یونانی سمندر سے آوازیں

تجمل حسین ہاشمی
مجھ سے اکثر لوگوں پوچھتے ہیں آپ کے کالم نگاری سے حکومتی اداروں کو کوئی فرق پڑتا ہے ؟، میں مسکرا کر کہتا ہوں کہ جب بھی حکومت عوامی مفاد پر ایکشن لیتی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ شاید میری لکھی گی تجویز پر عمل ہوا ہے۔ ہمارے پاس سوشل میڈیا پر لاکھوں فلوورز اور نہ ہی قاسم کے پاپا کے مرید ہیں، ہمارا تو یہی گمان ہمت بڑھا دیتا ہے ہم آزاد ہیں اور ایسی آزادی کسی ملک میں نہیں ہے، لیکن جو معاشی حالات چلے رہے ہیں وہ اچھے نہیں ہیں، انسان کی زندگی میں روٹی کتنی اہم ہے، اس کی سمجھ حکومتی حلقوں کو گزرے دور کیا ابھی تک بھی سمجھ نہیں ہے، چند سالوں بعد ایسی درد ناک خبریں ملک کو گھیر لیتی ہیں، جس سے غریبوں کو سکتہ ہو جاتا ہے، لوگ خط غربت سے مزید کئی درجے نچے چلے جاتے ہیں۔ جمہوری حکومتوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا، ہر سال کئی افراد روزگار کے چکر میں غیر قانونی طریقے سے باہر ملک جانے کے لیے زندگی کو خطرہ میں ڈالتے ہیں اور زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں، پنجاب کے کئی شہروں میں اس وقت کئی خاندان سوگوار ہیں ، بدھ کو ایس ایس ڈی او کانفرنس کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اب تک انسانی سمگلنگ کے 2700مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2018میں انسانی سمگلنگ سے متعلق دو قوانین بنائے گئے تھے جن میں ترامیم کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان میں امن اور پائیدار ترقی پر کام کرنے والی تنظیم سسٹین ایبل سوشل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن ( ایس ایس ڈی او) نے انسانی سمگلنگ سے متعلق قوانین کو ناقابل معافی جرم قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ واضح رہے کہ اس حادثے میں اب تک کم از کم 80افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے، تاہم اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ابھی 500متاثرین لاپتہ ہیں۔ ان لاپتہ افراد میں درجنوں پاکستانی شامل ہیں، ہمارے ہاں ابھی بھی کوئی شعور نہیں دیا جا رہا ، سکولوں ، کالجز، یونیورسٹیز میں انسانی سمگلنگ کے حوالے سے کوئی ورکشاپ اور میڈیا کمپین نہیں کی جاتی ہے۔ اتحادی حکومت میں موجود دونوں بڑی سیاسی جماعتیں پچھلے کئی سال سے صوبوں اور وفاق کی حکمران رہی ہیں، لیکن کوئی واضح پالیسی نہیں دے سکیں۔ آج کل وزیر دفاع خواجہ آصف قومی اسمبلی میں اپوزیشن کا کردار ادا کر رہے ہیں، اسمبلی کے اجلاس میں پانچ بڑے شعبوں میں ہونے والی کرپشن کے حوالے سے تقریر کر رہے تھے، عالمی ادارے Ipsos( آئی پی ایس او ایس ) نے بدھ کو اپنی جاری رپورٹ میں پاکستان کے پانچ بڑے شعبوں میں ٹیکس چوری کی نشانہ دہی کی، ان شعبوں میں ریئل اسٹیٹ سالانہ 500ارب، تمباکو 240ارب، ٹائر 106ارب، فارما 65ارب اور چائے کا شعبہ 45ارب روپے کا ٹیکس چوری کرتے ہیں ۔ اس چوری کے حوالے سے خواجہ آصف پہلے ہی اسمبلی میں بیان دے چکے ہیں، یہ کیسی بد قسمتی ہے کہ چوری کی روک تھام کیلئے ادارے ناکام ہو چکے ہیں، تاجر اور سیاسی تاجر ملک کی جڑوں میں بیٹھ چکے ہیں، آج پاکستانی شہری روزگار کے حصول کے لیے موت سے بھی خوفزدہ نہیں ہیں، روٹی کی کمی انسان کو وحشی بنا دیتی ہے، بچوں کا مستقبل اور غربت سے نجات کے لیے نوجوان مایوس ہو چکا ہے، ہر سال کئی افراد باہر ممالک کے چکر میں ڈاکوئوں ، چوروں کے ہاتھوں اپنی زندگی کو بھی خطرہ میں ڈالے رہے ہیں۔ حکومت کیوں نہیں سوچ رہی کہ آئین شہریوں کے حقوق کے تحفظ کا محافظ ہے، یہ 956ارب روپے پاکستان کے لیے کتنے اہم ہو سکتے ہیں، اس بات کا اندازہ لگانا بہت آسان ہے، پورے پاکستان کا ترقیاتی بجٹ پانچ شعبوں کے چوری شدہ ٹیکس کے برابر ہے، ان پانچ شعبوں کے مالک کون ہیں، اس کے متعلق حکومتی تمام ادارے باخوبی باخبر ہیں، لوٹ مار کا سلسلہ پچھلی حکومت پر نہیں ڈالا جا سکتا، یہ سلسلہ کافی پرانا ہے، ٹیکس چوری کے پیروکار کیسے ملک میں انصاف کو چلنے دیں گے، دوسرا غیر ملکی ادارے ہی پاکستان کی معاشی صورتحال، ٹیکس چوری اور کرپشن پر رپورٹ جاری کرتے ہیں، یہ ذمہ داری ہمارے اپنے سرکاری ادارے کیوں نہیں جاری کرتے ؟، انسانی حقوق کے تحفظ سے کیوں گریزاں ہیں۔ روزگار کے لیے لوگ مر رہے ہیں اور بہتری کے اقدامات نظر نہیں آتے، کتنا تکلیف دہ وقت ہو گا، جب ڈوبنے والوں نے اپنے گھروں، بچوں اور ماں، باپ کو چھوڑ کر ایسے انجان شہروں کی طرف اپنے مستقبل کے لیے سفر کیا، یہاں ایک طرف موت اور دوسری طرف چند ڈالر، جو ان کے خاندانوں ضرورت اور حکومت وقت کی اہم ضرورت ہیں، دوسری طرف وہ پانچ شعبے جو 956ارب کا ٹیکس لوٹ کر ملک پر حکمرانی کر رہے ہیں، نظام کب بدلے گا یہ کسی کو نہیں معلوم ، کسی فرد کو نہیں خبر کہ وہ کدھر جا رہا ہے، منزل ملے گی یا پھر پہلے ہی شکار ہو جائے گا، یہ سوچ قوم کو کمزور اور ختم کر دیتی ہے۔