ColumnTajamul Hussain Hashmi

بہتری ممکن ہے

تجمل حسین ہاشمی

مذہب کے وہ ہندو تھے، سانپ سے ڈر کر اس کو اپنا خدا بنا لیتے، آگ کو پوجتے ہیں، طاقتور چیزوں کو رب مان لیتے ہیں، مٹی کے بتوں کو سجدہ کرتے ہیں، اس ہندوستان کے ہم پڑوسی بنے۔ ہمارے بزرگوں نے کلمہ حق پر آزادی حاصل کی تھی، پاکستان ہمارا ملک ہے اور ہم مسلمان ہیں، یہ سب آہستہ آہستہ ہم کیوں بھول رہے ہیں۔ ہمارے لوگ پانی آگ یا سانپ سے نہیں بلکہ معاشی تنگی سے خوفزدہ ہیں۔ زمینی خدائوں کی نا اہلی سے ایسا معاشی خوف ہے جس سے انسان احکامات الٰہی سے دور ہو رہا ہے، بھوک بندی کو کفر کے قریب کر دیتی ہے۔ چیزوں کا خوف نہیں بلکہ آنے والے کل کا خوف کھائے جا رہا ہے۔ مسلمانوں کا رب ایک ہے جو دو جہانوں کا مالک ہے جس کا وعدہ ہے کہ میں پالنے والا ہوں۔ دونوں جہانوں کا نظام اس کے حکم کے تابع ہے۔ مسلمان حاکم سمجھ بوجھ ہونے کے بعد بھی چاہتا ہے کہ وہ صدا حاکم رہے، لوگ اس کے مطابق اپنی زندگی بسر کریں، غربت زدہ عوام فریادی رہیں، ریاستی ادارے اس کے کالے دھن کو سفید کرتے رہیں، اسمبلی اس کے مفادات کی حفاظت کرے، ریاستی نظام اس کے حکم کے مطابق چلے، طاقت ور گلی کا ہو یا ملک کا سربراہ امریکہ کی نیشنلٹی اور اقامہ چاہتا ہے۔ وطن میں ایسے افراد کی بہتات ہو چکی ہے جو پاکستان کے مستقبل کے بارے میں وقتاً فوقتاً شکوک و شبہات میں مبتلا رہتے ہیں، ان میں عوام کم اور زیادہ خواص کی تعداد ہوتی ہے۔ خواص میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جن کی ایک جیب میں پاکستانی پاسپورٹ اور دوسری میں امریکہ کا گرین کارڈ یا دوسرے ملکوں کے اقامت نامے موجود رہتے ہیں، ان کے مال کا بیشتر حصہ بیرونی ملکوں کے بینکوں میں پڑا ہے۔ پاکستان کو اس وقت کاروباری برادری لوٹ رہی ہے ، ان کو حکومتی اداروں کی تھپکی ہے۔ سولر سکینڈل میں بھی یہی رپورٹ سامنے آئی ہے، ان بنکوں سے بھی وصولی نہیں کر سکے جنہوں نے30ارب لوٹے تھے، میں پہلے کہا تھا کہ وزیر خزانہ ان بنکوں کو کچھ نہیں کہے گا کیونکہ حکومت ان کی مقروض ہے۔ طاقتور لوگ رہتے یہاں ہیں اور اپنی سیونگ بیرون ممالک میں رکھتے ہیں، نظام عدل انتہائی کمزور ہو چکا ہے، پاکستان میں ان کے بینک اکائونٹس بھی ان ناموں پر موجود نہیں، ان حلقوں کے نام پر کوئی گاڑیاں رجسٹر نہیں، سب کچھ ملازموں کے نام پر موجود ہیں اور اب نیب ترامیم کے بعد اپنے اثاثے مزید مضبوط کر لیے ہیں۔ انکم ٹیکس ، زکوۃ ، ویلتھ ٹیکس اور دیگر ٹیکسز سے اپنی دولت کو بچا کر رکھتے ہیں، کالے دھن کے انبار ایسی مہارت سے جمع کرتے ہیں کہ پھر حکومت ہی ان کے سامنے گھٹنے ٹیک کر دھوبی گھاٹ کھول دیتی ہے، ایمنسٹی سکیم جاری کرتی ہے جہاں پر عجیب و غریب قوانین کا صابن مل مل کر کالے دھن کو سفید کرنے میں ہما تن لگے ہوتے ہیں، ہمارے ہاں طاقتور حلقوں کے نزدیک پاکستان کا استحکام اس بات میں مضمر ہے کہ معاشی حالات کے اتار چڑھائو میں ان کے ذاتی مفادات کو کتنا تحفظ ملا، ان کے ذاتی کاروبار میں کتنا اضافہ ہوا۔ سیاسی افراتفری میں تاجر حضرات نے اپنے منافع کو کئی گنا بڑھا کر قوم کے استحصال میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، مدینے کی ریاست، نیا پاکستان، ایشین ٹائیگر، سڑکوں اور موٹر وے کا جال، ہسپتال کا اعلی نظام، احتساب کے نعرے، ایمانداری کا درس اور روزانہ کی بنیاد پر للکاریں معاشرہ میں مزید عدم برداشت کا باعث بنیں۔ ماضی میں اسلامی اتحاد اس وقت تک قائم رہے جب تاکہ حکومت گھر نہیں گئی، اس کے بعد سب اسلامی جماعتیں ایسے جدا ہوئیں کہ کسی کو اسلامی فکر نہیں رہی، ایسا حال موجودہ اتحاد کا ہونے والا ہے۔ مدینے کی ریاست کے خواب دکھانے والوں نے سائیکل پر آفس جانے کی کوشش بھی نہیں کی، توشہ خانہ پر طاقتوروں نے ہاتھ صاف کئے، اہل قلم، سچ لکھنے والے بھی لسٹ میں شامل تھے۔ توشہ خانہ کی مثال ایسے ہے جیسے سب نکل گئے ایک پکڑا گیا جو سب سے زیادہ انصافی بنتا تھا، صدر ایوب خان کے دور کی مثالیں دی جاتی ہیں لیکن پھر بھی ملک کو نعروں سے چلایا گیا جیسے ایم کیو ایم اپنے خلاف ہونے والی نا انصافی پر آواز بلند کرتی ہے لیکن حکومت میں رہنے کے بعد بھی عملی اقدامات کی طرف نہیں جاتی۔ ہمارے ہاں یہی طرز سیاست رہا وقت پورا کرو اور مال بنائو۔ انٹرنیشنل طاقتیں معاشی کمزور ممالک میں افواج کو طویل عرصے کے لیے سول حکومت کے امور میں الجھانے کی پلاننگ میں ہیں، سیاسی نظام کی کمزوری خطرناک ہے۔ عسکری اداروں کے ساتھ کھڑی پوری قوم ملک کی سلامتی کی محافظ ہے، خدا نا کرے پاکستان کے حوالے سے دشمن کی یہ سوچ کامیاب ہو کیوں کہ ہمارے ہاں اسٹیبلشمنٹ کے کردار سے سیاست دان خفا رہے ہیں لیکن آمریت سمجھتی رہی کہ سیاست دانوں نے ملک کو کمزور کیا جس کی وجہ سے مداخلت کرنا پڑی۔ تاریخ دیکھیں آمریت میں معاشی حالات بہتر رہے تھے، ایوب خان کا دور بہتر رہا، اس کے بعد سیاسی فیصلوں میں نا انصافی، مفادات کے ٹکرائو نے معاشی غلامی میں اضافہ کیا۔ قوم نے ہر دفعہ طاقتور حلقوں کی طرف دیکھا تاکہ اس معاشی غلامی سے نجات مل سکے، ملک عدل و انصاف کا گہوارہ ہو۔ اس وقت بھی عسکری قیادت کی طرف قوم دیکھ رہی ہیں، قیادت کی طرف سے بنیادی معاشی، زرعی پلاننگ سے صورتحال میں بہتری ممکن ہے، ہم زرعی ہیں لیکن سوسائٹیز بنا زرعی زمین کو ختم کر رہے ہیں اس کی روک تھام کرنا بھی ضروری ہو گا۔

جواب دیں

Back to top button