Column

دیہی آبادی بنیادی سہولتوں سے محروم کیوں؟

یاور عباس

اس وقت پاکستان کی آبادی 22کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے ، دیہاتی آبادی کا تناسب قریباً 63فیصد ہے ، پاکستان چونکہ ایک زرعی ملک ہے اور اس کی آمدن کا زیادہ تر انحصار زراعت پر ہے ، بدقسمتی سے قیام پاکستان سے لے کر اب تک ہماری حکومتوں نے نہ تو زرعی شعبہ پر کوئی خاص توجہ دی ہے اور نہ ہی دیہاتی آبادی کے بنیادی ضرورتیں فراہم کی ہیں ، دیہات آج بھی پسماندگی کا شکار ہیں ، تعلیم ، صحت ، روزگار ، بجلی ، گیس جیسی بنیادی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے لوگ دیہاتوں سے شہروں کی طرف تیزی سے رُخ کر رہے ہیں نتیجتاً شہری تناسب کے لحاظ سے شہری آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے ، شہری آبادی میں بے تحاشا اضافہ کے باعث شہروں کے مسائل بھی بڑھ رہے ہیں ، 1990میں دیہاتوں کی آبادی 70فیصد، 2000میں 67فیصد اور اب 2020ء میں تقریباً 63فی صد ہوچکی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ لوگ تیزی سے شہروں کی طرف نقل مکانی کررہے ہیں،ترقی پذیر کو ملک کو ترقی یافتہ بناتے بناتے ہم نہ تو ترقی یافتہ بنے بلکہ آئی ایم ایف کے غلام ضرور بن گئے ،عام آدمی کا معیار زندگی بہتر نہ ہوسکا ،ملک اقتصادی ترقی نہ کر سکا ، امن وامان کی صورتحال تشویشناک ، انصاف کی فوری اور سستی فراہمی محض ایک خواب بن کر رہ گیا ، غرض کہ کوئی بھی شعبہ دیکھ لیں اصلاحات کی ضرورت ہے۔
دیہاتی آبادی کو ترقی دینے کے لیے ماضی کی کچھ حکومتوں نے کوششیں ضرور کیں ، مختلف مشہور پروگرام شروع کیے، ان میں 1950کی دہائی میں ویلج ایڈ شامل ہے1960میں بنیادی جمہوری نظام 1970 کی دہائی میں انٹیگریٹڈ رورل ڈویلپمنٹ پروگرام (IRDP)اور 1980کی دہائی میں پانچ نکاتی پروگرا م تا ہم ان تمام اقدامات سے فائدہ اٹھانے والے بڑے بااثر کسان تھے جنہیں پہلے ہی حکومتوں کی سرپرستی حاصل تھی۔ چھوٹے کاشتکاروں کو زیادہ تر سبز باغ ہی دکھائے گئے ۔ IRDPکا تصور مرتب کرتے وقت، تمام کوتاہیوں کو دھیان میں لیا گیا۔پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت میں اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے یہ پروگرام 1972سے 1979کے درمیان سات سال تک سیاسی وابستگی اور عزم کے ذریعہ عمل میں چلایا۔ حکومت کی اچانک تبدیلی کے بعد، آئی آر ڈی پی بھی اسی قسمت کا سامنا کرنا پڑا اور بغیر کسی مستحکم وجوہ اور تشخیص کے پیچھے چلا گیا۔
اس ملک کی یہ بھی بدقسمتی ہے کہ ہر آنے والی حکومت ماضی کی حکومتوں کے پروگراموں کو ختم کر دیتی ہے اور نئے منصوبوں پر تجربات کرنا شروع کر دیتی ہے۔ کسی بھی اچھے سے اچھے منصوبے کا تسلسل برقرار نہیں رہتا۔یوں وقت اور دولت کا ضیاع بھی ہوتا ہے آج تک قومی دولت کی بربادی کا کسی نے حساب نہیں دیا۔زراعت کے شعبے پر توجہ دی گئی ہے نہ ہی اس کے جدید طریقوں کو آزمایا گیا ہے۔دیہاتوں میں رہنے والے لوگ آج بھی قسم پرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔دیہاتوں میں رہنے والے لوگ کیا اس ریاست کے فرد نہیں ہے قومی خزانے کا زیادہ تر حصہ شہروں کی آبادی پر خرچ کردیا جاتا ہے ستر سال گزرنے کے بعد بھی آج تک دیہاتی کی حالت نہیں بدلی۔ ملک کی آبادی کا 63 فیصد حصہ جو دیہاتوں میں آباد ہے اس کی ترقی کے لئے کوئی وزارت ہے نا منصوبہ ۔حکومت کو یہ ایک ماڈل دیہات نہیں دکھا سکتی جہاں تعلیم صحت روزگار کی جیسی بنیادی سہولت فراہم ہیں۔ کیا دیہات میں رہنے والے لوگ ٹیکس نہیں دیتے۔کیا ان کے ووٹ کی طاقت کم ہے۔
