پاکستانی خونی کشتی کے مسافر کیوں بنے؟

امتیاز احمد شاد
یونان کے ساحل کے قریب 14جون کو ڈوبنے والی تارکین وطن کی کشتی میں اب تک 83پاکستانیوں کے لاپتہ ہونے کی اطلاعات ہیں جبکہ بچ جانے والے 12پاکستانیوں کی شناخت ہو چکی ہے، اموات کتنی ہوئیں یہ ابھی تک معمہ ہے۔ یہ سانحہ پاکستان کی تاریخ میں ہونے والے تمام سانحات سے قدرے مختلف اور درد ناک ہے۔ اس سانحہ پر ماتم اپنی جگہ مگر اس سانحہ سے سبق نہ سیکھنا اور سد باب تلاش نہ کرنا اس سے بڑا سانحہ ہو گا۔ سوال یہ نہیں کہ کشتی کیسے ڈوبی ؟ سوال یہ ہے کہ پاکستانی نوجوان موت کے کنویں میں داخل اس خونی کشتی کے مسافر کیوں بنے؟ آخر کیا اسباب تھے جن کی وجہ سے انہوں نے وطن عزیز میں رہنے پر موت کو ترجیح دی۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارا شمار ان ریاستوں میں ہو چکا جن کے شہری ریاستی جبر سے تنگ آکر دیار غیر کو اپنا وطن بنا لیتے ہیں۔ علاج سے پہلے مرض کا جاننا نہایت ضروری ہے۔ پاکستانی معاشرہ اخلاقیات سے مکمل عاری جب کہ ریاست سیاسی ،معاشی،عدالتی اور آئینی بحران کی لپیٹ میں ہے۔ ملکی معیشت کی تباہ کاریاں اب کسی سے بھی پوشیدہ نہیں رہیں، روپے کے زوال اور ڈالر کے روز بروز عروج نے معیشت کا جنازہ نکال دیا ہے، پچھلے چند برسوں سے نوکریاں تو ناپید ہو ہی چکی ہیں، صنعت و تجارت بھی روبہ زوال ہیں، روزگار کے کم ہوتے رجحان نے خاص طور پر نوجوانوں کو پریشان کر دیا ہے۔ یہ صورتحال خاصی تشویشناک ہے کہ جب والدین ایک بچے کی تعلیم کا آغاز کرتے ہیں تو لاکھوں روپے درکار ہوتے ہیں، کہ وہ انہیں ایک اچھے تعلیمی ادارے میں داخل کروا سکیں، ظاہر ہے جیسے جیسے تعلیمی سفر آگے کی جانب بڑھتا ہے ان اخراجات کا تخمینہ بھی ضربیں کھانے لگتا ہے، بڑے خوابوں کو دیکھ کر جدوجہد کی کئی منزلیں عبور کرنے کے بعد ایک نوجوان ڈاکٹر یا انجینئر یا ایسے ہی کسی مقام پر پہنچ پاتا ہے، اپنی انتھک محنت سے وہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کی منزل تو پا لیتا ہے لیکن اس کے بعد کا مرحلہ اس کیلئے نہایت پریشان کن ثابت ہوتا ہے، جب وہ نوکری کیلئے دردر کے دھکے کھاتا ہے۔ اپنے تعلیمی معیار سے بھی بعض اوقات کم درجے کی نوکری تک قبول کرنے کو تیار ہوجاتا ہے، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں نہ تو ایسے نوجوانوں کی قدر ہے اور نہ مستقبل روشن ہے، برین ڈرین کی اصطلاح تو آپ کی نظر سے بھی غالبا گزری ہوگی، اس انگریزی اصطلاح سے مراد ایک ملک سے اعلیٰ تعلیم یافتہ، باصلاحیت لوگوں کا بیروزگار ہونے کے باعث دوسرے ممالک کی طرف ہجرت کر جانا ہے، ظاہر ہے کہ اس کا تعلق خالصتا بے روزگاری ہی سے ہے ایک مرد پر ایک گھر ایک نسل کے مستقبل کی بھاری ذمہ داری ہوتی ہے یہ ذمہ داری اور مستقبل کی فکر ہی وہ معاشی مسئلہ بھی ہے جو نوجوانوں کو پردیس ہجرت کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ اس مسئلہ کی طرف توجہ دلانے کا مقصد یہ بھی ہے کہ حالیہ برسوں میں ہجرت کرنے والوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے یہ اضافہ کافی تشویشناک صورت اختیار کرتا جارہا ہے ایک رپورٹ کے مطابق ان اعلیٰ تعلیم یافتہ ہجرت کرنے والوں کی تعداد اب تک9لاکھ65ہزار سے تجاوز کر چکی ہے، ان افراد کی ہجرت نے معاشی اور سماجی امور کے ماہرین کو پریشانی سے دوچار کر دیا ہے۔ ظاہر ہے یہ صورتحال ایک ترقی پذیر ملک کیلئے پریشانی کا باعث ہے۔ ڈاکٹرز اور انجینئرز کی اکثریت نے مشرق وسطیٰ کا رخ کرلیا جبکہ بہت سے رومانیہ سمیت مختلف یورپی ریاستوں میں چلے گئے اور کسی نے افریقہ کا رخ کرلیا ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں میں6534 انجینئرز 20ہزار ایسوسی ایٹ الیکٹریکل انجینئرز، 5500ڈاکٹرز، 2500کمپیوٹر ماہرین، 6ہزار پانچ سو اکائونٹینٹس، 2ہزار 600زرعی ماہرین اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے نوجوان تھے۔ اگر اسی طرح باصلاحیت لوگوں کا رجحان بیرون ممالک کی جانب رہا تو اس ملک کا آخر کیا مستقبل ہو گا؟ حیرت ہے کہ ہمارے حکومتی ادارے اس نازک اور سنگین مسئلے کی طرف کوئی توجہ نہیں دے رہے۔ جبکہ وقت کا تقاضا ہے کہ خواہ کاروباری طبقہ ہو یا پڑھا لکھا طبقہ دونوں کیلئے روزگار کے مناسب مواقع فراہم کئے جائیں، لیکن دوسری طرف یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ ہماری سابقہ یا موجودہ حکومتیں اس مسئلے کو حل کرنے سے قاصر نظر آتی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں معاشی بدحالی کی ذمہ داری آئی ایم ایف کا پروگرام ہے کہ جب پاکستان آئی ایم ایف کے پاس جاتا ہے تو وہاں سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ روپے کی قدر کو کم کریں اسکے اثرات تمام شعبوں پر پڑتے ہیں جب آپ دوسرے ممالک سے صنعتی خام مال منگواتے ہیں یا مطلوبہ مشینری درکار ہوتی ہے تو اس کی ادائیگی آپ کو ڈالرز کی صورت میں کرنا ہوتی ہے۔ ڈالرز کی پرواز بھی شاہین کی طرح پہاڑوں کی چٹانوں تک ہوچکی ہے ڈالر کی قدر بڑھنے سے سود کی شرح اور پیداواری لاگت میں اضافہ ہوجاتا ہے اس اضافہ کی وجہ سے بے روزگاری پھیلتی ہے، اب جو خبریں سرگرم ہیں انہوں نے معاشی ماہرین کو اور بھی تشویش میں مبتلا کیا ہوا ہے کہ ملک میں تجارتی اغراض کیلئے ڈالر بھی ناپید ہوچکا ہے، حیران ہوں کہ حالات کیا سے کیا ہو جائیں گے ایک اندازے کے مطابق اس وقت بھی پاکستان میں 38فیصد گریجویٹس بیروزگار ہیں۔ 60فیصد سے زائد نوجوان اب بھی ملک چھوڑ کر جانے کیلئے تیار ہیں۔ اس مسئلے پر بے شمار مرتبہ لکھا بھی جا چکا ہے حکومت کی توجہ مبذول کرانے کی کوششیں بھی ہورہی ہیں۔ لیکن دیگر مسائل کی طرح اس کو بھی نظر انداز کیا جارہاہے، ایک وقت گزرنے کے ساتھ یہ سلسلہ ایک ایسے شیطانی چکر کی شکل اختیار کر لیتا ہے جسے توڑنا بھی ناممکن ہوجاتا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ رواں برس کے پہلے چھ مہینوں میں پانچ لاکھ بارہ ہزار افراد ملک سے باہر جاکر آباد ہوئے ہیں یہ سب وہ ہیں جنہیں ملک کے اندر روزگار کے مناسب مواقع نہیں مل سکے۔ اگرچہ یہ لوگ جب زرمبادلہ کی شکل میں پیسے پاکستان بھیجتے ہیں تو اس سے بھی ملکی خسارہ کو قابو میں کرنے میں مدد ملتی ہے۔ یہ سوال اپنی جگہ پر اہمیت کا حامل ہے کہ کیا ایسے ہنر مند افراد کی عدم موجودگی سے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے؟ مگر جو ہو گیا اس پر ماتم کرنے کے بجائے آگے نہ ہو نے پائے پر زیادہ فوکس کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ طے شدہ ہے کہ گزشتہ 76سال سے جس پالیسی پر عمل کیا جارہا تھا وہ وطن عزیز کے لئے درست ثابت نہیں ہو سکی۔ فوری پالیسی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ بیرون ملک جتنے بھی پاکستانی جا چکے، حالات کچھ بھی بنے ، اب ان کو اپنا ایسڈ دل و جان سے مانا جائے ، انہیں قائل کیا جائے کہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کریں، ملک میں ڈالر بھیجیں تک ملک مشکل سے نکل سکے۔ اس کے لئے ایک منظم کیمپین کی ضرورت ہے۔ اگر انہیں ہم یہ احساس دلانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ ان کی سرمایہ کاری محفوظ رہے گی اور ان کے سرمائے سے ان نوجوانوں کو روزگار میسر آئے گا، جو آج انہی کی طرح پاکستان چھوڑنے کا سوچ رہے ہیں تو یقینا ہم موجودہ بحران سے نکل سکتے ہیں۔ موجودہ رجیم سے یہ توقع عبث ہے۔ صاف شفاف الیکشن کے نتیجے میں نئی آنے والی حکومت ہی ایسے فیصلے کر سکتی ہے جو وطن عزیز کو ان بحرانوں سے نکال سکتے ہیں۔