Column

مسنون عمرہ کا طریقہ

ڈاکٹر محمد یاسین

رسول اللہ ؐنے فرمایا: ’لتاخذومناسککم‘ تم مجھ سے حج و عمرہ کے طریقے سیکھ لو۔ عمرہ کے تین ارکان ہیں: احرام باندھ کر میقات سے نیت کرنا۔ بیت اللہ کا طواف۔ صفا اور مروہ کی سعی ۔۔ واجبات عمرہ میں میقات سے احرام باندھنا اور حلق یا قصر شامل ہیں جبکہ عمرہ کے اعمال یہ ہیں۔ غسل اور جسمانی طہارت حاصل کر کے احرام باندھ لیں۔ مرد حضرات ان سلے کپڑوں میں احرام باندھیں جبکہ عورتوں کا احرام عام لباس ہی میں ہوگا۔ میقات سے احرام باندھیں اور عمرہ کی نیت کریں: لبیک اللھم عمرۃ ۔ اس کے بعد یہ الفاظ کہیں: ( اگر رکاوٹ پیش آئی تو میں اپنا احرام کھول دوں گا ؍ گی) ۔ بلند آواز سے تلبیہ پکاریں۔ تلبیہ کے کلمات یہ ہیں: ’’لبیک اللھم لبیک، لبیک لا شریک لک لبیک ۔ ان الحمدوالنعمۃ لک والملک، لا شریک لک ‘‘ ( مرد بلند آواز سے اور خواتین آہستہ آواز میں تلبیہ پڑھیں)۔ باوضو مسجد حرام میں داخل ہوں۔ مسجد میں داخل ہونے کی مسنون دعا: ( بسم اللہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ اللھم افتح لی ابواب رحمتک) پڑھیں۔ اس کے بعد چاہیں تو اپنے لیے، عزیز و اقارب، والدین اور ملک و قوم کے لیے کوئی دعا کر سکتے ہیں۔ طواف سے پہلے تلبیہ بند کر دیں۔ جہاں فرش پر سبز پٹی یا دیوار پر سبز لائٹ لگی ہوئی ہے وہاں سے طواف کی ابتدا کریں۔ استلام کے وقت حجر اسود کی طرف صرف دایاں ہاتھ اٹھا کر بسمہ اللہ و اللہ اکبر کہیں اور باقی چکروں میں اللہ اکبر کہیں۔ چکروں میں سات بار استلام ہوگا۔ آٹھواں استلام ساتویں چکر کے بعد ہوگا نواں استلام جب دو رکعت ادا کر کے صفا کی طرف سعی کے لیے جانا ہو۔ حجر اسود کو بوسہ دیتے وقت دوسروں کو تکلیف نا دی جائے بلکہ حجر اسود کے پاس بھیڑ کرنا بھی دوسروں کو تکلیف دینے کے مترادف ہے۔ طواف قدوم کے سات چکروں میں اضطباع کرنا ( اپنی چادر دائیں کندھے کے نیچے سے نکال کر بائیں کندھے کو ڈھانپ لیں اس سے دایاں کندھا ننگا ہو جائے گا)۔ طواف قدوم کے پہلے تین چکروں میں رمل کرنا، یعنی بقدر امکان ذرا تیز اور اُچھل اُچھل کر پہلوانوں کی طرح چلنا۔ طواف کے دوران بیت اللہ کے کونوں میں سے حجر اسود اور کن ایمانی کو چھونا مسنون ہے، البتہ رکن یمانی کو چھو کر ہاتھ کو چومنا مسنون عمل نہیں۔ اگر رش ہو تو رکن یمانی کو چھوئے بغیر گزر جائیں۔ رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان ہر چکر میں یہ دعا پڑھنا مسنون ہے: رَبّنَا اٰتِنَافِی الدُّنْیَا حَسَنۃً وَّفِی الْآ خِرَۃِ حَسَنۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ ۔ طواف کے چکر مکمل کر کے اپنا دایاں کندھا ڈھانپ لیں اور آیت (اللھم انی اسئلک العفو العافیۃ والمعافاۃ فی الدنیا و الآخرۃ) پڑھتے ہوئے جائیں۔ مقام ابراہیم کے پیچھے جہاں جگہ ملے دو رکعت نماز ادا کریں۔ پہلی رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ الکافرون اور دوسری رکعت میں سورۃ اخلاص پڑھنا مسنون ہے۔ دو رکعت ادا کر کے آب زم زم پئیں۔ آب زم زم خوب پیٹ بھر کر پینا چاہیے۔ اس کے بعد دعا’’ اے اللہ ! میں تجھ سے نفع مند علم ، فراخ رزق اور ہر بیماری سے شفا طلب کرتا ہوں‘‘ پڑھیں۔ آب زم زم پی کر صفا اور مروہ کے لیے جائیں ۔ صفا پہاڑی پر کھڑے ہو کر بیت اللہ کی طرف مُنہ کر کے یہ کلمات پڑھیں: اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ و حدہ لا شریک لہ، لہ الملک ولہ الحمدو وھو علی کل شیء قدیر۔ لا الہ الا اللہ وحدہ، انجز وعدہ، ونصر عبدہ وھزم الاحزاب وحدہ۔ یہ کلمات تین بار کہیں اور ان کے درمیان دنیا و آخرت کی بھلائیں مانگیں۔ صفا سے مروہ کی طرف جائیں۔ درمیان میں سبز لائٹوں والی جگہ پر دوڑیں۔ بوڑھے، خواتین یا جن کے ساتھ خواتین ہوں نارمل بھی چل سکتے ہیں۔ مروہ پر بھی سابقہ طریقے کے مطابق مذکورہ کلمات پڑھیں اور دعائیں مانگیں۔ صفا سے مروہ پہنچنے تک ایک چکر مکمل ہوگا اور مروہ سے صفا پہنچنے تک دو چکر ہوں گے۔ اس طرح ساتواں چکر مروہ پر جا کر مکمل ہوگا۔ مسجد سے باہر نکلنے کی دعا: بسم اللہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ، اللھم انی اسئلک من فضلک۔ سعی کے سات چکر مکمل کر کے حلق یا قصر کروائیں۔ حلق اُسترے سے بال مُونڈنے کو کہتے ہیں اور قصر قینچی وغیرہ سے بال کاتنے کو کہتے ہیں۔ رسول اللہؐ نے حلق کروانے والے پر تین بار اور قصر کروانے والے پر ایک بار رحمت کی دعا کی۔ ممنوعات احرام کی وضاحت یہ ہے۔ احرام کی حالت میں خوشبو استعمال نہ کریں، بال اور ناخن بھی نہ کاٹیں، نیز مرد اپنا سر نہ ڈھانپیں۔ عورتیں دستانے نہ پہنیں اور نقاب بھی نہ کریں، البتہ غیر محرم کی موجودگی میں چہرے پر کپڑا لٹکالیں۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر فرماتی ہیں کہ ہم (صحابیات) حالت احرام میں اجنبی مردوں سے اپنے چہرے ڈھانپ لیتی تھیں۔ ( مستدرک حاکم، حدیث: 1668 ) ۔ حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ حجتہ الوداع کے سفر میں ہم لوگ بحالت احرام مکہ کی طرف جا رہے تھے جب مسافر ہمارے سامنے سے گزرنے لگتے تو ہم عورتیں اپنے سر سے چادریں کھینچ کر مُنہ پر ڈال لیتی تھیں۔ (سُنن ابی دائود، حدیث: 1833 )۔ حالت احرام میں نکاح کرنا یا کرانا، نکاح کا پیغام دینا اور نکاح کے دیگر متعلقات حتی کہ میاں بیوی کے تعلقات سب منع ہیں۔ حج، عمرہ کا سفر عورتیں اپنے محرم یا خاوند کے ساتھ کریں۔ دوسروں کو اپنا محرم بنا کر لے جانے سے عبادت ضائع ہو جائے گی۔ حجر اسود کو بوسہ دیتے وقت وہاں رش نہ کریں، نہ کسی کو دھکا دیں۔ موبائل فون کا استعمال انتہائی مناسب ہو۔ بے جا استعمال سے کہیں آپ کی عبادت حج و عمرہ ضائع نہ ہو جائے۔ بیمار، کمزور اور بوڑھے لوگ وہیل چیئر کا استعمال کر سکتے ہیں اور یہ سہولت وہاں حرم کے اندر میسر ہے۔ بس اپنی کوئی علامت پاسپورٹ وغیرہ جمع کروا کر وہیل چیئر حاصل کر سکتے ہیں۔ دورانِ حج یا عمرہ کوئی ایمرجنسی پیش آجائے تو حج کے عملے کو ضرور اطلاع کریں۔ ویزا پاسپورٹ کی ایک ایک فوٹو کاپی آپ اپنی جیب یا بیلٹ میں اور ایک کاپی بیگ میں رکھیں۔ حاجی صاحبان اپنے اپنے وطن کے سفیر ہوتے ہیں، لہٰذا دیار حرم میں اچھے اخلاق کا مظاہرہ کریں۔ نمازی کے آگے سے گزرنے سے پرہیز کریں۔ ستون یا دیوار کی آڑ میں نماز پڑھیں یا سترہ کا استعمال کریں۔ مکہ یا مدینہ کی گری پڑی چیز اُٹھانا یا کسی کے جوتے پہننا منع ہے۔ حرم کے کبوتروں کو دانا ڈالنا، دانے کو بیت اللہ کی دیواروں سے ملنا، کفن کو آب زم زم میں دھو کر لانا۔ یہ سب سنت سے ثابت نہیں۔ مسجد الحرام اور مسجد نبویؐ کی صفائی کا خاص خیال رکھیں۔ جن لوگوں کو پیشاب قطرہ قطرہ آتا ہو یا بواسیر کی شکایت ہو تو وہ حال احرام میں بھی انڈر ویئر یا پیمپر پہن سکتے ہیں۔ (اَلطَّھُوْرُ شَطْرُالْاِیْمَانِ)’’طہارت ایمان کا حصہ ہے‘‘ کے لحاظ سے پیشاب کے قطرے گرنے سے جگہ پلید ہو جاتی ہے، اس لیے ایمرجنسی میں اس کی ضرورت ہے۔ عمرہ کا طریقہ نہ سیکھنے کی وجہ سے کچھ حاجی صاحبان حلق یا قصر کروانے سے پہلے احرام کھول دیتے ہیں جس کے لیے دم، یعنی ایک بکرے کی قربانی واجب ہو جاتی ہے۔ اگر کوئی سعی کرنا ہی بھول جائے تو واپس مکہ آکر سعی کرے اور اپنی عبادت مکمل کرے۔ رسول اللہ نے حضرت عمرؓ کو خاص طور پر تاکید فرمائی تھی کہ دیکھو تم قوی آدمی ہو حجر اسود کے استلام کے وقت لوگوں سے مزاحمت نہ کرنا اگر ممکن ہو تو بوسہ لینا ورنہ صرف اسقبال کر کے تکبیر و تہلیل کہہ لینا۔ حضرت عائشہؓ طواف کر ہی تھیں۔ صحابہ کرامؓ فرمانے لگے ماں جی آئیں، آپ کو حجر اسود کا بوسہ دلاتے ہیں آپؓ نے فرمایا نہیں، رش کے وقت رسولؐ اللہ نے استلام ( اشارہ کرنا) کا آسان طریقہ بتا دیا ہے۔ اضطباع صرف طواف قدوم میں ہے۔ طواف کے بعد کندھا ڈھانپ لیں۔ رسولؐ اللہ کا فرمان ہے کہ کندھا ستر میں شامل ہے اگر کندھا ننگا ہوگا تو نماز نہیں ہوگی۔ عورتوں کا مردوں کے آگے یا برابر کھڑے ہو کر نماز پڑھنا سنت کے خلاف ہے۔ بیت اللہ شریف میں نماز یا طواف کیلئے کوئی مکروہ وقت نہیں ہے۔ ( سنن ابودائود ۳۹۸۱) حائضہ اور نفاس والی عورت طہارت کے بعد عمرہ کا طواف کرے گی۔ بعض لوگ طواف قدوم میں (دورانِ طواف) کعبہ کی طرف دیکھنا، حجر اسود کو چھونا اور طواف کے بعد ملتزم سے چمٹ کر دعا کرنے کو نا جائز قرار دیتے ہیں اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
مسنون راہنمائے حج
حج دین اسلام کا بنیادی رکن ہے جس طرح نماز، روزہ اور زکوٰۃ اسلام کے بنیادی ارکان ہیں۔ حج کا منکر اللہ کے ہاں کافر قرار پاتا ہے۔ جس طرح نماز، روزے کے مسائل سیکھے جاتے ہیں، اسی طرح حج کے مسائل بھی سیکھنے چاہئیں ورنہ بے علمی کی بنا پر انسان کا عمل ضائع بھی ہو سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (لِتَاخُذُوامَنَاسِکَکُم) ’’ تم مجھ سے حج و عمرہ کے طریقے سیکھ لو ۔