ہم دیہاتوں کو ترقی یافتہ بنانے کے بغیر اپنے ملک کو ترقی یافتہ نہیں بنا سکتے۔ہماری حکومت کو زراعت کے شعبے میں انقلابی تبدیلی لانی چاہیے۔یونیورسٹیاں اور بڑے تعلیمی ادارے شہروں سے باہر آنے چاہیے ٹیکنیکل سکول دیہاتوں میں بنانے چاہیے ،انڈسٹری کا رخ شہروں سے موڑ کر دیہاتوں کی طرف کرنا چاہیے۔ستم ظریفی کی بات تو یہ ہے کہ آج تک کسی گاں میں کبھی کوئی خاکروب نہیں گیا صفائی کا انتظام لوگ خود کرتے ہیں ریاست نے ذمہ داری نہیں اٹھائی۔پینے کے صاف پانی تک کوئی سہولت نہیں ہے۔سیوریج سسٹم کا کوئی انتظام نہیں ہے شاید ہی کوئی ایسا گاں ہے جس کے اردگرد جوہر نہ ہو۔اگر ہم دیہاتوں کو بنیادی ضرورت دینا شروع کر دیں تو شہروں میں بڑھتی ہوئی آبادی کو بھی کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔خلاصہ کے طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مربوط دیہی ترقی پر بہت کم زور دیا گیا تھا اور بیشتر سرکاری پروگرام ایک ہی مقصد کے لئے چلائے جاتے تھے، جس کی سیاسی قیادت نے اوپر سے ہی الگ تھلگ کوششیں کی تھیں۔ نچلی سطح سے اور اس سے اوپر کی قیادت تیار کرنے کے لئے بہت کم یا کوئی کوشش نہیں کی گئی جو خود انحصاری، خود حمایت اور احتساب کے اصولوں پر پروگرام نافذ کرتی ہے جو ان اقدامات کی نگرانی کرتی ہے۔
پاکستان کا مستقبل اپنے دیہی شعبے پر انحصار کرتا ہی کیونکہ ہماری اکثریت آبادی دیہات میں رہتی ہے۔ لہذااس شعبے کو ترجیحی بنیادوں پر ترقی دینے کے اقدامات اٹھائے جائیں۔ حکومتوں کا زور نہ صرف غربت کے خاتمے کو بہتر بنانے پر ہونا چاہئے، بلکہ غربت کے خاتمے کو فروغ دینے کے لئے حکمت عملی متعارف کرانے پر بھی ہونا چاہئے۔ اس کا حل دیہی بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانے اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ سڑک کے رابطوں کے ذریعے تمام دیہات قابل رسائی ہیں۔ دیہات کو بجلی اور گیس بھی مہیا کی جانی چاہئے، ساتھ ساتھ ٹیوب ویلوں کے لئے سبسڈی والے نرخ بھی رکھے جائیں۔ جدید کٹائی کے لئے جدید ٹیکنالوجی متعارف کروانا چاہئے۔ اس طرح کی ٹیکنالوجی خاص طور پر چھوٹے کاشتکاروں کو ان کی دہلیز پر مہیا کی جانی چاہئے۔ہر یونین کونسل کے لئے گروتھ سینٹرز قائم کیے جانے چاہئیں جو دیہی آبادی کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لئے مارکیٹنگ کی پیداوار اور چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعتوں کے قیام کے لئے کام کریں تاکہ انہیں شہروں میں نقل مکانی کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔ مقامی خام مال کے ذریعہ زراعت پر مبنی صنعتوں کے قیام کے انتظامات کو بھی ترجیح دی جانی چاہئے۔ اس کے علاوہ، مقامی قیادت کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے۔ زرعی معیشت کی حیثیت سے پاکستان اپنے دیہی شعبے پر بھرپور انحصار کرتا ہے۔ شہری اور دیہی شعبوں کی منصوبہ بندی اور ترقی کرتے ہوئے دیہی علاقوں کو ترجیح دی جانی چاہئے تاکہ چھوٹے کسان جو ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں فائدہ اٹھا سکیں اور پیداوار اور پیداواری میں بہتری آئے۔

جواب دیں

Back to top button