حادثہ ایک دم نہیں ہوتا .. امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد
اس سوچ کو تقویت ملتی جارہی ہے کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت پاکستان کو لیبیا، شام اورعراق بنانے کی طرف تیزی سے دھکیلا جا رہا ہے۔ 9مئی کے واقعات، اور سپریم کورٹ کے سامنے دھرنے کا اہتمام ملک میں خانہ جنگی کی جانب واضح اور مضبوط اشارہ ہے۔ ہمیشہ سے سنتے آئے ہیں ’’ پاکستان کے حالات جتنے خراب آج ہیں پہلے کبھی نہیں تھے‘‘۔ مگر آج یہ ملک جس دوراہے پر کھڑا ہے واقعی اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں تھا۔ دنیا ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ترقی کرتی نظر آرہی ہے مگر پاکستان تیزی سے تنزلی کا شکار ہے۔ حالات اس قدر گمبھیر اور تشویشناک ہیں کہ خاکم بہ دہن کہیں پاکستان کا وجود ہی نہ ختم ہو جائے۔ سیاست سے معیشت تک بربادی ہی بربادی، انصاف اور سکیورٹی کے اداروں کی بے توقیری؟ بد اخلاقی کا ننگا ناچ، خود غرضی اور انا پرستی کا دور دورہ ، طاقت اور دولت کے نشے میں بد مست اشرافیہ؟ نفرت اور تعصب میں پلتی ہوئی نوجوان نسل ان ساری خامیوں نے پاکستان کو اس حال پر لا کھڑا کیا ہے کہ اقوام عالم کی نظر میں ملک اور قوم دونوں بے وقت ہو چکے۔ سوال یہ ہے کہ ملک کو یہاں تک لانے کا ذمہ دار کون ہے؟ 75برس میں وطن عزیز اس حال میں کیسے پہنچ گیا کہ آج پارلیمنٹ بے توقیر ہو چکی ہے؟۔ عدلیہ کا وقار ختم ہو چکاہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نعرے لگ رہے ہیں۔ صحافت میں منافقت اور کھلم کھلا جانبداریاں ہیں۔ عوام مایوس ہو چکے ہیں۔ بھوک، غربت، مفلسی، بے چار گی، بے چینی، بے یقینی ہر طرف۔ جرائم بڑھتے جارہے ہیں، خود کشیاں ہو رہی ہیں۔ کیا کچھ نہیں ہو رہا ہے؟ ایسے میں یہ سوال بھی جنم لے رہا ہے کہ کس نے یا کس کس نے ملک کو اس حال میں پہنچایا ہے اور کون ہے جو ملک و قوم کو اس بھنور سے نکالے گا؟ اور کیا یہ معجزہ اب ہو سکے گا؟ کہا جاتا ہے کہ بیوروکریسی ذمہ دار ہے، کوئی کہتا ہے سیاستداں اصل مجرم ہیں۔ ہر دور میں بہت آسانی سے اور بغیر سمجھے بوجھے فیشن کے طور پر یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ذمہ دار ہے اور اب تو کھلے بندوں کہا جا رہا ہے عدلیہ نے اس حال کو پہنچا یا ہے۔ پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو لگتا ہے شروع سے ہی کوئی ایسی کمی یا خامی رہی جس کی وجہ سے ملک آگے کی طرف تو کیا بڑھتا رو بہ زوال ہی ہے۔ ابتدا میں بیوروکریٹ سیاست میں گھس کر سیاستدانوں کو رسوا کرتے رہے۔ پھر اسکندر مرزا آئے جنہوں نے اپنی حکومت کو بچانے کے لئے کمانڈر ان چیف ایوب خان کا سہارا لیا اور ایوب خان نے اپنے باس کو معزول کر دیا اور خود ملک کے صدر بن گئے۔ یہاں سے فوجی اقتدار کا آغاز ہوتا ہے۔ دیکھا جائے تو نو زائیدہ ملک پر اقتدار کا قبضہ سب سے پہلے بیوروکریسی نے جمایا۔ پھر اپنے آپ کو مضبوط بنانے کے لئے فوج کا سہارا لیا۔ فوج پر اقتدار کا نشہ چڑھا تو اس نے بیوروکریسی کو نکال باہر کر کے بلا شرکت غیرے حکومت شروع کردی۔ پھر تو ایک لائن لگ گئی۔ ایوب خان کے بعد یحییٰ خان، ضیا الحق اور پھر پرویز مشرف۔ ایک کے بعد ایک آتے رہے۔ شاید اسی تسلسل کو دیکھ کر عرف عام ہے کہ فوج نے جمہوریت کا جنازہ نکال دیا۔ بیچ بیچ میں عدلیہ کا کردار بھی سامنے آتا رہا۔ جسٹس منیر نے مولوی تمیز الدین کیس میں جو کچھ کیا اس کی بازگشت آج بھی سنائی دیتی ہے۔ اور اب یہ حال ہے کہ عدالت کے دروازے پر ڈنڈوں کے زور پر عدلیہ کو للکارا جا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ موجودہ حالات میں ایک سیاسی گروپ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اور دوسرا سیاسی گروپ عدلیہ کے خلاف صف آراء ہے۔ عام آدمی کا خیال ہے کہ جس سیاسی جماعت کے پیچھے کمانڈر انچیف کھڑا ہوتا ہے وہ ہی حکمران اور طاقتور ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر جرنیل نہ ہوتے تو عمران خان کی حکومت نہ بن سکتی اور اگر وہی کمانڈر انچیف طاقتور نہ ہوتے تو پی ڈی ایم کی حکومت نہ بن سکتی۔ موجودہ حکومت آئی تو آئینی طریقے سے مگر سارا کھیل کھیلا کیسے گیا؟ یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ ملک میں اس مضحکہ خیز طریقوں سے حکومتیں ٹوٹتی اور بنتی ہیں۔ یہ حقائق صاف صاف بتاتے ہیںکہ پہلے بیوروکریسی پھر فوج اور پھر عدلیہ کے گٹھ جوڑ سے حالات سنگین ہوتے گئے مگر اس سارے کھیل میں جو گندہ کردار ہے وہ سیاستدانوں کا ہے۔ ہر دور میں اقتدار کی خاطر یہ مخالفوں کو دشمن بناتے رہے۔ ابتدائی دنوں میں ایک دوسرے کو سازش کے تحت زیر کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ اور اس کے لئے کبھی فوج کا سہارا لیا اور کبھی عدلیہ اور کبھی بیوروکریسی کا۔ حد تو یہ ہے کہ بعض سیاستدانوں نے امریکہ تک کی آشیرباد لینے سے بھی گریز نہ کیا۔ یہ سارا بگاڑ شروع کہاں سے ہوا؟ اور ایسا کیوں ہوتا رہا؟ اصل میں اس ملک میں آئین یا تو بنا ہی نہیں اور جب بن گیا تو اس کو لپیٹ کر طاق میں اس طرح رکھ دیا گیا جس طرح عام طور پر مسلمان قرآن کے ساتھ سلوک کرتے ہیں۔۔ بھارت اور بنگلہ دیش تک نے اپنے قیام کے وقت سے ہی آئین بنا لیا تھا بلکہ بننے سے پہلے ہی اس پر کام کر لیا تھا۔ 1973میں جب بھٹو کے دور میں متفقہ آئین بنا تو چند ہی برسوں میں اتنی ترامیم ہوئیں کہ اس کی اصلی شکل ابتدا ہی میں بالکل بگڑ چکی تھی کہ اب یہ حال ہے کہ پاکستانیوں کو یہ ہی نہیں معلوم کہ اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد عام انتخابات کب تک ہو جانے چاہئیں۔ ہر کوئی اپنی اپنی تشریح کر رہا ہے۔ جو ادارہ تشریح کا حق رکھتا ہے اس کو تو برسر اقتدار جماعتیں ہی جوتوں کی نوک پر رکھ رہی ہیں۔ پارلیمان تو پہلے ہی بے توقیر ہو چکی تھی اب معزز عدالت کی بھی مٹی پلید ہو رہی ہے۔ سیاسی جماعتیں اقتدار کی ہوس میں پاگل ہو رہی ہیں۔ ایک دوسرے کی دشمن بنی ہوئی ہیں۔ جو اقتدار میں آجاتا ہے وہ کسی طور نکلنے کو تیار نہیں اور جو اقتدار سے محروم ہوتا ہے وہ ہر صورت دوبارہ آنے کو تیار رہتا ہے۔ آج ملک کے کسی ادارے کو عام لوگ قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھ رہے اور آئین کا تو کوئی وجود ہی نہیں نظر آتا۔ کبھی نہیں سنا تھا کہ ایک قیدی ضمانت پر بیرون مِلک علاج کے لئے چلا جائے اور واپس نہ آئے بلکہ وہاں بیٹھ کر سیاسی قیادت کرے اور کھلم کھلا عدلیہ اور فوجی قیادت کو برا بھلا کہے۔ وزارت کے عہدوں پر براجمان لوگ کھلم کھلا ججز کو ذلیل کرتے ہیں۔ ایک سابق وزیر اعظم کمانڈر انچیف کے بل بوتے پر حکمران بنتا ہے اور پھر معزول ہو جانے پر اسی کمانڈر انچیف کو برا بھلا کہتا ہے۔ سارے حالات کا تجزیہ کرنے کے بعد جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ خرابیوں کے ذمہ دار سب ہیں مگر سیاستدانوں کا قصور سب سے زیادہ ہے کہ یہ اقتدار کی لالچ میں ہر انتہا تک جانے کو تیار رہتے ہیں اور ہر کسی کو استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے۔