‘‘ ( صحیح مسلم، حدیث 12 79 ) اکثر لوگ حج تمتع کرتے ہیں اسی کا طریقہ درج ذیل ہے۔ حج صرف پانچ یا چھ دن کا عمل ہے، یعنی آٹھ ذوالحج سے بارہ یا تیرہ ذوالحج تک حج کے دن۔ ذیل میں ان کی تفصیل پیش خدمت ہے: ذوالحج: یہ حج کا پہلا دن ہے اسے یوم الترویہ بھی کہتے ہیں۔ احرام: یوم الترویہ کو مکہ مکرمہ میں اپنی رہائش گاہ ہی سے غسل کر کے احرام باندھ لیں۔ احرام باندھنے سے پہلے جسم پر خوشبو لگا سکتے ہیں۔ نیت: احرام باندھ کر دو رکعت نفل نماز ادا کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد اللھم لبیک حجا کے کلمات سے نیت کریں، نیز یہ بھی کہیں ( چاہے اپنی زبان میں ہو): اگر رکاوٹ پیش آ گئی تو احرام کھول دوںگا ؍گی۔ جوتا آرام دہ پہنیں جس سے ٹخنے ننگے ہوں۔ عورتوں کا لباس ہی ان کا احرام ہے۔ منیٰ روانگی: منیٰ جاتے ہوئے مرد بلند آواز سے اور عورتیں آہستہ تلبیہ پڑھتے رہیں۔ تلبیہ کے کلمات یہ ہیں۔ لبیک اللھم لبیک، لبیک لا شریک لک لبیک، ان الحمد والنعمۃ لک والملک، لا شریک لک۔ اس کے علاوہ جو چاہیں اللہ کا ذکر کریں۔ آٹھ ذوالحج کو نماز ظہر، عصر، مغرب اور عشاء اور نو ذوالحج کی فجر منیٰ میں اپنے اپنے وقت پر ادا کریں اور دو رکعتی نماز قصر ادا کریں۔ اللہ کے رسول ﷺ کی یہی سنت ہے۔ آج کل بہت زیادہ رش ہونے کی وجہ سے سرکاری حج سکیم کے تحت جانے والے یا پرائیویٹ ٹور آپریٹرز ضیوف الرحمٰن کو بسوں کے ذریعے سات ذوالحج ہی کو منٰی لے جانا شروع کر دیتے ہیں۔ 9 ذوالحج: حج کا دوسرا دن: یومِ عرفہ: 9 ذوالحج کو نماز فجر کے بعد منیٰ سے میدانِ عرفات کی طرف چلیں اور راستے میں تلبیہ پکارتے رہیں۔ خطبہ حج: میدان، عرفات میں مسجد نمرہ میں خطبہ حج سننے کے لیے پہنچیں، وہاں ظہر اور عصر کی نمازیں ظہر کے وقت میں ایک اذان اور دو تکبیرات کے ساتھ با جماعت اور قصر ادا کریں۔
اگر آپ مسجد نمرہ میں نہیں جا سکتے ہیں تو اپنے خیمے میں اذان دیکر اور با جماعت نماز کا اہتمام کریں اور کسی عالم دین کی خدمات حاصل کرتے ہوئے خطبہ کا بھی اہتمام کریں۔ دونوں نمازوں کے درمیان سُنت اور نوافل نہ پڑھیں۔ مغرب تک میدانِ عرفات میں رہیں، اللہ کا ذکر کثرت سے کریں اور دُعائیں مانگتے رہیں۔ انبیائے کرام علیھم السلام کا کیا ہوا یہ وظیفہ ( لا الہ الا اللہ و حدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شی ء قدیر) بکثرت پڑھیں۔ میدانِ عرفات میں وقوف حج کا بنیادی رکن یا ’’ رکنِ اعظم‘‘ ہے جو میدانِ عرفات میں نہ پہنچ سکا اس کا حج نہیں ہوگا۔ مزدلفہ روانگی: عرفات سے غروب آفتاب کے بعد نمازِ مغرب ادا کیے بغیر مزدلفہ کے لیے چل پڑیں۔ مزدلفہ پُہنچ کر نماز مغرب کے تین اور نماز عشاء کے دو فرض بطور قصر با جماعت ایک اذان اور دو تکبیرات کے ساتھ ادا کریں۔ اس رات نبی ﷺ نے سنتیں، نوافل، وتر یا نماز تہجد ادا نہیں کی بلکہ آپ عشاء کی نماز پڑھ کر سو گئے اور فجر کی نماز طلوعِ فجر کے بعد عام معمول سے جلدی ادا کی اور طلوعِ آفتاب سے ذرا پہلے منیٰ کے لیے روانہ ہو گئے۔ جمرہ کبری کو مارنے کے لیے مزدلفہ سے صرف 7 کنکریاں چُن لیں۔ باقی دنوں کے لیے وہیں منیٰ سے بے شمار کنکریاں مل جاتی ہیں۔ ایک کنکری مٹر دانے کے برابر ہونی چاہیے۔ 10: ذوالحج: حج کا تیسرا دن : 10 ذوالحج کے اہم کام: (۱) فجر کی نماز مزدلفہ میں ادا کریں، نماز کے بعد مشعرالحرام کے پاس اللہ کا کثرت سے ذکر کریں اور طلوع آفتاب سے ذرا پہلے مزدلفہ منیٰ جائیں۔ وہاں اپنے خیموں میں جا کر سامان وغیرہ رکھ کر کھانا کھائیں اور تلبیہ پڑھتے ہوئے جمرات کی طرف جائیں یا ٹرین کے ذریعے سے مزدلفہ سٹیشن سے جمرات چلے جائیں۔ بڑے جمرے کے قریب پہنچ کر تلبیہ کہنا بند کر دیں۔ بڑے جمرے کو 7کنکریاں ماریں اور ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر کہیں۔ یہاں دعا کے لیے نہ رکیں۔ ( ۲) قربانی: اگر قربانی کے پیسے جمع نہیں کروائے تو آپ اپنی قربانی خود ذبح کریں یا سعودی حکومت کے زیر انتظام قربانی کرنے کی سہولت سے استفادہ کریں۔ اس صورت میں آپ کو قربانی کے وقت کے متعلق sms کے ذریعے آگاہ کر دیا جاتا ہے۔ حکومت سعودیہ نے اس سکیم کے تحت گوشت دیگر ممالک میں محفوظ طریقے سے مستحقین تک پہنچانے کا بندوبست کیا ہوتا ہے۔ ( ۳) 10 ذوالحج کا تیسرا کام حلق یا قصر کروانا ہے۔ حلق کروانے سے مراد پورے سر کے بال منڈوانا اور قصر کے معنی ہیں بال قینچی سے ترشوانا۔ رسول اللہ ﷺ نے حلق کروانے والے کے لیے تین بار اور قصر کروانے والے کے لیے ایک بار رحمت کی دعا کی۔ حلق کروانا افضل ہے۔ عورتوں کا غیر محرم سے بال ختوانا حرام ہے۔ قربانی اور حلق و قصر کے بعد احرام کھول کر سادہ لباس پہن سکتے ہیں۔ (۴) طواف زیارت یا افاضہ: یہ طواف حج کا رکن ہے۔ اس طواف میں احرام، اضطباع اور رمل نہیں ہوتا۔ بس باوضو ہو کر حجر اسود کو بوسہ یا استلام کر کے طواف کے سات پھیرے لگائیں، مقامِ ابراہیم پر دو سنت ادا کریں اور آبِ زم زم پی کر صفا مروہ کی سعی کر کے منیٰ میں واپس آجائیں۔ اگر کسی وجہ سے اس دن طواف زیارت نہ کر سکیں تو ایام تشریق (13, 12, 11 ذوالحج) کو کسی بھی دن کر سکتے ہیں۔ دس ذوالحج کو اگر مذکورہ کاموں کی ترتیب قائم رہ سکے تو بہتر ہے اور اگر ان میں تقدیم و تاخیر ہو جائے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ’’ کوئی حرج نہیں، کوئی حرج نہیں۔‘‘ ( صحیح بخاری: 1722) ۔11 ذوالحج : حج کا چوتھا دن: 13،12،11 ذوالحج کو ایّام تشریق کہا جاتا ہے۔ ان ایّام میں اللہ تعالیٰ کا بکثرت ذکر کریں اور تینوں جمرات کو زوال کے بعد 7،7،7 کنکریاں ماریں۔ ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر کہیں۔ پہلے اور دوسرے جمرے کو کنکریاں مار کر دنیا اور آخرت کی بھلائی کی دعا مانگیں، البتہ تیسرے جمرے کو جسے جمرا کبری کہتے ہیں، کنکریاں مار کر دعا کے لیے نہ ٹھہریں، سنت یہی ہے۔ 