ColumnImtiaz Aasi

انتقامی سیاست

امتیاز عاصی

لاہور کی احتساب عدالت نے مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف کو غیر قانونی پلاٹ کی الاٹمنٹ ریفرنس سے بری کرتے ہوئے قرار دیا ہے نواز شریف کو عمران خان کی حکومت نے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا ہے۔ عدالت نے لکھا ہے ریفرنس میں نواز شریف کا کردار شریک ملزمان سے بھی کم ہے۔ عدالت نے نواز شریف کی جائیدادوں کے شیئر ہولڈرز کی منجمد جائیدادوں کو بحال کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کے ساتھ نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے کا فیصلہ واپس لے لیا ہے۔ عدالت سے بریت کسی سیاست دان کی کریڈبلٹی پرکھنے کا اصل پیمانہ ہے جس کے بعد کسی کو تنقید کی گنجائش نہیں رہتی۔ پاکستان کی 76سالہ تاریخ میں کسی ادارے کو کسی سیاست دان کے خلاف حقائق کے برعکس مقدمہ بنانے پر گرفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے ورنہ مقدمات کی تفتیش کرنے والوں کو قانون کی گرفت کا خوف ہوتا تو کسی سیاست دان کے خلاف بغیر ٹھوس شہادت کے مقدمہ بنانے سے گریز کرتے۔ اصولی طور پر ہونا چاہیے جس ادارے نے نواز شریف کے خلاف بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے مقدمہ بنایا اس کے خلاف تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے تاکہ مستقبل قریب میں کوئی تحقیقاتی ادارہ کسی سیاست دان کے خلاف چھوٹا مقدمہ بنانے کی جسارت نہ کرے ۔ اگرچہ قانون میں جھوٹا مقدمہ بنانے والوں کے خلاف 182کی کارروائی کرنے کی گنجائش موجود ہے جو شاذ و نادر کسی کیخلاف عمل میں لائی جاتی ہے حالانکہ جھوٹا مقدمہ بنانے والوں کے خلاف زیادہ سے زیادہ سزائوں کا قانون ہونا چاہیے تھا۔ موجودہ حکومت نے احتساب قوانین میں جو ترامیم کیں ہیں ان میں جھوٹا مقدمہ بنانے والے کے خلاف قید اور کچھ جرمانے کی سزا رکھی گئی ہے جو احسن اقدام ہے۔ بظاہر نیب قوانین میں ترامیم کے خلاف بعض سیاست دانوں نے تنقید کی لیکن اس قانون کی موجودگی سے نیب کا ادارہ کسی کے خلاف ٹھوس ثبوت کے بغیر مقدمہ قائم کرنے سے گریز کرے گا۔ نیب اور ایف آئی ا ے میں درج ہونے والے مقدمات میں بسااوقات تفتیشی افسران کو ملک سے باہر جانا پڑتا ہے۔ ایسے مقدمات کی تیاری پر قومی خزانے کا کثیر سرمایہ خرچ ہوتا ہے اور بعد ازاں ملزمان عدم ثبوت کی بنا مقدمات سے بری ہو جاتے ہیں۔ گو نواز شریف کو مقدمہ سے بری کر دیا گیا ہے وہ اتنے برس مقدمہ کی وجہ سے جس اذیت سے گذرے ہوں گے اس کا حساب کون دے گا۔ تاسف ہے عمران خان نے اپنی انتخابی مہم میں عوام سے کرپٹ سیاست دانوں کا بے لاگ احتساب کرنے کا جو وعدہ کیا تھا وہ اس پر پورا اترنے میں بری طرح ناکام رہے۔ ان کے دور میں کسی ایک سیاست دان کو کرپشن کے مقدمہ میں سزا نہیں ہوئی۔ سابق وزیر اعظم کا دعویٰ تھا ان کے دور میں مسلم لیگ نون کے رہنما اور موجودہ وزیراعظم شہباز شریف کے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ بنایا گیا تھا جب کہ بقیہ تمام مقدمات ان کے دور سے پہلے کے تھے۔ چلیں مان لیا عمران خان کے دور میں شریف خاندان کے افراد کے خلاف ایک مقدمہ بنا جس میں حکومت ملزمان کے خلاف فرد جرم لگوانے میں ناکام رہی ہے۔ عمران خان کے دور میں اور مقدمات قائم کئے جاتے تو ان کا حال بھی منی لانڈرنگ کے مقدمہ جیسا ہوتا۔ عمران خان کا دعویٰ ہے انہیں جنرل باجوہ نے احتساب کرنے سے منع کر رکھا تھا بلکہ وہ انہیں اپنی کارکردگی ٹھیک کرنے کو کہا کرتے تھے۔ اگر سابق آرمی چیف نے انہیں احتساب سے منع کیا تھا تو عمران خان کو اقتدار میں رہتے ہوئے قوم کو اس بات سے آگاہ کرنا چاہیے تھا نہ کہ اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد انہیں ان باتوں کا خیال آیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان کے کہنے کے باوجود عمران خان احتساب عدالتوں کی تعداد میں اضافہ کرنے میں ناکام رہے۔ ان کی قانونی ٹیم کی نااہلی کا یہ عالم تھا وہ وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے بیٹے حمزہ شہباز کے خلاف منی لانڈرنگ کے مقدمہ میں فرد جرم لگوانے میں ناکام رہے۔ اس مقدمہ کی تیاری اور بیرون ملک سے معلومات کے حصول پر قومی خزانے کا کتنا پیسہ خرچ ہوا ہو گا اس کا ذمہ دار کون ہے؟، ہم ماضی کی طرف لوٹیں تو نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے دور میں ایک دوسرے کے خلاف مقدمات کی جو رسم پڑی اس کا تسلسل ابھی تک جاری ہے۔ آصف علی زرداری کوکئی سال مقدمات کا سامنا کرنے کے بعد مقدمات سے بریت ملی ۔ سیاست دانوں کا ایک دوسرے کے خلاف بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے مقدمات بنانے کا کھیل ختم ہونا چاہیے۔ افسوناک پہلو یہ ہے سیاسی جماعتیں اعلی عدلیہ کو سیاست دانوں کی ضمانت لینے پر تنقید کا نشانہ بناتی ہیں حالانکہ عدالتوں نے قانون دیکھنا ہوتا ہے نہ کہ کسی شخصیت کو دیکھ کر ضمانت دینی ہوتی ہے لہذا سیاست دانوں کو اعلیٰ عدلیہ پر بے جا تنقید سے گریز کرنا چاہیے۔ عدالتوں میں کام کرنے والے جج صاحبان کا تعلق اسی معاشرے سے ہوتا ہے۔ غلطی انسان سے ہو سکتی ہے اس کا مطلب یہ نہیں لینا چاہیے کسی کو ضمانت یا بریت اس کی شخصیت کی بنا دی گئی ہے۔ اعلیٰ عدلیہ سے آئے روز قتل جیسے سنگین مقدمات میں بعض لاوارث ملزمان کی بریت ہو تی ہے تو کیا ایسے ملزمان نے اپنے اثر و رسوخ سے بریت لی ہوتی ہے؟ سیاست دانوں کو اپنے رویے میں تبدیلی لانی کی ضرورت ہے اگر وہ ملک و قوم سے مخلص ہیں تو انہیں ماضی کی تلخ یادوں کو بھلا کر ترقی کے نئے دور کا آغاز کرنا چاہیے۔ وقت ایک سا نہیں رہتا پی ٹی آئی کے چیئرمین کے خلاف جو مقدمات کی بھرمار ہو رہی ہے آنے والے وقت میں برسراقتدار رہنے والوں کے خلاف اسی نوعیت کے مقدمات بن سکتے ہیں لہذا سیاست دانوں کو کسی کا آلہ کار بنے بغیر ملک اور قوم کی ترقی کے لئے کام کرنا چاہیے۔ عہد حاضر کی سیاست میں جو گند پڑا ہے ملک کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی لہذا سیاست دانوں کو ذاتی مفاد سے نکل کر ملک و قوم کی ترقی کے لئے کام کرنا چاہیے ورنہ ہمارا حال سری لنکا سے بھی برا ہو سکتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button