
سی ایم رضوان
ایک قانون رکھنے والے ملک میں جب کوئی قانون حرکت میں آ جائے تو اس کے مقابل لایعنی قسم کی جمہوری، شخصی اور سماجی آزادیوں کی آڑ لے کر کسی بھی نوعیت کی تنقید، تبدل، تعطل اور التوا کے جواز پیش کرنا توہین قانون کے زمرے میں آتا ہے۔ یاد رکھیں قوموں اور معاشروں کی تباہی و بربادی اس وقت یقینی ہو جاتی ہے جب ان میں اس طرح کی قانونی موشگافیوں کی آڑ لے کر طاقتور اور پسندیدہ مجرموں کو تحفظ فراہم کرنے کی روش اختیار کر لی جاتی ہے۔ ابھی کل کی بات ہے اور ریکارڈ گواہ ہے کہ پی ٹی آئی دور حکومت میں 25شہریوں کا کورٹ مارشل ہوا تھا۔ تب تو سوشل میڈیا پر اور آزادی پسند دانشوروں نے نہیں کہا تھا کہ فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے مقدمات چلانا غیر قانونی ہے۔ شاید اس وقت عمران خان وزیراعظم تھے اور ان کی حکومت کے تمام الٹی سیدھے کام ساون کے اندھوں کو قانونی نظر آتے تھے یا شاید ان 25افراد کے جرائم حالیہ نو مئی کے جرائم سے زیادہ خطرناک تھے کہ ان 25افراد کے خلاف فوجی عدالتوں میں سماعت بھی ہوئی اور سزائیں بھی سنائی گئیں۔ ظاہر ہے کہ اگر تب یہ سب ٹھیک تھا تو اب مخالفت کرنے کا کوئی اخلاقی جواز کم از کم پی ٹی آئی قیادت کے پاس نہیں۔ یاد رہے کہ مذکورہ فوجی عدالتوں نے ان 25 افراد میں سے تین افراد کو موت کی سزا سنائی تھی جبکہ دیگر کو 1923ء کے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی پر 10سے 15سال قید تک کی سزائیں سنائی گئی تھیں۔ یہ بھی ریکارڈ ہے کہ مذکورہ مجرموں کو ان کی پسند کا وکیل بھی نہیں دیا گیا تھا اور نہ ہی انہیں یہ اجازت دی گئی تھی کہ وہ اپنے دفاع میں کوئی گواہ پیش کر سکیں۔ البتہ بعد ازاں ان تمام 25سزائوں کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ تب سے لاہور ہائی کورٹ نے سزائے موت محفوظ کر رکھی ہے اور مقدمہ ابھی زیر التوا ہے۔ ان سزا یافتہ 25مجرموں میں انسانی حقوق کے ورکر اور سیاسی کارکن ادریس خٹک بھی شامل ہیں۔ اب جبکہ سول حکومت اور فوجی قیادت نے 9مئی کے مجرموں کے خلاف پاکستانی فوجی قوانین کے تحت فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا فیصلہ کیا ہے تو بھی منصفانہ ٹرائل کی دفعات (9، 10، 10۔A) کی تعمیل کی جانا قانونی اور جائز ہے۔
واضح رہے کہ آئین کے آرٹیکل 9، 10اور 10۔Aکے تحت زیر تفتیش افراد کی حفاظت، گرفتاری اور نظر بندی سے متعلق کسی بھی قسم کے تحفظات کی صورت میں سزائوں کے منصفانہ ٹرائل کا حق بھی مجرموں کو حاصل ہوتا ہے اور عام شہریوں کے خلاف فیصلوں کو سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کیا جا سکتا ہے۔ ماضی میں قائم کی گئی فوجی عدالتوں نے اس وقت کام کرنا بند کر دیا تھا جب سپریم کورٹ نے شیخ لیاقت کیس میں فیصلہ دیا تھا کہ فوجی عدالتوں یا متوازی عدالتوں کی ضرورت نہیں کیونکہ ملک میں پہلے سے کام کرنے والا عدالتی نظام موجود ہے لیکن چونکہ موجودہ عدالتی نظام اکثریتی عوام کو مطمئن نہیں کر پا رہا۔ اس حوالے سے بھی فوجی عدالتوں کی ضرورت مقدم ہے۔ پاکستان آرمی ایکٹ 1952ء کے تحت فوجی اہلکاروں اور املاک کے خلاف بعض جرائم کے مرتکب عام شہریوں کے ٹرائل کی اجازت دیتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ماضی قریب و بعید میں نہ ہی پیپلز پارٹی، نہ مسلم لیگ اور نہ ہی پی ٹی آئی حکومت نے کبھی اس قانون میں ترمیم کی کوشش کی ہے۔ بلکہ ہر حکومت نے اپنے اپنے دور میں اپنی ضروریات کے مطابق اس قانون سے فائدہ اٹھایا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ان میں جمہوری حکومتیں ڈکٹیٹروں سے ذرہ بھر پیچھے نہیں رہیں۔ ایسے میں اگر اب بعض سیاستدان فوجی عدالتوں کی مخالفت کا راگ الاپ رہے ہیں تو محض اس خوف سے کہ کل کلاں ان کو بھی ایسی عدالتیں گھیرا ڈال سکتی ہیں حالانکہ اگر وہ ایسا جرم کریں گے تو ان کے خلاف فوجی عدالتیں حرکت میں آئیں گی۔ دنیا بھر میں فوجی قانون کے تحت عام شہریوں کو آزمانا قانونی ہے لیکن سیاسی بنیادوں پر نہیں اور سوائے ان لوگوں کے جو براہ راست منصوبہ بندی کے تحت فوجی تنصیبات پر حملے میں ملوث پائے گئے ہوں۔ ایک عام سوال یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ فوجی عدالتوں کے ٹرائل سے عالمی برادری کو کیا پیغام جائے گا۔ دنیا جانتی ہے کہ امریکہ سمیت انسانی حقوق کے جعلی ٹھیکیدار کئی ممالک نے ماضی میں انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیری ہیں۔ خاص طور پر نائن الیون کے بعد امریکہ اور نیٹو فورسز نے جس پاگل پن کے ساتھ فرضی ملزمان سے انتقام لیا ہے وہ کسی طور بھی قانونی نہیں تھا۔ اب اگر پاکستان کے حساس اداروں کی ہرزہ سرائی کا تدارک ضروری ہے تو پھر یقینی طور پر عمران خان کے خلاف بھی فوجی عدالتوں میں مقدمے کی سماعت ضروری ہے اور اس ضمن میں اداروں کے پاس ثبوت کے طور پر ناقابل تردید کافی مواد موجود ہے۔ اب جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ حکومت صرف عوام میں خوف اور دہشت پھیلانے کے لئے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کا مقدمہ چلانا چاہتی ہے تو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ لوگ ہی پاک فوج کی رٹ کے مخالف ہیں۔ ایسے لوگوں کی بھی فہرستیں تیار ہونا چاہیے اور ان کو ملک دشمنوں میں شمار کیا جاتا چاہئے۔
اب جبکہ پی ٹی آئی کے کرتا دھرتا سکیورٹی قوانین کے خلاف بدترین جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں اور پاک فوج اور حکومت ان کے خلاف قانونی طور پر فوجی عدالتوں میں مقدمات کی سماعت کا آغاز کرنے جا رہی ہے تو جمہوریت اور انسانی حقوق کی لفظی حمایت کے محض گفتنی دعویدار جمہوری اخلاقیات کے میدان میں اتر آئے ہیں اور روایتی لفاظی اور کھوکھلی دلیلوں کے ذریعے فوجی عدالتوں کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ان تمام جعلی لیڈروں، چاہے ان میں زرداری ہو، جماعت اسلامی کا کوئی تقریری قائد ہو، ن لیگ کا کوئی جھوٹا جمہوریت پسند ہو یا انسانی حقوق کا جھوٹا دعویدار کوئی اینکر یا دانشور ہو۔ یہ سبھی یکسر فراموش کر چکے ہیں کہ نو مئی کے ان مجرموں نے اعلانیہ طور پر پاک فوج کی رٹ کو اس طرح پامال کیا تھا کہ پاکستان کے ازلی اور خطرناک دشمن آج بھی واویلا کر رہے ہیں کہ عمرانی ٹولے نے اپنے ہی ملک کے محافظوں کے خلاف وہ کچھ کر دیا ہے جو ہم دشمن ہوتے ہوئے بھی آج تک اربوں ڈالر خرچ کر کے اور اپنی لاتعداد ٹڈی دل کو جہنم واصل کروا کر بھی نہ کر سکے تھے۔ آج بھی بھارتی میڈیا چیخ چیخ کر دہائی دے رہا ہے کہ پاکستانی فوج کے خلاف اس حد تک زہریلا اور خوفناک پراپیگنڈا اور عسکری اقدامات کرنے والا عمران خان بھارت کا اصل ہیرو بن گیا ہے۔ ان تمام تلخ اور باعث صد شرم حقائق کے باوجود اگر آج ہمارے ہاں کے جمہوریت کے جعلی ہیرو بلاوجہ کے اصول اور ضوابط یاد کروا کے ایک ننگ وطن، جھوٹے اور مکار شخص اور اس کے جرائم پیشہ حواریوں کو تحفظ دینے کی بات کریں تو ان کے خلاف بھی انہی فوجی عدالتوں میں اعانت جرم کے مقدمات کی سماعت شروعات کر دینی چاہئے۔ یہاں تک کہ اگر شہباز سرکار بھی لیت ولعل سے کام لے تو ان کو بھی فوری ہٹا کر اور نگران حکومت لا کر پاکستان کے خلاف بدترین نائن الیون کے مرتکب ان عمرانی مجرموں کے خلاف بلا کسی رعایت، تاخیر اور نرمی کے فوجی عدالتوں میں مقدمات کی سماعت بھی ہونی چاہئے اور عبرتناک اور کھلے عام سزائیں دی جانی چاہئیں تاکہ آئندہ کسی سیاسی لیڈر اور انتہا پسند گروہ کو ایسا سوچنے کی بھی جرات نہ ہو۔
