Columnمحمد مبشر انوار

حکم اذاں

محمد مبشر انوار( ریاض)

بچپن سے سنتے اور پڑھتے آ رہے ہیں کہ سانچ کو آنچ نہیں، اتفاق میں برکت ہے، شیر کی ایک دن کی زندگی گیڈر کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے اور ایسے ہی کئی ایک اخلاقیات سے متعلق قول پڑھ پڑھ کر، زندگی کا محور و مرکز ان اقوال کو بناتے ہوئے زندگی گزارنے کی کوشش کی لیکن اردگرد کا ماحول قطعا ایسا نہیں کہ ان اخلاقیات پر عمل کرتے ہوئے زندگی پرسکون یا باوقار گزر سکے۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ گرد و پیش میں ان اخلاقی اصولوں سے منہ موڑے ہوئے کئی ایک ایسے کردار ضرور نظر آئے ہیں کہ جنہوں نے دن دگنی رات چوگنی ترقی کی ہے، یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ان کرداروں کی یہ ترقی بہرکیف دنیاوی حوالوں سے ہی نظر آتی ہے جبکہ ایسے کئی ایک کردار آخرت کی زندگی کو آخرت پر دیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں یعنی ان کے نزدیک زندگی دوبارہ نہیں ملے گی لہذا جو کچھ ہے اسی دنیا میں ہے۔ دوسری طرف یہ بھی اب ایک مسلمہ حقیقت بن چکی ہے کہ ہر غیر متوقع کامیابی کے پیچھے بہرطور کوئی جرم ضرور ہوتا ہے، اب کسی عورت کا ہاتھ واضح نظر نہیں آتا البتہ جرم کے پس پردہ کہیں کسی عورت کا ہاتھ ہو تو نہیں کہا جا سکتا۔ عدل و انصاف کے متعلق تو کتب بھری پڑی ہیں جن میں اسلامی تاریخ کے انتہائی متاثر کن واقعات درج ہیں اور بطور مسلمان ہمارے لئے لازم ہے کہ عدل قائم کرنے میں کسی بھی صورت پیچھے نہ ہٹیں ،حتی کہ خونی رشتوں کی قربانی بھی دینا پڑے تو اسے انصاف کے راستے میں حائل نہیں ہونا چاہئے جیسا کہ سرکار دو عالمؐ نے ایک بااثر مجرم کے ہاتھ کاٹنے پر ، سفارشیوں کو واضح کہا تھا کہ اگر محمدؐ کی بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرتی تو اس کے ہاتھ بھی کاٹ دئیے جاتے۔ مزید فرمایا کہ تم سے پہلے قومیں صرف اس لئے برباد ہوئی کہ وہ اپنے طاقتوروں کو چھوڑ دیتی تھی جبکہ کمزوروں کو سزا دیتی تھی، جس سے عدل کا نظام قائم نہیں ہوتا لہذا معاشرے میں موجود مساوات کا توازن بھی قائم نہیں رہتا تھا۔
تاریخ اسلامی میں ایک اور حقیقت بھی بڑی واضح ہے کہ اکثر مواقع پر محلاتی سازشیں ہی مسلم حکمرانوں کو لے ڈوبتی رہی ہیں اور کئی نابغہ روزگار اور اہل افراد سازشوں کے باعث پنپنے سے قبل ہی دفن کر دئیے گئے ہیں۔ ایسے ایسے قابل و ذہین اور اہل افراد کے جن کی خدمات نہ صرف مسلمانوں بلکہ اسلام کے لئے بھی انتہائی مفید ہوتی اور اسلامی حکومت تا دیر قائم رہ جاتی لیکن ان کے مخالفین کی انا سمجھیں، ضد کہیں یا اقتدار و اختیار کا نشہ کہیں کہ جس میں لت ان عناصر نے اپنے مخالفین کو تہ تیغ کرنے سے قطعی دریغ نہیں کیا اور یوں عالم اسلام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اس کی ابتداء تو خیر خلافت راشدہ سے ہی ہو چکی تھی لیکن بعد ازاں بھی یہ خصوصی کردار اسلامی تاریخ میں ابدی حیثیت اختیار کر چکے ہیں اور رہتی دنیا تک ان کا نام پیٹھ میں چھرا گھونپنے والوں میں ہی لکھا جائیگا کہ اس کے علاوہ اور کوئی بھی موزوں لفظ ایسے کرداروں کے لئے لغت میں موجود ہی نہیں ہے۔
