
مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما شاہد خاقان عباسی ملک کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ انہوں نے تب ملک کی باگ ڈور سنبھالی جب انکے پارٹی قائد اور ملک کے وزیر اعظم نواز شریف کو ایک متنازعہ عدالتی فیصلے میں نا اہل قرار دیا گیا تھا۔ شاہد خاقان عباسی کا وزیر اعظم بنایا جانا ان پر مسلم لیگ ن کی قیادت کا اعتماد ظاہر کرتا تھا لیکن اب شاہد خاقان عباسی کا ری امیجننگ پاکستان جیسے پلیٹ فارمز پر جلوہ گر ہونا اور پارٹی پالیسی سے انحراف و اختلاف نے انکے اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان نئے تعاون کے اشارے دئیے ہیں۔ لیکن ایک دلچسپ کالم میں ملک کے مایہ ناز صحافی حامد میر نے انکا ماضی کا ایک کردار منظر عام پر لانے کی سعی کی ہے جب کہ وہ وزیر اعظم تھے۔ اس کالم سے معلوم ہوتا ہے کہ تب بھی وہ پارٹی پالیسی کو بالائے طاق رکھ کر کیسے اسٹیبلشمنٹ کی ایما پر کام کرتے رہے۔
آج سے پانچ برس پہلے کی بات ہے۔ مرکز میں شاہد خاقان عباسی وزیراعظم اور بلوچستان میں ثنا اللہ زہری وزیر اعلیٰ تھے۔ دونوں کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے تھا۔ 2018ءکے انتخابات قریب تھے اور پیپلز پارٹی ایک دفعہ پھر بلوچستان میں اپنے قدم جمانے کی کوششوں میں تھی۔ بلوچستان اسمبلی میں مسلم لیگ (ق) کے رکن عبدالقدوس بزنجو کو پیپلز پارٹی کی خواہش کا علم تھا۔ انہوں نے پیپلز پارٹی سے درخواست کی کہ وزیراعلیٰ ثنا اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب بنانے میں ان کی مدد کی جائے کیونکہ بلوچستان اسمبلی کے کچھ ارکان کے آصف علی زرداری سے قریبی تعلقات تھے۔
بزنجو نے وعدہ کیا کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد وہ پیپلز پارٹی میں شامل ہو جائیں گے۔ پیپلز پارٹی نے تن من اور دھن سے بزنجو کی حمایت شروع کردی۔ عبدالقدوس بزنجو وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لے آئے۔ ثنا اللہ زہری کی اپنی جماعت کے ارکانِ صوبائی اسمبلی نے بھی ان کے خلاف بغاوت کردی۔ ایک دن پارٹی قیادت نے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو حکم دیا کہ وہ کوئٹہ جائیں اور ثنا اللہ زہری کی مدد کریں۔ عباسی صاحب کوئٹہ پہنچے اور زہری کو رازدارانہ انداز میں مشور ہ دیا کہ بہتر ہے آپ تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ کرنے کی بجائے خود ہی استعفیٰ دے دیں۔
زہری کو سمجھ آگئی کہ وزیر اعظم صاحب پارٹی قیادت کے احکامات کی بجائے کسی اور کے حکم پر عمل کر رہے ہیں۔ انہوں نے وزارت ِاعلیٰ سے استعفیٰ دے دیا اور عبدالقدوس بزنجو نئے وزیر اعلیٰ بن گئے۔ وعدے کے مطابق انہوں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار نہیں کی بلکہ بلوچستان اسمبلی میں مسلم لیگ (ق) اور مسلم لیگ (ن) کے ارکان کے ساتھ مل کر ایک نئی پارٹی بنانے کے لئے جوڑ توڑ شروع کردیا۔ انہوں نے وفاقی کابینہ میں مسلم لیگ (ن) کے ایک وزیر جام کمال کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا اور بلوچستان عوامی پارٹی کے نام سے ایک نئی جماعت بنا لی جس کے صدر جام کمال بن گئے۔