منشیات کے خلاف مہم .. مبشر انوار

محمد مبشر انوار( ریاض)
معاشرہ بالعموم مختلف کردار کے حامل افراد پر مشتمل ہوتا ہے، جس میں اکثریت کا تعلق معاشرے میں مثبت اقدار سے وابستہ ہوتا ہے اور وہ مسلسل معاشرے کی بہتری کے لئے اپنا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ جبکہ انہی شعبہ ہائے جات سے متعلق کچھ کالی بھیڑیں ایسی ہوتی ہیں جو اپنے شعبہ میں رہتے ہوئے، اپنے ہی بھائی بندوں کی مثبت کوششوں پر پانی پھیرتی نظر آتی ہیں، ان کی مثبت کوششوں کو اپنے حاسدانہ جذبوں یا ٹانگیں کھینچتے ہوئے ناکام بنانے کی کوششیں کرتے ہیں۔ دوسری طرف مٹھی بھر عناصر ایسے ہیں جنہیں بجا طور پر جرائم پیشہ کہا جاتا ہے، جن کا دماغ جرائم سے بھرا رہتا ہے اور وہ معاشرے کے سکون کو تباہ کرنے کے لئے ہمہ وقت جتے رہتے ہیں، اس کے پیچھے کیا کہانی ہوتی ہے، کیا ماضی ہوتا ہے، ان کے پشت پناہ کون لوگ ہوتے ہیں، یہ سب حقائق اپنی جگہ لیکن ایسے عناصر معاشرے میں مسلسل ابتری پیدا کرتے رہتے ہیں۔ جبکہ ایسے جرائم پیشہ عناصر کو کنٹرول کرنے کے لئے ریاستیں محکموں پر انحصار کرتی ہیں اور ان محکموں میں موجود اہلکاروں کا یہ فرض منصبی ٹھہرتا ہے کہ وہ ایسے جرائم اور جرائم پیشہ افراد کی بیخ کنی میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے معاشرے کو ایسے ناسوروں سے پاک کریں تا کہ معاشرہ سکون کے ساتھ پھل پھول سکے، اس میں بہتری آتی رہی۔ بدقسمتی سے یہ مٹھی بھر عناصر اپنی کسی بھی مذموم حرکت سے کسی بھی ریاست کو آنا فانا غیر محفوظ کر دیتے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ مٹھی بھر عناصر ریاست سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ طاقتور ہمیشہ ریاستی طاقت ہوتی ہے بشرطیکہ وہ حقیقی معنوں میں، ذاتی مفادات سے بالا تر ہوکر ریاستی مفادات کو مقدم جانے اور پھر اس کے حصول میں اپنی تمام تر توانائیوں کو صرف کر دے، یقینی طور پر وہ ایسے عناصر کی سرکوبی کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ اس کا مظاہرہ گزشتہ اڑھائی دہائیوں میں سعودی عرب میں رہتے ہوئے متعدد بار دیکھ چکا ہوں کہ کس طرح ریاستی ادارے سر دھڑ کی بازی لگا کر حکومتی ترجیحات کے مطابق ایسے عناصر کے خلاف روبہ عمل ہوتے ہیں اور انتہائی قلیل مدت میں اپنے طے شدہ اہداف کو انتہائی سہولت اور کامیابی کے ساتھ حاصل کر لیتے ہیں۔
