سیر و سیاحت اور ہم

سیر و سیاحت اور ہم
محمد قاسم آصف جامی
کافی عرصہ قبل ایک یادگار سفر کی کہانی میری زبانی کچھ یوں ہے کہ سالانہ روایت کے پیش نظر سیر و تفریح کیلئے ہم اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ خیبر پختونخوا کے علاقہ جات ( سوات، کالام، جھیل سیف اللہ اور مالم جبہ وغیرہ) کے مناظر کو چشم بصارت اور حافظہ بصیرت میں محفوظ کرنے کیلئے عازم سفر ہوئے۔ بعد از نماز عشاء پرسکون سواری اور پر تپاک کھانے سے سفر کا آغاز آبائی علاقے ( شرقپور روڈ، شیخوپورہ) سے ہوا۔ فیض پور انٹر چینج سے براستہ موٹر وے داخل ہوتے ہوئے چند لمحوں میں بارش کی رِم جھم اور یخ بستہ ہوائوں کے ہمراہ اسلام آباد جا پہنچے۔ اذان فجر سے قبل تاجدارِ گولڑہ پیر سید مہر علی شاہ رحمۃ اللہ کے آستانہ پر حاضری کا موقع میسر آیا۔ نماز فجر اور فاتحہ خوانی سے فارغ ہوکر سوات کی طرف کمر باندھی۔ خوش گپیاں اور مہذب لطائف زاد راہ ثابت ہوتے رہے، پرندوں کی چہچہاہٹ، دھیمی ہوا کی ٹھنڈک اور صاف مطلع نئے دن کا پیغام لئے کھڑا تھا کہ راستے میں ایک بُرج بورڈ پر لکھے جملے نے رات بھر کی سفری تھکاوٹ و اکتاہٹ کو دور بھگا دیا۔ جملہ کچھ یوں تھا کہ ’’ مسکرائیے، آپ مردان میں ہیں‘‘ اتنے منفرد اور قابل تحسین انداز استقبال نے سارے سفر میں بار بار اپنی یاد ضرور دلائی۔ مردان کی قدرتی خوبصورتی آنے والوں کیلئے سوات کی راہ بتاتے ہوئے مزید شدت انتظار کو ابھارتی رہی۔ اسی دوران ہمارے لئے قابل حیرت بات یہ تھی کہ خیبر پختونخوا پولیس احسن انداز میں ’’ پخیر راغلے‘‘ کہتے ہوئے اگلے رستے کی طرف بِن پوچھے رہنمائی کرنے کے ساتھ ساتھ پچھلے سفر کی خیریت بھی دریافت کرتی جبکہ ہم ہر چیک پوسٹ پر انہیں پنجاب پولیس کے رویے سے تشبیہ کے تصور سے ہی گھبرا جاتے۔ مینگورہ کے قریب دریائے سوات، اسکی وسعت، چاندنی، لہریں اور ٹھنڈا پانی یہ بتا رہا تھا کہ آپ پنجاب کے ’’راوی نالے‘‘ کو بھول جائیں۔ مینگورہ میں ایک عزیز آئندہ کے سفر کیلئے ہمارے میزبان ٹھہرے جن سے اگلے رستے کے متعلق دائیں یا بائیں جانب مڑنے کا پوچھتے تو وہ سمت بتائے بغیر ہی کہتے کہ ’’ جانے دو‘‘ جس پر سب سوار زور دار قہقہہ لگاتے کہ خان صاحب کہاں جانے دیں؟ سامنے پہاڑ پر کہ نیچے دریا میں۔ خیر مدین وادی کے خوبصورت چشمے اپنی شوریلی آواز نکال کر بتا رہے تھے کہ
ابتدائے سفر ہے سوتا ہے کیا
آگے آگے دیکھ ہوتا ہے کیا
چشمے کے پانی کو ہاتھ لگانا برف اٹھانے سے کم نہیں تھا لیکن صحت و بیماری کی پرواہ کئے بغیر پہاڑوں کے آنچل میں چشمے کے نیچے نہانا بھی ہمارے بہادری قصوں میں سے ایک ہے۔ الحمد اللہ قصر نمازیں معمول رہیں جبکہ وادی کالام جاتے ہوئے راستے میں تعمیری کام کی وجہ سے کافی انتظار کرنا پڑا۔ اس دوران معلوم ہوا کہ معروف کرکٹر شاہد خان آفریدی ایک قریبی پُل پر واپسی کیلئے انتظار و غصے کی کیفیت میں ہیں، جیسے ہی ٹریک کی روانی بحال ہوئی تو آفریدی صاحب سکائی بلو ٹی شرٹ میں ساتھ گزرنے والی گاڑیوں کو مسکراہٹ اور ہاتھ ہلاتے سلام کرتے نظر آئے۔ مداحوں کی محبت کو سمیٹتے ہوئے آفریدی صاحب اوجھل ہوئے تو ہماری جانب سے اس مقام اور پُل کا نام ’’آفریدی پُل‘‘ قرار پایا۔ 23گھنٹے سے مسلسل سفر کے بعد وادی کالام کی قابل دید اور لائق داد فضا، رات کی دھند اور سردی کی شدت آنے والوں کو آرام کی طرف دعوت دے رہی تھی۔ مقامی ہوٹل میں پڑائو کیا اور صبح گرم ملبوسات میں لپٹے، ناشتہ کرکے مقامی روایتی سواری ’’ جیپ‘‘ پر جھیل سیف اللہ اور مہوڈنڈ جھیل کی راہ اختیار کی۔ راستے میں برفیلے پہاڑ یوں محسوس ہوتے جیسے سفید چادر ان کی سردی کم کرنے کیلئے ڈالی گئی ہو، پہاڑوں پر سینکڑوں فٹ اونچے درخت بھی قدرت و فطرت کا دلکش نظارہ تھے، جگہ جگہ آبشاریں دل و دماغ کی تازگی کا سامان ہوتی رہیں۔ گرم چائے اور چپلی کباب بھی اچھے ہم سفر رہے۔ چشموں اور ندیوں کے شفاف اور ٹھنڈے پانی میں وضو کرتے گویا یوں محسوس ہوتا کہ اپنے ہاتھوں سے ہی جسم کے اعضاء کو انجکشن لگا کر مفلوج کیا جا رہا ہے۔ تیز بہائو اور سریلی ہوائوں نے ہمارا ہر جگہ ساتھ دیا کہ نصف نہار تک منزل پر پہنچ گئے۔ دنیا و مافیہا سے میلوں دور جھیل سیف اللہ ایسا سیاحتی مقام ہے جہاں آپ کو زندگی کے حسن اور اس کی بہاروں کا احساس ایک نئے انداز سے ہوتا ہے۔ موبائل نیٹ ورک سے قطع تعلقی اس مقام کی الگ خصوصیت ہے۔ عمارت نام کی کوئی چیز بھی اس جگہ سے دور دور تک دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ سیاحوں کا سکونت کے لئے خیمہ سسٹم، میدان میں یوں لگ رہا تھا جیسا کہ دیہات میں سبز ساگ پر سفید مکھن کی ٹِکیا رکھی ہو۔ میرے نزدیک یہ خاموش، سرد، پر کیف حسین نظارہ تمام سیاحتی مقامات کے ماتھے پر جھومر کی حیثیت کا حامل ہے۔ رنگ برنگی جھیل سیاحوں کو اپنے مداحوں میں تبدیل کر رہی تھی۔ اس میں کشتی رانی سے ہوتے ہوئے قریبی پہاڑ پر ہی برف سے بھی لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے اور ہمارے کچھ ساتھی اوپر پہاڑ سے گرنے والے چشمے کے نیچے دیر تک نہاتے بھی رہے۔ واپسی پر بحرین کے مقام پر قدرتی مناظر کے ساتھ ساتھ یہ منظر بھی یادداشت کا حصہ بنا کہ دو تیز بہائو دریائوں کے ملاپ والی جگہ پر پانی کے بالکل اوپر لکڑی سے بنا خانہ خدا ( مسجد) آنے والوں کے لئے جائے نماز کے ساتھ ساتھ جائے حیرت بھی ہے۔ بحرین میں ایک رات قیام کے بعد علاقے کے سب سے بلند ترین مقام ’’ مالم جبہ‘‘ کی طرف روانگی ہوئی۔ جمعہ کی نماز کے وقت امام صاحب کا پشتو میں وعظ و بیان ایک اجنبی و شیریں زبان کے ساتھ شناسائی اور ( پشتو نہ جاننے کی وجہ سے) افسوس کا سامان بھی تھا۔ مالم جبہ کا اصل حسن اسکی چیئر لفٹ کی سواری میں پوشیدہ ہے، ان سارے مناظر کو طائرانہ نظروں سے دیکھنے کے لئے اسکی سواری ضروری بھی ہے اور آئندہ مقام بلند ہونے کی وجہ سے مجبوری بھی، جمعہ کے دن بوقت عصر واپسی کیلئے روانگی کا وقت آیا تو چہروں پر اداسی چھانے لگی۔ راستے میں ایک ساتھی آلودگی پر زوردار درس بھی دیتے رہے اور ہم سب مہذب موسیقی سے بھی لطائف اخذ کرکے محظوظ ہوتے رہے۔ مختصر یہ کہ سادہ و نیک دل لوگ، روایتی لا جواب میزبانی، لذیز کھانے، پہاڑی جانور، سستے و تازہ پھل، ٹرائوٹ مچھلی، مرطوب قومی مشروب اور واپسی پر فضا گھٹ کے مقام پر دریائے سوات کے کناروں پر کمزور تیراکی کرنا، اس سفر کی نمایاں سرخیوں کی صورت میں ہمیشہ گوشہ دماغ میں محفوظ رہے گا۔ ایسے مقامات ہوں اور انکو کیمرے میں قید کرنے کا اہتمام نہ ہو تو مزہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ اس ادھورے پن کی کمی کو پورا کرنے کے لئے ایک ’’خاص دوست‘‘ کا شکر گزار ہوں۔ حجازی ساتھی اگر انہی دنوں آئی فون خرید لیتے تو یہ بار ِمشقت بھی نہ اٹھانا پڑتا۔ بہرحال زندگی میں ایسے اسفار ’’ سیر و فی الارض‘‘ پہ عمل، معلومات کا ذخیرہ حاصل کرنے، تسکینِ بصارت، دماغی طہارت اور رعنائیوں کی دلکشی کو باطن میں سمونے کے ساتھ فکر و نظر کی تروتازگی کیلئے اتنے ہی اہم ہوتے ہیں جتنا کہ ایک صاحبِ ذوق آدمی کے لئے قرطاس وقلم۔۔