الیکٹرک کڑا سے کڑی نگرانی

الیکٹرک کڑا سے کڑی نگرانی
تجمل حسین ہاشمی
سندھ اسمبلی نے عادی مجرموں کی کڑی نگرانی کے لیے انہیں الیکٹرک کڑا پہنانے کا بل متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا، جمعہ کو سندھ اسمبلی کا اجلاس سپیکر آغا سراج دارنی کے زیر صدارت ہوا، اجلاس کے دوران عادی مجرموں کی نگرانی کا قانون پیش کیا گیا جیسے ایوان نے متفقہ طور پر قبول کر لیا۔ مجوزہ قانون کے مطابق چوری ڈکیتی ، قتل ، کار اور موٹر سائیکل جیسے جرائم میں ملوث افراد کو الیکٹرک کڑا پہنایا جائے گا۔ منشیات والے افراد کے لیے بھی ایسا ہی کڑا استعمال کیا جائے گا۔ یہ بل دسمبر 2022ء میں اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا جو اب متفقہ طور پر منظور کیا گیا ہے، عادی مجرموں کے لیے تو سندھ حکومت نے قانون بنا ڈالا، معاشی مجرموں کو کون سا کڑا پہنا جائے گا ؟۔ گندم ، چاول ، چینی کے سوداگر کے کڑے کی گرفت میں کب آئیں گے ؟ اداروں میں رشوت کی روک تھام کیلئے قانون کی عمل داری کو یقینی بنانے کے لیے فوری ایکشن کی ضرورت ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر رشوت کے واقعات عام ہو رہے ہیں، کرپشن روٹ لیول تک سرعت ہو چکی ہے، جرائم کی روک تھام کے لیے حکومتی سطح پر روزگار میں بہتری اور سخت کارروائی کی ضرورت ہے۔ سندھ حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے جاری رپورٹ میں کراچی کو نا مناسب شہر قرار دیا گیا ہے، اس کی گریڈنگ کم کر دی گئی۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ صاحب کا کہنا تھا ’’ کراچی بد ترین شہر کے حوالے سے مرتضیٰ وہاب اکنامسٹ کو جواب دیں‘‘۔ اے ایف پی کے مطابق میئر کراچی مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ اگر کراچی شہر رہنے کے قابل نہیں تو پاکستان بھر سے لوگ کراچی کیوں آتے ہیں؟ کیا اس طرح کے جوابات سے دی گئی گریڈنگ میں کوئی فرق پڑے گا ، میئر کراچی مرتضیٰ وہاب جس خدمات کو لے کر چلے ہیں اسی سے بہتری ممکن ہو گی، لوکل محکموں سے کام کروایا جائے، روزانہ کی بنیاد پر حاضریوں کو یقینی بنائیں تاکہ ایسی رپورٹس آنا بند ہو جائیں۔ بیانات نہیں کام بول گا۔ عالمی تنظیم اکنامکس انٹیلیجنس یونٹ کی حالیہ رپورٹ میں کراچی شہر کو رہنے کے قابل شہروں کی فہرست میں 169ویں نمبر پر رکھا گیا ہے، اکنامک انٹیلیجنس یونٹ کی طرف سے پبلش کی جانے والے رپورٹ اتحادی حکومت کے ختم ہونے کے اعلان کے بعد شائع ہونا جبکہ پیپلز پارٹی سمجھتی ہے کہ اس دفعہ وفاق میں ہماری حکومت ہو گی۔ گزشتہ چند روز پہلے سے پیپلز پارٹی کی قیادت کی طرف سے بیانات کا سلسلہ شروع تھا اگلے الیکشن میں پیپلز پارٹی حکومت بنائے گی۔ چیئرمین بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ’’ میں بھی پانی کا ٹینکر خریدتا ہوں‘‘، کے بعد عالمی تنظیم اکنامکس انٹیلیجنس یونٹ نے وقت کی مناسبت سے رپورٹ شائع کر دی۔ یقینا کراچی شہر کو اس وقت چند بڑے مسائل کا سامنا ہے۔ سندھ حکومت کی طرف سے کراچی شہر میں جاری منصوبوں کو جلد مکمل کر لے تو انتخابی حالات یکسر مختلف ہوں گے۔ کراچی میں انفراسٹرکچر کی جلد بحالی انتہائی ضروری ہے، جس سے ٹریفک کے نظام کو کنٹرول کیا جا سکے گا، بہترین بس سروس کا تحفہ دیا گیا ہے جو یقینا عوام کے لیے بہترین سہولت ہے۔ سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ سے ٹریفک میں مشکلات ہیں، میئر کراچی مرتضیٰ وہاب کی خدمات پر کوئی شک نہیں، دن رات کام کی نگرانی کر رہے ہیں، پندرہ سال سے سندھ حکومت اور اتحادی جماعت ایم کیو ایم کا میئر برسر اقتدار رہے لیکن عوامی سہولیات میں ناکام رہے۔ مصطفیٰ کمال کے دور کے کاموں کو لوگ آج بھی یاد کرتے ہیں، کاروباری شہر کراچی سالوں گزرنے کے بعد بھی بنیادی ضرورت پانی جیسے مسائل کا شکار ہے۔ اس وقت پانی کے ٹینکر کی کم از کم مارکیٹ قیمت 4500کے لگ بھگ ہے۔ کراچی جس کو غریبوں کی ماں سمجھا جاتا ہے، یہ بھرم بھی ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ کئی مسائل اور سیاسی، مذہبی اور معاشرتی نظریات نے کراچی کو زخمی کیا ہوا، ذاتی مفادات کے تحفظ کی ہوا نے سسٹم کو اپنی لپٹ میں لے لیا ہے، اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو فنڈز کی تقسیم این ایف سی ایوارڈ کے مطابق جاری ہے ، ٹیکسز کی وصولی صوبوں کے حوالے ہی ۔ وفاق ٹیکسز سے حاصل فنڈز سے سود کی ادائیگیاں کرتا ہے۔ قرضوں کی ادائیگیاں وفاق کے حصہ میں ہیں ، وفاق کے پاس بجلی اور گیس کے ریٹ بڑھانے کے علاوہ کو چار باقی نہیں ہے۔ جس کا اظہار وزیر اعظم شہباز شریف نے لاہور چیمبر آف کامرس کے ممران سے ملاقات کے دوران کیا۔ ’’ بجلی کے نرخ میں بد قسمتی سے اضافہ کرنا پڑ رہا ہے ‘‘، ترقیاتی منصوبوں اور مہنگائی کے کنٹرول کے حوالے سے فواد چودھری اور سابق وزیر خزانہ اسماعیل مفتاح واضح کہ چکے ہیں کہ اٹھارویں ترمیم میں تبدیلی کی ضرورت ہے، اس کے بغیر نظام نہیں چل سکتا، صوبوں کیلئے امداد اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے وفاق کو ٹیکسز کی وصولی میں کمی کا سامنا ہے، حالیہ سیلاب سے متاثرین کو وفاق کی طرف سے گرانٹ کی یقین دہانی دی گئی، امداد نہ ملنے پر پیپلز پارٹی نے وزیر اعظم سے شکایات کی تھیں۔ کراچی کے لیے پانی کا منصوبہ 4 Kابھی تک فنڈز کی عدم فراہمی سے بند پڑا ہے، کراچی سرکل ریلوے کی بحالی ابھی بھی ناممکن ہے۔ وفاق میں ایسی صورتحال کا سامنا نئے وزیر اعظم کو در پیش ہو گا۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے دعویٰ کیا ہے کہ’’ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری چار ماہ بعد ملک کے وزیراعظم ہوں گے‘‘، موجودہ معاشی حالات کو کس طرح کنٹرول کریں گے، یہی سیاسی لیڈر کی سیاسی بصیرت کا امتحان ہو گا، لیڈر کا کام معاشی مشکلات میں قوم کے مورال کو بلند رکھنا اور بہتر معاشی پالیسی دینا تاکہ لوگوں کو بر وقت روزگار میسر ہو سکے۔ کراچی میں مذاکرے کے پروگرام میں معاشی و مالیاتی ماہرین قیصر بنگالی اور شبر زیدی نے خطاب کیا۔ قیصر بنگالی کا کہنا تھا کہ معیشت اور سیکیورٹی کی دو کھڑکیاں بند ہو چکیں، معیشت قرض کے حصول تک محدود ہوگئی ہے۔ قیصر بنگالی کا کہنا تھا کہ 1996ء سے تین عالمی اداروں کے سربراہان سٹیٹ بینک کے گورنر بن چکے ہیں، ہم اپنی معاشی خودمختاری کھو چکے ہیں۔ میڈیا ذرائع کے مطابق نگران سیٹ اپ میں وزیر اعظم کی سیٹ کسی ماہر معاشیات، بینکر کو دئیے جانے کا امکان ہے۔ میرے خیال میں ملک کو اس وقت ان فیصلوں کو ضرورت ہے، جس سے سیاسی افراتفری میں کمی ہو۔ معیشت کے حوالی سے 5Esپر مستقل بنیادوں پر کام جاری رکھا جائے تو تھوڑے وقت میں بہتری ممکن ہو گی۔