12 ذوالحج: حج کا پانچواں دن: 12 ذوالحج کو بھی زوال کے بعد تینوں جمرات کے 7،7،7 کنکریاں ماریں۔ پہلے اور دوسرے جمرے کو کنکریاں مارنے کے بعد دعا کریں، جبکہ تیسرے جمرے کو کنکریاں مارنے کے بعد دعا نہیں کرنی۔ اگر 12ذوالحج کو مغرب سے پہلے مکہ واپس آگئے تو ٹھیک ہے، اگر منٰی ہی میں مغرب کا وقت ہو گیا تو 13ذوالحج کا بھی تینوں جمرات کو 7،7،7 کنکریاں مار کر واپس آئیں، کیونکہ سنت طریقہ یہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی آپ کا حج مکمل ہو گیا ہے۔ طوافِ وداع: حج کے بعد جب وطن واپسی کا ارادہ ہو تو طواف کر کے جائیں۔ یہ طواف واجب ہے۔ اگر رہ گیا تو دم لازم آئے گا جو مکہ کے مساکین تک پہنچانا پڑتا ہے۔ الحمدوللہ الذی بنعمتہ تتم الصالحات۔ ملحوظہ(1) سرکاری حج سکیم کے تحت 7ذوالحج کو دوپہر کے بعد ہی بسوں کے ذریعے منیٰ لے جانا شروع کر دیتے ہیں۔ منٰی جانے کے لئے کسی وقت کا تعین نہیں ہے، البتہ 8ذوالحج کو ظہر کی نماز سے پہلے پہنچ جانا چاہیے۔ منیٰ میں ظہر، عصراور عشاء کو قصر کر کے پڑھنا ، تمام حاجیوں کو نماز قصر پڑھائی اور اہلِ مکہ کو اپنی نمازی پوری کرنے کا حکم نہیں دیا۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر: 696 ) جبکہ فتح مکہ کے موقع پر نبی کریم ﷺ نے خود نماز قصر پڑھی تھی اور اہلِ مکہ سے فرمایا تھا کہ تم نماز پوری کر لو کیونکہ ہم تو مسافر ہیں۔ (سُنن ابودائود، حدیث:1229) (2) سرکاری حج سکیم کے تحت ضیوف الرحٰمان بہترین ٹرین کی سہولت سے فائدہ اٹھائیں۔ (3) موجودہ دور میں سرف کی سخت پابندیوں کی وجہ سے امام ابن تیمیہ ؒ اور حافظ ابن قیم کا فتویٰ ہے کہ حائضہ مستحاضہ عورت لنگوٹ (پیمپر) پہن کر طواف زیارت کر لے کیونکہ حج کے قافلوں کا شیڈول طے شدہ ہوتا ہے اس میں کسی ایک کی خاطر انتظار نہیں کیا جا سکتا۔ (4) دوران سفر ہر مسلمان کیلئے قصر کرنا سنت ہے ، رسول ﷺ نے فرمایا کہ سفر میں نماز قصر اللہ کی طرف سے صدقہ ہے اس کے صدقے کو قبول کرو ( صحیح مسلم) دوران سفر پوری نماز پڑھنا جائز ہے۔ (5) حج کے بعد سب سے افضل اور بڑی سعادت مدینہ کا سفر اور مسجد نبوی شریف کی زیارت ہے اسکے علاوہ جنت البقیع، مسجد قبا، مسجد قبلتین، قبرستان شہدا اُحد کی زیارت مشروع ہے۔ (6) حج حلال کمائی سے کریں۔ دھوکہ فریب، ٹھگی، سود، رشوت، لوٹ مار، ملاوٹ، ناجائز منافع خوری سے کمایا ہوا مال اللہ کو قبول نہیں۔ (7) حج اور عمرہ اگر سنت کے مطابق نہیں تو یہ اعمال ایسے درخت کی طرح ہیں جو بے ثمر ہیں یا ایسے پھولوں کی طرح ہیں جن میں خوشبو نہیں ہے۔ بقول علامہ محمد اقبال ( رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی )۔ ( 8) ایام حج میں اتنی ریاضت نہ کریں کہ آپ بیمار ہو جائیں اور آپ کا حج متاثر ہو جائے ۔ (9) بعض لوگ سواری کی سہولت ہونے کے باوجود پیدل چلنے کو زیادہ ثواب سمجھتے ہیں جبکہ رسول اللہ ﷺ نے یہ سفر سواری پر طے فرمایا تھا۔

جواب دیں

Back to top button