اس کا ابتدائی مظاہرہ، سعودی عرب میں آتے ہی ہوا کہ یہاں آنے کے فورا بعد( تقریبا دو سال کے اندر اندر) مشرق وسطیٰ و ایشیائی ممالک میں خود کش حملوں کا ایک طوفان ابھرا، جس نے ہر ریاست کے سکون کو نیست و نابود کرنے کی کوشش کی۔ ان خود کش حملہ آوروں کو جنت کی نوید سنا کر ، ایسا بہکایا گیا کہ یہ بے گناہ بنی آدم کو بھرے بازاروں میں، پر ہجوم جگہوں پر، اپنے ہی طرز کے اسلام اور انصاف کے نام پر زندگی سے آزاد کرنے کے درپے ہو گئے۔ حیرت انگیز امر یہ تھا کہ پوری دنیا کے مسلم ممالک میں، کسی بھی مسلک کو نہیں بخشا جا رہا تھا، کوئی محفوظ جگہ نہیں تھی ، لیکن ٹارگٹ واضح طور پر مسلمان اور مسلمان معاشرے ہی تھے۔ ایسے عناصر کو قابو کرنا انتہائی کٹھن تھا اور بظاہر ناممکن نظر آتا تھا لیکن الحمد للہ سعودی حکومت نے اپنے ان بھٹکے ہوئے لوگوں کو نہ صرف شناخت کیا بلکہ ایسا لائحہ عمل اپنایا کہ ان کے ساتھ طویل مذاکرات کئے، انہیں قائل کیا اور ان کے ایسے اندھے مجرمانہ اقدامات کو روکنے میں کامیاب رہی۔ اس کامیاب حکمت عملی کے پیچھے، سعودی حکومت کی نیت کے ساتھ ساتھ اس کی محکموں میں موجود اہلکاروں کی پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ وطن کے ساتھ محبت، وابستگی اور خلوص نمایاں ہے کہ انہوں نے کسی بھی مرحلہ پر ان جرائم پیشہ عناصر کے ساتھ رعایت نہیں برتی، حکومتی رٹ کو اس کی اصل روح کے مطابق نافذ کیا اور تقریبا یہی صورتحال باقی گلف ممالک کی ہے کہ وہاں آج پرامن معاشرہ نظر آتا ہے۔ جبکہ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایسا لائحہ عمل ناپید نظر آتا ہے کہ ہمارے ارباب اختیار نے پہلے تو محکموں کی پیشہ ورانہ اہلیت پر شدید نقب لگا رکھی ہے اور اگر بالفرض چند ایک اچھے اہلکار موجود بھی ہیں تو انہیں اپنی تقرری کے لئے غیر ضروری طور پر ارباب اختیار کے اشارہ ابرو کا محتاج رہنا پڑتا ہے اور سب سے اہم کہ ارباب اختیار کے ذاتی مفادات و ترجیحات معاشرے میں امن و امان میں واضح رکاوٹ نظر آتے ہیں۔ بہرکیف یہ وہ حقائق ہیں کہ کسی بھی معاشرے کو جرائم سے پاک کرنے کے لئے صرف قوانین کا ہونا کافی نہیں بلکہ اس پر عملدرآمد کے لئے محکموں میں اچھے، اہل افسران کا ہونا بھی ضرور ی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ ریاست کی نیت اور ترجیحات کا ہونا لازمی ہے۔ یہاں پاکستان کے حوالے سے کچھ کہنا یا موازنہ کرنا بے سود ہے کہ پاکستان میں محکمے عضو معطل دکھائی دیتے ہیں، ان کے افسران کی حالت دیدنی ہے کہ کس طرح ارباب اختیار کے سامنے گھٹنے ٹیک چکے ہیں اور کیسے ان کی خوشامد میں ہر حد کو پار کرنے پر تلے ہیں، ایسے میں معاشرہ کس طرح پہلی ترجیح ہو سکتا ہے ؟، اور کس طرح معاشرے میں انصاف و قانون کا بول بالا ممکن ہے، اس کی واضح تصویر اس وقت ہمارا معاشرہ کر رہا ہے کہ کیسے محکمے اور ان کے اہلکار دہرا معیار اپنائے ہوئے، صاحبان اقتدار و اختیار کی مرضی و منشا کے حصول میں سرگرداں ہیں۔