موجودہ وفاقی حکومت کے کار پردازوں کی خوف زدہ اور مجرمانہ ذہنیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ پچھلے ہفتے جب آرمی چیف نے خود فارمیشن کمانڈ کانفرنس کے موقع پر واضح اور دو ٹوک اعلان کر دیا تھا کہ پاکستانی نائن الیون کے ملزمان کے خلاف کسی بھی قسم کی رعایت نہ برتی جائے گی۔ انسانی حقوق کے فرضی نظریات بھی ان ملزمان کو فائدہ نہیں دے سکتے اور ناقابل تردید شواہد کی موجودگی میں ان جرائم کا جھٹلانا بھی ناممکن ہے اور یہ سب پاک فوج کی ناموس کا معاملہ ہے تو اس کے بعد بھی اگر زرداری، نواز شریف اور کسی اور وزیر کو جرم اور مجرم کے حق میں جمہوریت اور اصول یاد آجائیں تو یہ بھی ادارے کی توہین بھی ہے اور ملکی سکیورٹی کے ساتھ کھلواڑ بھی۔ خاص طور پر ان حالات میں فوجی عدالتوں کی مخالفت کرنا تو جرم کو تحفظ فراہم کرنے کے مترادف ہے جبکہ مجاز عدالت سے گڈ ٹو سی یو کا پیغام آئے اور اس کو عادت بھی قرار دے دیا جائے۔
شاید اسی طرح کے خیالات کا اظہار گزشتہ روز وزیراعظم اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے مابین ہوئی ایک مختصر ملاقات میں کیا گیا تھا کہ اسی روز فوری طور پر سانحہ نو مئی کے ملزمان کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات کی سماعت کے لئے قومی اسمبلی میں ایک قرارداد منظور کرلی گئی۔ یہ قرارداد وزیر دفاع خواجہ آصف نے پیش کی تھی جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ 9مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے، متن میں مزید کہا گیا کہ ایک جماعت اور اس کے قائد نے 9مئی کو تمام حدیں پار کر دیں، آئین اور قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے فوجی تنصیبات پر حملے کیے گئے، ان حملوں سے ریاستی اداروں اور ملک کی ناموس کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ ایوان سے مطالبہ کیا گیا کہ ایسے تمام عناصر کے خلاف آئین اور قانون کے تحت کارروائی مکمل کی جائے۔ قرار داد میں یہ بھی کہا گیا کہ ملزمان کے خلاف کارروائی میں ایک دن کی تاخیر بھی نہ کی جائے۔ قرارداد میں کہا گیا کہ دنیا بھر میں فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے پر کارروائی کا اختیار افواج کو حاصل ہوتا ہے، وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ ان ملزمان کے خلاف کوئی نیا قانون نہیں بنایا جا رہا بلکہ پہلے سے آئین میں موجود قوانین کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ تاہم اسمبلی میں موجود جماعت اسلامی کے رکن اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی نے سول افراد کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی مخالفت کی اور ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ قانون سے بالا کوءی نہیں ہے، وزیراعظم، آرمی چیف اور چیف جسٹس بھی اس سے بالا نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کیا حکومت اور عدلیہ بالکل ناکام ہو چکے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو فوجی عدالتوں میں کیس بھیج دیں۔ مولانا عبدالاکبر چترالی کا استدلال بذات خود اس امر کا اظہار کرتا ہے ان سے ایک سوال ہے کہ کیا عمران خان کے جرائم کو ہماری عدالتوں نے کبھی پرکھنے یا سماعت کرنے کی زحمت کی ہے اور اگر جواب نہیں میں ہے تو مولانا چترالی جیسے جمہوریت پسندوں کو حب الوطنی کا بھی مظاہرہ کرتے ہوئے قوم اور ملک کے مجرموں کے خلاف سخت اقدامات کی مخالفت نہیں کرنی چاہئے۔