والے احمد یار کا کہنا ہے کہ منصوبہ میں چوبیس گھنٹوں میں تین کاسٹنگ ہوتی تھیں اور ہر کاسٹنگ میں 44سے 52بلاکس بنتے تھے جن کا وزن پانچ سو کلوگرام سے سات سو کلوگرام ہوتا تھا۔ ایک اور کارکن علی احمد خان نے 2003سے 2008تک سیندک میں ملازمت کی۔ اس کے بعد ملازمت چھوڑ دی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہاں تنخواہ بہت کم تھی۔ آپریشن کرنے والی کمپنی بین الاقوامی کمپنی ہے لیکن مقامی ملازمین کو 80سے 120ڈالر ماہانہ تنخواہ دی جاتی تھی۔ ملازم طبقہ بدحال ہے۔ سینڈک کے آس پاس تافتان، نوکنڈی اور ضلعی ہیڈکوارٹر دالبندین واقع ہیں۔ مقامی لوگوں کو پانی کی سہولت فراہم کرنے کے لئے ایک پائپ لائن بچھائی گئی ہے لیکن یہ منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکا۔ پانی صرف چند کلومیٹر تک پہنچ پاتا ہے جبکہ بجلی کی عدم فراہمی اور موٹروں کی فنی خرابی کے باعث مقررہ مقامات پر پانی بھی نہیں پہنچ سکا۔ حالیہ بارشوں سے قبل چاغی بلوچستان کے قحط سالی سے شدید متاثرہ علاقوں میں شامل تھا، جہاں مال مویشی کی بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئیں جبکہ خواتین اور بچے غذائی قلت کا شکار ہوئے ہیں۔ دالبندین کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ مقامی ترقی میں سینڈک کا کوئی کردار نہیں۔ اس منصوبے سے فائدہ یقیناً پہنچا ہے لیکن کن کو یہ پتہ نہیں۔ یاد رہے کہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں آغاز حقوق بلوچستان پیکیج کے تحت سینڈک منصوبہ بلوچستان کو دیا گیا تھا اور قرار دیا کہ اگر بلوچستان اس کا کنٹرول حاصل کر لیتا ہے تو اسے منافع میں سے 35فیصد حصہ ملے گا لیکن وفاقی حکومت نے اس منصوبے پر ہونے والی سرمایہ کاری کی واپسی کا مطالبہ کر دیا جو 27ارب روپے بتائی جاتی ہے۔ سابق وزیرِ اعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ کا کہنا تھا کہ انہوں نے نواز حکومت کو وفاق کا وعدہ یاد دلایا تھا لیکن انہوں نے منصوبہ نہیں دیا جب معاہدے کی مدت پوری ہوئی تو انہوں نے کہا کہ آپ اس کی توسیع کریں تو میں نے انکار کر دیا۔ کیونکہ اگر پچاس فیصد چین لے جائے، 48فیصد وفاقی حکومت لے، باقی بلوچستان کو صرف 2فیصد رائیلٹی ملے گی۔ سنا ہے کہ اس کے بعد بلوچستان کی آنے والی حکومت نے معاہدے میں توسیع کر دی تھی۔ حکومت پاکستان کی جانب سے اختیارات دینے کے بعد سینڈک میٹل لمیٹڈ اس منصوبے کی نگرانی کرتی ہے۔ کمپنی کے مطابق پروجیکٹ میں چینی کمپنی اور حکومت پاکستان کی نفع میں حصے داری پچاس، پچاس فیصد ہے جبکہ بلوچستان حکومت کو پانچ فیصد رائلٹی دی جاتی ہے جبکہ ایم آر ڈی ایل نفع میں سے 5فیصد کان کی بہتری کی مد میں ادا کرتی ہے۔ چینی کمپنی ایم آر ڈی ایل کے صدر خوشو پنگ نے 2019میں صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ وہ بلوچستان کی معاشی و سماجی ترقی کے لئے ہر ممکن کردار ادا کر رہے ہیں۔ بہرحال سینڈک منصوبے سے ملنے والی آمدنی سے بلوچستان کے سیاست دان اور عوام دونوں ناخوش ہیں۔ گو کہ یہ بلوچستان کے سیاسی بیانیے کا ایک حصہ بھی ہے مگر یہ کسی حد تک حالات کا عکس بھی ہے۔ سینیٹ، صوبائی اسمبلی کے اندر اور باہر اس منصوبے پر بات کی جاتی ہے۔ پاکستان کے آئین کے مطابق معدنیات پر صوبے کا حق ہے۔ پچھلے دور میں بلوچستان نیشنل پارٹی کی رکن ثنا بلوچ کی درخواست پر بلوچستان اسمبلی نے کمیٹی بھی تشکیل دی جو اس حوالے سے سفارشات پیش کرنے کی پابند تھی مگر بعد میں نجانے کیا ہوا۔ اس سلسلہ میں بلوچستان ہائیکورٹ میں بھی ایک درخواست زیر سماعت ہے۔ صرف سینڈک ہی نہیں معدنیات کے تمام پاکستانی ذخائر کے ساتھ یہی کچھ ہو رہا ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں اور قدرتی خزانوں کی بے قدری کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا قومی خزانہ بھی خالی ہے اور منصوبے بھی کھٹائی کا شکار ہیں۔

جواب دیں

Back to top button