سعودی عرب اپنے معاشرے کی مسلسل ترقی کے عمل میں کوشاں نظر آتا ہے اور یہاں موجود جرائم کی بیخ کنی میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہا ہے بالخصوص ایسے جرائم جو انسانیت کے لئے نقصان دہ ہیں، ان کے خلاف سعودی عرب کی کاوشیں مثالی دکھائی دیتی ہیں۔ یہاں جرائم کے خاتمے کے لئے سزائیں بھی انتہائی سخت ترین رکھی گئی ہیں بلکہ ان پر عملدرآمد بھی کروایا جاتا ہے تا کہ مجرموں میں خوف کا عنصر قائم رہے۔ فی الوقت منشیات کے خلاف سعودی حکومت کی کاوشیں اور مہم انتہائی زوروں پر نظر آتی ہے اور اس ضمن میں سعودی عرب کی انٹیلیجنس معلومات کی بنیاد پر اٹلی حکومت نے پچھلے دنوں ،تقریبا پانچ سو ٹن سے زائد منشیات کی سمگلنگ کو ناکام بنایا ہے۔ جبکہ مملکت کے اندر بھی اس وقت ادارے انتہائی سرگرمی کے ساتھ منشیات کے خلاف سرگرم ہیں اور ایسے عناصر کی گرفتاری کی خبریں تقریبا روز ہی خبروں کی زینت بن رہی ہیں۔ شنید ہے کہ سعودی حکومت نے ’’ نسوار‘‘ کو بھی منشیات کی فہرست میں شامل کر لیا ہے اور نسوار کھانے، رکھنے اور بیچنے والے افراد کو بھی منشیات کی زد میں شامل کر لیا ہے، جس سے پاکستانی و افغانی تارکین وطن کے لئے ہی نہیں بلکہ کئی دوسرے ممالک کے افراد جو نسوار استعمال کرتے ہیں ، اس کی زد میں آ چکے ہیں۔ سفارت خانہ پاکستان اس ضمن میں آگہی مہم چلا رہا ہے اور پاکستانیوں بالخصوص پشتون بھائیوں کو اس سلسلے میں متنبہ کر رہا ہے کہ نسوار سے گریز کریں وگرنہ قابل گرفت جرم میں قید ہو سکتے ہیں، جرمانہ بھگت سکتے ہیں اور سب سے بڑھ کر وطن واپس بھجوائے جا سکتے ہیں۔ اسی پر کیا موقوف کہ سعودی عرب میں یہ مہم اس قدر زوروں پر ہے کہ وہ افراد جو ’’ بے سکونی ‘‘ کے مرض میں مبتلا ہیں اور ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق ’’ سکون آور‘‘ ادویات لیتے ہیں لیکن ان کے پاس ڈاکٹرز کا نسخہ موجود نہیں یا ان کا علاج مملکت سے باہر کسی ڈاکٹر سے ہو رہا ہے یا ان کے پاس ضرورت سے زیادہ مقدار میں ان سکون آور ادویات موجود ہیں، تب بھی مقامی ادارے اس زیادہ دوا کو منشیات میں تصور کر رہے ہیں اور ایسے افراد کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔ ایسا ایک واقعہ الجبیل کے رہائشی کے ساتھ پیش آ چکا ہے کہ ضرورت سے زائد سکون آور ادویات، پاکستان ڈاکٹر کے زیر علاج، اپنی ڈیوٹی نوعیت کے باعث پاس رکھنے کی وجہ سے منشیات کے خلاف سرگرم محکمے کے اہلکاروں کی گرفت میں آچکا ہے اور اس وقت ان کی تحویل میں ہے۔ سعودی عرب میں رہتے ہوئے، یہاں کے قوانین سے آگہی اور احترام انتہائی ضرور ی ہے کہ ایسے جرائم جنہیں مملکت غیر انسانی قرار دے چکی ہو، اس میں سفارت خانہ بھی تارکین وطن کی مدد کرنے سے قاصر نظر آتا ہے تاوقتیکہ مقامی قوانین کے مطابق سزا مکمل نہ ہوجائے۔ لہذا پاکستانی تارکین وطن سے گزارش ہے کہ سعودی قوانین نے آگہی اور ان کا احترام لازم کریں۔