ColumnTajamul Hussain Hashmi

رجحانات میں پر تشدد انتہا پسندی

 

تجمل ہاشمی
پاکستانی پارلیمان کے ایوان بالا ( سینیٹ) میں پرتشدد انتہا پسندی کی روک تھام کا بل پیش کیا گیا، تاہم اتحادی حکمران سیاسی جماعتوں کے اراکین کی بل پر تنقید کے بعد اسے اجلاس کے ایجنڈے سے ڈراپ کر دیا گیا۔ اراکین سینیٹ کی رائے سننے کے بعد چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے بل کو ایجنڈے سے ڈراپ کرتے ہوئے کہا کہ ’ آج اجلاس بل کے لیے نہیں بلکہ ایوان کے دن پورے کرنے کے لیے بلایا تھا‘ ۔ حکومت اس بل کو ڈراپ کرے نہ کرے، میں ڈراپ کرتا ہوں ۔ تمام سیاسی جماعتوں کے سینیٹرز نے پر تشدد انتہا پسندی کی روک تھام کے بل کو ریجیکٹڈ کر دیا۔ وزیر داخلہ نے نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بل اس فتنے کیلئے لائے ہیں جو دفاعی اداروں پر حملہ کرے، لوگوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنائے۔ وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ ’ سینیٹرز کی بات سے اتفاق کرتا ہوں مشاورت کا عمل زیادہ ہونا تھا‘۔ ماضی میں سیاسی جماعتوں نے اعلیٰ اداروں اور ان کے سربراہان پر تنقید اور حملے بھی کئے۔ لیکن 9مئی حملے قابل مذمت ہیں، نامزد افراد کے خلاف سخت کارروائی کو یقینی بنایا جائے، یہ اتحادی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ پر تشدد انتہا پسندی کی روک تھام کے لیے حکومت کی طرف پیش کیا گیا مجوزہ بل مسترد کر دیا گیا۔ انتہا پسندی پر ایک مباحثے میں شریک ضیاء الدین یوسفزئی نے کہا کہ ففتھ جنریشن وار نے رہی سہی کسر پوری کی، جس نے نوجوان نسل کو سانپ کی مانند صرف ڈسنے پر لگا دیا۔ وہ اب تحقیق نہیں کرتے۔ سوال نہیں کرتے، اور جو کچھ وہ سنتے ہیں، اسی کو سچ سمجھتے ہیں۔ ہمارے نوجوان یقینا اس کا شکار ہو رہے ہیں ۔ انتہا پسندی کے حوالہ سے 18نومبر 2021کو اسلام آباد میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پیس سٹڈیز کے زیر اہتمام تقریب سے خطاب میں فواد چودھری کا کہنا تھا کہ پاکستان میں انتہا پسندی کی وجہ مدارس ہرگز نہیں بلکہ سکولز اور کالجز ہیں جہاں پر باقاعدہ ایک منصوبے کے تحت 80اور 90کی دہائی میں ایسے اساتذہ بھرتی کیے گئے ہیں جو انتہا پسندی کی تعلیم دے رہے ہیں۔ خیبر پختوں میں انتہا پسندی کے خاتمہ کے لیے مرکز قائم کیا گیا۔ مرکز برائے متشدد انتہا پسندی ( سینٹر آف ایکسیلنس آن کائونٹرنگ وائلنٹ ایکسٹریمزم) قائم کیا گیا ہے، اس انتہا پسندی کو روکنے کے لیے قانون کا موجود ہونا چاہئے لیکن سینیٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتیں اس حق میں نہیں کہ مجوزہ بل کو پاس کیا جائے ۔ کیا پر تشدد انتہا پسندی میں ملبوس فرد اور تنظیم کو سخت قانونی سازی سے کنٹرول کیا جا سکے گا؟ کیا ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں پر تشدد انتہا پسندی کو ابھار رہی ہیں ؟ غیر مساوی دولت کی تقسیم ، لا قانونیت ، چند خاندانوں کا ملک پر مسلط رہنا، تعلیمی نظام میں تفریق ، روزگار کا فقدان ، صحت کی سہولت کا فقدان، جیسے ترقی پذیر ممالک میں انتہا پسندی آسانی سے پنپتی ہے ۔ ہمارے جیسے ملک جس کو چاروں طرف سیکیورٹی خطرات ہوں، وہاں بیرونی طاقتوں کا ہدف آسان ہو جاتا ہے۔ ضیاء الدین یوسف زئی نے انتہائی اہم بات کی ہے کہ ’ نئی نسل سے بات کرنے کی ضرورت ہے‘۔ ہمارے ہاں نئی نسل پُرتشدد انتہا پسندی کے رجحانات کا شکار بن رہی ہے، جو کم علمی اور بغیر سمجھے حاصل معلومات پر پختہ یقین کر لیتے ہیں۔ مجوزہ بل پر پہلا اعتراض مسلم لیگ ن کے ہی سینیٹر عرفان صدیقی کی جانب سے اٹھایا گیا، لیکن تمام سیاسی جماعتوں نے اس بل کو مسترد کیا لیکن کسی سینیٹر کی طرف سے ان محرکات پر بات نہیں کی گئی، جن کی وجہ سے انتہا پسندی پروان چڑھ رہی ہے۔ انتہا پسندی کیوں اتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے اس حوالے سے کسی سینیٹر کی طرف سے بات نہیں کی گئی، قانون ضرور بنائیں لیکن اس سے پہلے فیفتھ جنریشن وار میں معلومات کے اثرات کے حوالے سے سکول ، کالجز اور یونیورسٹیز میں موجود نوجوانوں کو آگاہی دینا انتہائی اہم ہو چکا ہے۔ مسلم لیگ ن کے سینیٹر نے کہا کہ پرتشدد انتہا پسندی کی روک تھام کا بل اہمیت کا حامل ہے، اس بل کو پاس کرنے سے پہلے کمیٹی میں پیش کرنا چاہیے تھا ، کل کو کوئی بھی اس بل کا شکار ہوسکتا ہے، ابھی جلد بازی میں بل پاس ہو رہا ہے، کل کہا جائے گا کہ بل پاس ہورہا تھا تو آپ کہاں تھے۔ پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی وفاقی وزیر برائے ماحولیات اور سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ ’ بل عجلت میں پاس کرنے میں کوئی ممانعت نہیں، ہم اس بل میں اپنی ترامیم لائیں گے‘ ۔ پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر ہمایوں مہمند نے اس بل کو پی ٹی آئی کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’ یہ اتنا اہم بل ہے۔ اس سے بہت سے لوگوں کی زندگیوں پر فرق پڑ سکتا ہے‘ ۔ انہوں نے کہا کہ’ لگتا ہے یہ تحریک انصاف کو عام انتخابات میں روکنے کا بل ہے، مجھے اس بل سے یہی بو آرہی ہے‘۔ نیشنل پارٹی کے سینیٹر میر طاہر بزنجو نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا یہ بل جمہوریت پر حملہ ہے ، جو لوگ خوش ہیں کہ اس کی زد میں کوئی اور آئے گا ، کل جو بھی اس ملک میں مظلوم کی بات کرے گا، وہ اس کا نشانہ بنے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ن لیگ نے اس بل پر اعتماد میں نہیں لیا۔ طاہر بزنجو کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے ہمارے اتحاد کے تمام بڑے فیصلے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کر رہی ہیں۔ یہ بل جمہوریت کے خلاف ہے اگر بل منظور کیا گیا تو ایوان سے ٹوکن واک آئوٹ کروں گا۔ جمعیت علمائے اسلام کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ اس بل کے ذریعے آپ اپنے ہاتھ کاٹ رہے ہیں۔ یہ ہم سب کے لیے مصیبت بنے گا۔ جے یو آئی کے سینیٹر نے بھی اس بل کی مخالفت کی۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ یہ بل جمہوریت کے تابوت میں آخری کیل ہے، یہ پارلیمنٹ کے ذریعے جمہوریت کی تدفین ہے۔ یہ بل صرف پی ٹی آئی نہیں بلکہ تمام جماعتوں کے خلاف ہے۔ اجلاس کے دوران جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق پراچہ نے کہا کہ آج یہ قانون ایک جماعت کے لیے بنایا جا رہا ہے، کل کو سب کے خلاف استعمال ہو گا۔ سینیٹرز کی رائے سننے کے بعد چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے بل ایجنڈے سے ڈراپ کرتے ہوئے کہا کہ آج اجلاس بل کے لیے نہیں بلکہ ایوان کے دن پورے کرنے کے لیے بلایا تھا ، حکومت اس بل کو ڈراپ کرے نہ کرے، میں ڈراپ کرتا ہوں۔ مجوزہ بل کے مسودے کے مطابق انتہا پسندی میں ملوث فرد کو 10سال تک قید اور 20لاکھ روپے جرمانہ ہو سکے گا، جبکہ پرتشدد شخص کو کسی بھی سطح پر الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ مجوزہ بل کے مطابق پرتشدد انتہا پسندی سے مراد نظریاتی عقائد، مذہبی اور سیاسی معاملات یا فرقہ واریت کی خاطر دھمکانا، طاقت کا استعمال اور تشدد کرنا، اکسانا یا ایسی حمایت کرنا ہے، جس کی قانون میں ممانعت ہے۔ بل کے مطابق پرتشدد انتہا پسندی میں ایسے کسی فرد یا تنظیم کی مالی معاونت کرنا بھی شامل ہے۔ شیڈیول میں شامل شخص کو تحفظ اور پناہ دینا بھی پرتشدد انتہا پسندی ہے۔ مجوزہ بل کے مطابق اگر حکومت مطمئن ہو کہ کوئی شخص یا تنظیم پرتشدد انتہا پسندی میں ملوث ہے تو اسے لسٹ ون اور ٹو میں شامل کیا جا سکتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button