یہ سب تو ماضی بعید تاریخ کے قصے ہیں، حالیہ تاریخ میں دیکھیں تو بابائے قوم کے ساتھ جو سلوک اس ریاست میں ہوا، کسی احسان مند قوم کی طرف سے ایسی توقع کی ہی نہیں جا سکتی کہ ایک شخص نے تن تنہا پوری قوم کا اعتماد جیت کر وقت کی دو مکار ترین قوموں سے اپنی قوم کو آزادی دلائی۔ تن تنہا صرف اس لئے کہا کہ بعد از آزادی نہرو کے الفاظ ریکارڈ پر ہیں کہ اگر اسے محمد علی جناحؒ کی صحت کے متعلق علم ہوتا تو وہ کبھی بھی تقسیم کو اتنی جلدی ممکن نہ ہونے دیتا اور محمد علی جناحؒ کے بعد ایسا کون سا رہنما تھا جو انگریزوں کے برصغیر سے نکلنے کے بعد مسلمانوں کو ہندوئوں سے آزادی دلا سکتا؟۔ ہم نے تو اس شخص کے احسان عظیم کی قدر ہی نہیں کی اور اسے جسے لاپرواہی سے مرنے دیا، اس کی مثال دنیا میں مل ہی نہیں سکتی۔ بابائے قوم کے بعد ہم نے کس کس کو ناراض نہیں کیا، کس کس کو نہیں کھویا؟۔ ہر وہ شخص یا سیاسی جماعت جو اس قوم میں اپنی مضبوط جڑیں قائم کرنے میں کامیاب ہوئی، جس نے پاکستانیوں کے دلوں میں گھر کیا، جس نے پاکستانیت کو اجاگر کیا، جس کے گرد پاکستان، بطور قوم اکٹھے ہوئے، ہم نے اس کو سیاسی افق سے ہٹانے میں کسی ہچکچاہٹ کا کبھی مظاہرہ نہیں کیا بلکہ اسے اپنے راستے کا پتھر سمجھا ہے، جسے ہٹانا اقتدار میں شریک رہنے کے لئے ازحد ضروری رہا۔ قائد اعظمؒ کے بعد تو ان کی بہن اور مادر ملت تک کو غدار قرار دے دیا گیا کہ وہ ایک آمر کے خلاف کھڑی ہوئی، صرف اس لئے کہ یہ ملک جمہوری طور طریقوں سے معرض وجود میں آیا تھا اور یہاں آمریت کی گنجائش کسی صورت ممکن نہیں تھی، باقی سب تاریخ کا حصہ ہے۔ اسی طرح مغربی پاکستان، آج کے پاکستان، کی مقبول ترین سیاسی شخصیت بھی کسی طور قبول نہیں تھی لہذا اس کے گلے میں بھی پھانسی کا ایسا پھندا کسا گیا کہ جس عدالتی فیصلے پر آج تک دنیا کی کوئی عدالت انحصار نہیں کر سکتی۔ البتہ اس دوران اقتدار پر گرفت مضبوط رکھنے کے لئے ایسی سیاسی کھیپ تیار کی گئی جو سیاسی سے زیادہ تاجرانہ ذہنیت کی مالک تھی یا دوسری طرف فاشسٹ سوچ رکھنے والی سیاسی شخصیات کو ریاستی وسائل کے بل بوتے پر، اپنی ساکھ استوار کرنے میں مدد فراہم کی گئی۔ ان خود ساختہ سیاسی شخصیات نے جو اودھم مچایا، اس کے نتائج ہم آج بھگت رہے ہیں جبکہ اس دوران دوسری سیاسی شخصیت، جو متعین کردہ کردار سے باہر نکل رہی تھی، اسے قریبی ساتھیوں کی ملی بھگت سے راستے سے ہٹانے میں کوئی عار محسوس نہیں کی گئی۔ تاہم آج تک ان سیاسی شخصیات کے قاتلوں کی نہ نشاندہی ہو پائی ہے اور نہ ہی انہیں قرار واقعی سزا مل سکی ہے جبکہ دوسری طرف ہمارے اداروں کی کارکردگی ایسی شاندار ہے کہ دہشت گردوں کے پورے نیٹ ورک کا قلع قمع بخوبی کرکے رکھ دیا، انہیں ملک کی سرحدوں سے نکال باہر کیا اور اپنی اہلیت ثابت کر دی۔ یہاں تک ہی موقوف نہیں بلکہ ہمارے اداروں کی کارکردگی کا ایک بڑا ثبوت گزشتہ دنوں پیش آنے والا ایک واقعہ ہے کہ جس کے ذمہ داروں کے خلاف آپریشن انتہائی کامیابی سے جاری ہے بلکہ اس کے بیرون ملک ڈانڈوں کو بھی قابل گرفت کئے جانے کے امکانات واضح ہیں، گو کہ اس واقعہ کی تفتیش تاحال یکطرفہ ہی دکھائی دے رہی ہے، اور اس میں جو نتائج سامنے آ رہے ہیں، وہ انتہائی حیران کن ہیں۔
کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی میں اتحاد و یکجہتی کو بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے لیکن اس واقعہ کے بعد جہاں ملک میں سیکڑوں سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں، ایک نئی سیاسی جماعت، استحکام پاکستان، بھی رجسٹرڈ ہو چکی ہے ، جس میں تحریک انصاف سے جدا ہونے والے وہ سیاسی رہنما شامل ہیں، جنہوں نے چند دن بعد پہلے ملکی صورتحال پر انتہائی رنجیدہ ہوتے ہوئے سیاست سے لاتعلقی کا اعلان کیا تھا۔ سوال صرف اتنا سا ہے کہ کیا ایک نئی سیاسی جماعت کی تشکیل سے، کہ جس میں وہی چہرے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے سیاسی افق یا سیاست پر مسلط ہیں، ملکی مسائل کا حل نکال پائیں گے؟۔ دوسرا سوال اس سے بھی زیادہ اہم اور آسان ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے اقتدار میں موجود رہنے والوں کے پاس نئی سیاسی چھتری تلے ایسی کون سی جادو کی چھڑی میسر ہو جائے گی کہ وہ پاکستان کو بحرانوں سے نکال لیں گے؟، یا گزشتہ ادوار اقتدار میں وہ جادو کی چھڑی انہیں میسر نہیں رہی جو پاکستان کو مسائل سے نکال سکتی؟۔ ان سب سوالوں کو جواب پوری قوم کو ازبر ہے کہ جادو کی اسی چھڑی کے تحت ہی یہ سارے چہرے بہرطور اسی سمت چلتے ہیں جدھر کی ہوا ہوتی ہے۔ بہرکیف ایک نئی سیاسی جماعت بنانے والوں کو مبارک ہو، پرانی سیاسی جماعت پر کامیاب شب خون مارا جا چکا ہے، عمران خان کا زمان پارک اجڑ چکا ہے لیکن انتخابات کا اب بھی کوئی واضح امکان نظر نہیں آرہا۔ شنید تو یہ بھی ہے کہ استحکام پاکستان کی ایک برانچ زمان پارک میں کھلنے کا بھی امکان ہے، جو فی الوقت ایک امکان ہی ہے لیکن ایسے امکانات کی تعبیر ہوتے زیادہ دیر نہیں لگتی۔ دلی دعا یہی ہے استحکام پاکستان اور استحکام پاکستان کے ضامن اس سیاسی جماعت کے توسط ہی ملکی مسائل حل کرنے میں کامیاب ہو جائیں اور بائیس کروڑ عوام کو سکون کا سانس نصیب ہو۔ بہرکیف ہمیں ہے حکم اذاں گو کہ تقسیم سے مسائل جنم لیتے ہیں، حل نہیں ہوتے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

Back to top button