ColumnTajamul Hussain Hashmi

بجٹ میں اہم کیا ہے ؟

تجمل حسین ہاشمی

پیش کیا گیا بجٹ ملکی معیشت کو سہارا دے گا، مقرر کردہ معاشی نمو کا ہدف حاصل ہو سکے گا، اتحادی جماعتیں پیش کئے گئے بجٹ سے مطمئن ہیں یا اندرون خانہ کچھ اور چل رہا ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف اس بجٹ سے خوش ہیں اگر وہ خوش نہ ہوتے تو ان کی طرف سے فون آجاتا۔ بجٹ پیش کر کے اپنی سیاسی ساکھ کو یقینا سہارا دیا ہے، چند ایسے نقاط کی وضاحت ضروری ہے، یہاں معاشی ماہر سوال اٹھا رہے ہیں۔ ملک کی معاشی بہتری کے لیے اس بجٹ میں کیا رکھا گیا ہے، مسلم لیگ ن اس بجٹ سے اپنی ساکھ کی بحالی میں کامیاب کی طرف گامزن ہے، بجٹ میں ایک عام آدمی کی انکم میں کون سے عوامل بہتری لا سکتے ہیں۔ ’’ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ایڈہاک ریلیف الائونس کی صورت میں ایک سے 16گریڈ تک 35فیصد اور 17سے 22تک 30فیصد ہو گا‘‘ لیکن آمدن میں اضافہ صرف ایک سال تک محدود ہے، تنخواہوں میں اضافہ اتنا مدد گار ثابت نہیں ہو گا جب تاکہ روزمرہ اشیا کی قیمتوں میں ٹھہرائو نہیں آئے گا۔ پاکستان میں قیمتوں میں اضافہ تین طرح سے آتا ہے، میں آخری دو کی بات کروں گا یہاں پر حکومت کی ذمہ داری اور عوام کے فرض کا عمل داخل ہے، طلب اور رسد کو کنٹرول کرنے میں حکومت کی ذمہ داری ہے ، مارکیٹ میں ذخیرہ اندوزی کو کنٹرول کرنا حکومت اور معاشرہ کے تاجروں پر فرض ہے،وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس سے خطاب میں کہا ہے کہ آئندہ مالی سال کے دوران ملک میں ’’ صنعتوں پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا‘‘۔ اس وقت صنعتوں کے لیے پیداوار کی بحالی مسئلہ بنی ہوئی ہے، لیکن افسوس کی بات ہے کہ انڈسٹری مالکان نے سارا انحصار حکومت کے کندھوں پر چھوڑا ہوا ہے، اپنی بقا کے لیے صنعتی تاجروں نے ان 75سال میں کوئی موثر پالیسی نہیں بنائی جو حکومت کو سپورٹ کر سکے۔’’ بزنس اور زرعی قرضوں کے لیے سود کی سبسڈی کے لیے 10ارب رکھے گئے ہیں۔ زرعی قرضوں کی حد کو 2250ارب تک بڑھایا گیا ہےبیچوں کی درآمد پر ڈیوٹیز کو ختم کیا جا رہا ہے۔ حکومت اگر ان 2250ارب روپے میں چند سو ارب بنجر زمینوں کو قابل کاشت بنانے کے لیے مختص کر دیتی تو یقینا ملکی معیشت میں بہتری پیدا ہوتی، زرعی زمینوں پر قائم سوسائٹی کے مسلسل قیام سے آنے والے وقتوں میں اجناس کی پیداوار میں کمی کا سامنا ہو گا، میرانی ڈیم کی زمینوں کو اعلی ادارے نے قابل کاشت بنا کر بلوچستان کے کسانوں کی مدد کی ہے، اس طرح دوسرے صوبوں میں ہزاروں ایکڑ بنجر زمین کو قابل کاشت کے لیے فنڈ کا اجرا ضروری تھا۔ پام آئل کی درآمد پر 5ارب خرچ ہو رہے ہیں اس کی کمی کے لیے پام آئل کی پیداوار کے لیے کوسٹل ہائی وے کو زمین دینا اچھا عمل ہے، لیکن اس کا چیک اینڈ بیلنس انتہائی ضروری ہے۔ آئی ٹی برآمدات کے لیے 2026تک انکم ٹیکس کو 0.25کو برقرار رکھا گیا ہے۔ فری لانسرز کو 24ہزار ڈالر تک سالانہ برآمدات تک سیلز ٹیکس رجسٹریشن اور گوشواروں سے مستثنیٰ کیا جا رہا ہے۔ آئی ٹی شعبے کو سمال انٹرپرائز کا درجہ دیا جا رہا ہے، ان پر رعایتی انکم ٹیکس کا قانون لاگو ہوگا ۔ آئی ٹی کے کاروبار کے لیے 5ارب روپے قرضے کے لیے رکھے گئے ہیں، آئی ٹی سیکٹر پر ٹیکس 15سے کم کر کے 5فیصد کیا جا رہا ہے۔ آئی ٹی کے شعبے کے لیے قرضہ دینے والے بینکوں کو ان کے ٹیکس پر 20فیصد کی رعایت دی جائے گی۔ آئی ٹی سیکٹر غیر ملکی زرمبادلہ پیدا کرنے والا شعبہ ہے ، جس سے فورا زرمبادلہ آسکتا ہے، پانچ ارب قرضوں کے اجرا میں چھوٹے آئی ٹی کاروباری حضرات مستفید ہوں تو بہتری ممکن ہو گی ۔ پانچ ارب روپے کے ساتھ پاکستان انڈوومنٹ فنڈ قیام کیا جا رہا ہے۔ انڈوومنٹ فنڈ کے قیام کی ضرورت نہیں تھی، ان پانچ ارب سے تحصیلوں میں قائم کالجز میں نرسنگ ڈپلومہ کے کورس کروائیں جائیں ، سکول و کالج کے طلبا و طالبات کو وظائف سے بہتر ان کو دوسرے ممالک سے انٹرشپ کروائی جائے اور ان کے لیے ٹیکنیکل ورک شاپ کا بندوبست کیا جائے۔ سمندر پار پاکستانیوں کے ترسیلات زر سے پراپرٹی خریدنے کی صورت میں دو فیصد ٹیکس ختم کیا جا رہا ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کو ٹیکسز ادا کرنے میں کوئی پریشانی نہیں، ان کی حقیقی پریشانی پر کام کرنے کی ضرورت ہے، ان کی زمینوں پر مافیا قبضے کر لیتے ہیں، اپنے پیسوں اور زمینوں کے قبضے کے لیے اداروں میں کوئی سنوائی نہیں ہے، حکومت وقت کو ایسے اقدامات کی ضرورت ہے یہاں ان کے اثاثوں کا تحفظ ممکن ہو سکے۔ ترسیلات زر کے لیے ڈائمنڈ کارڈ بنایا جا رہا ہے، جو سالانہ 50ہزار ڈالر سے زیادہ بھیجنے والے کے لیے ہو گا۔ سمندر پار پاکستانیوں کو غیر ممنوعہ بور لائسنس، سرکاری پاسپورٹ جاری کیا جائی گا، جبکہ سفارت خانوں تک انہیں رسائی بھی دی جائے گی۔ بجٹ میں دی گی ان مراعات سے کوئی بظاہر کوئی فائدہ نہیں ہو گا، اوورسیز پاکستانیوں کو اپنے پیسے کا تحفظ درکار ہے۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے لیے 135ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، جہاں ہائر ایجوکیشن کے بھاری رقم رکھی جا رہی ہے وہاں ان طالب علموں کو پابند بھی کیا جائے کہ وہ تعلیم مکمل کے بعد ایک خاص عرصہ تک اپنے ملک میں نوکری کے پابند ہوں گے ، حکومت ان تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے اچھے روزگار کو بھی پیدا کرنے کی ذمہ داری پوری کرے، نوجوانوں کے لیے انٹرنیشنل یونیورسٹی میں سکالر شپس کا انتظام کریں۔ لیپ ٹاپ سکیم جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ بہترین اقدام ہے، اس کو پانچویں کلاس سے شروع کریں ۔ کھیلوں کی ترقی کے لیے 5ارب روپے رکھے گئے ہیں، 5ارب روپے لگا کر دس ارب اس وقت کما سکیں گے جب آپ تحصیل لیول کی سطح پر کھیلوں کا انتظام کریں گے اور دنیا میں اپنے کھلاڑیوں کے لیے راستہ ہموار کریں گے تو پھر ان سے اربوں حاصل وصول ہوں گے۔ خواتین کو بااختیار بنانے کی غرض سے 5ارب رکھے گئے ہیں ۔ با اختیار خواتین کے لئے تعلیم اور گھریلو صنعتوں کا قیام انتہائی ضروری ہے ۔ خواتین کی شمولیت سے جی ڈی پی میں اچھا اثر نظر آئے گا، پرائیویٹ اور سرکاری اداروں میں خواتین کے لیے کو تحفظ فراہم کرنے سے یقینا معاشی کردار میں اضافہ ممکن ہو گا۔ یوتھ انٹرا پینیور کے لیے 3سال کے لیے ای او پی سے شروع ہونے والے کاروبار پر 50فیصد ٹیکس کمی کرنے کی تجویز کی جا رہی ہے، نوجوانوں کے لیے رعایتی شرح سود کے قرضوں کے لیے 5ارب روپے مختص کئے جا رہے ہیں۔ سولر پینلز، بیٹریز اور انورٹرز کے خام مال پر کسٹمز ڈیوٹی ختم کی جا رہی ہے۔بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے 450ارب کا بجٹ مختص کرنے کی تجویز رکھی گئی ہے۔ ان 450ارب روپے سے لاکھ لوگوں کو سمال انڈسٹری یونٹ لگا کر دیں تاکہ آنے والی نسلوں کو طاقتور کاروبار مل سکے۔ حکومت سول اداروں کی مدد سے ان کی رہنمائی کرے۔ یوٹیلیٹی سٹورز کے ذریعے سستا آٹا، اول، چینی، دالیں اور گھی پر ٹارگٹڈ سبسڈی کے لیے 35ارب رکھے گئے ہیں۔ مستحقین کے علاج اور امداد کے لیے بیت المال کے لیے 4ارب رکھے گئے۔ بیت المال کے طریقہ کار کو آسان بنایا جائے ، بیت المال میں بیٹھے افراد کا رویہ بہتر کریں، مریض مشکل میں ان کے پاس جاتا ہے، یہ اس کی مشکلات مزید بڑھا دیتے ہیں، ایسا تصور کرواتے ہیں جیسے وہ اپنی جگہ سے رقم ادا کرتے ہیں۔ بیت المال کی کمپلین سسٹم کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ 1150ارب روپے کا پی ایس ڈی پی تجویز کیا جا رہا ہے،1559ارب روپے صوبوں میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے رکھے جا رہے ہیں۔ برآمدات کا ہدف 30ارب ڈالر رکھا گیا ہے۔ ترسیلات زر کا ہدف 33ارب روپے رکھا گیا ہے۔ ملکی و غیر ملکی قرضہ جات پر سود کی ادائیگی کے لیے 7303ارب روپے رکھے گئے۔رواں سال زرعی شعبے کی پیداوار 1.55فیصد رہی۔ صنعتی شعبے کی پیداوار منفی 2.94فیصد رہی ہے۔ خدمات کے شعبے کی پیداوار 0.86فیصد رہی ہے۔ اقتصادی سروے رپورٹ کے مطابق رواں سال پاکستان کی معیشت کو کئی قسم کے چیلنجز کا سامنا رہا۔ سیلاب اور شدید بارشوں کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کو 30ارب ڈالر کا نقصان پہنچا۔ زرعی شعبے کو 800ارب روپے کا نقصان پہنچا۔ بڑی فصلوں کی پیداوار میں 3.20فیصد کمی ہوئی۔ کپاس کی پیداوار 8.39 ملین بیلز سے کم ہوکر 4.91ملین بیلز رہ گئی۔ کپاس کی پیداوار میں 41فیصد کمی ہوئی۔ چاول کی پیداوار 9.32 ملین ٹن سے کم ہوکر 7.322ملین ٹن رہ گئی۔ چاول کی پیداوار 21.5فیصد کم ہوئی۔ رواں سال سال مونگ کی پیداوار میں 48.9فیصد، مرچوں کی پیداوار 43.1فیصد، پیاز 18.3فیصد ، دال ماش 31.1فیصد اور دال مسور کی پیداوار میں 2.6فیصد کمی ہوئی ہے۔ یہ روزمرہ استعمال ہونے اشیاء ہیں، جن کی پیداوار میں انتہائی کم کا سامنا رہا، جس نے عام انسان کی کمر توڑ دی ہے۔ حکومتی بجٹ کے ساتھ اس وقت کاروباری برادری کا ملک کے ساتھ تعاون کرنا ہو گا۔ ان 75سال سے ریاست نے ان کو ہر طرح سے مدد دی ہے۔ آج کاروباری برادری کو ملک کی بقا کے لیے اپنے منافع کو کم اور ذخیرہ اندوزی سے دور رہنا ہو گا۔

جواب دیں

Back to top button