بلاول کا سفر بھارت .. روشن لعل

روشن لعل
پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری جس طرح میڈیا کی توجہ کا مرکز بن کر بھارت گئے اسی طرح وہاں سے واپسی کے بعد بھی ذرائع ابلاغ کا دھیان ان کی طرف مرکوز رہا۔ بلاول کی بھارت یاترا کے حوالے سے سب سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ ان کے سفر بھارت کو دورہ بھارت نہیں سمجھا جاسکتا۔ شنگھائی تعاون تنظیم کی وزرائے خارجہ میٹنگ میں شرکت کے لیے بلاول کے گوا جانے کو اس لیے دورہ بھارت نہیں سمجھا جاسکتا کیونکہ سفارتی اصطلاحات کے مطابق کسی ملک کے وزیر خارجہ جیسا عہدہ رکھنے والے شخص کے کسی دوسرے ملک کی مسافت کو صرف اسی وقت دورہ کہا جاسکتا ہے جب یہ مسافت دونوں ملکوں کے حکام نے افہام و تفہیم کے ساتھ طے کی ہو۔ اگر کسی کو یہ بات عجیب لگتی ہے تو وہ یہ جان لے کہ کیوبا کے مرحوم صدر فیدرل کاسترو نے 1979کے دوران اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کی غرض سے امریکہ کی جو مسافت کی تھی وہ ان کا دورہ امریکہ نہیں تھا۔ فیدرل کاسترو اقوام متحدہ جیسے ایک ایسے بین الاقوامی فورم میں تقریر کرنے کے لیے امریکہ گئے جس میں اس وقت سے آج تک امریکہ ویٹو پاور رکھنے والے پانچ ممالک میں شامل ہے۔ جس فورم کا مرکزی دفتر امریکہ میں ہے وہاں تقریر کرتے ہوئے فیدرل کاسترو نے سب سے زیادہ امریکہ کو لتاڑا تھا۔ نہ تو 1979میں اور نہ ہی اس کے بعد آج تک کسی نے یہ کہا کہ فیدرل کاسترو نے امریکہ میں امریکہ کو لتاڑ کر سفارتی آداب کی خلاف ورزی کی تھی۔ کیوبا کے فیدرل کاسترو نے 1979میں جب اقوام متحدہ میں امریکہ کو کھری کھری سنائیں یہ سرد جنگ کے عروج کا دور تھا۔ اس دور میں پوری دنیا سمیت پاکستان کے بائیں بازو نے بھی ایک غیر جانبدار فورم پر کاسترو کی امریکہ میں
امریکہ کے خلاف کی گئی تقریر کو بے پناہ سراہا تھا۔ عجیب بات ہے کہ جو لوگ ماضی میں کاسترو کی امریکہ میں امریکہ کے خلاف کی گئی تقریر کو سراہتے رہے ان کی اکثریت کو آج وہ باتیں سفارتی آ داب کی خلاف ورزی لگ رہی ہیں جو بلاول نے قبل ازیں نریندر مودی اور اب بھارتی وزیر خارجہ کے متعلق کیں۔ کچھ لبرل کہے جانے والے لوگوں سمیت بائیں بازو کے جن سابقہ اور موجود لوگوں کو بلاول کے مودی اور بھارت کے متعلق دیئے جانے والے بیانات پسند نہیں آئے ان میں سے کئی لوگ تو ایسے ہیں جو موقع بے موقع ہر اس شخص میں کیڑے نکالنے کا شوق رکھتے ہیں جس کے ساتھ کسی نہ کسی وجہ سے لفظ ’’ بھٹو‘‘ جڑا ہوا ہے۔ ان لوگوں کے علاوہ بلاول کی
باتیں کچھ ایسے لوگوں کو بھی پسند نہیں آئیں جو پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستانہ تعلقات قائم ہونے کے خواہاں ہیں۔ ایسے لوگوں کی اکثریت کا خیال ہے کہ تقسیم ہند کے فوراً بعد سے اب تک اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستانہ تعلقات قائم نہیں ہو سکے تو اس کی وجہ پاکستان کے بالادست اداروں میں بیٹھے لوگوں اور ان کے کاسہ لیس سیاستدانوں کا وہ کردار تھا جو انہوں نے ملک کے مفادات کو بالائے طاق رکھ کر صرف اور صرف اپنے ذاتی فائدوں کے لیے ادا کیا۔ اس طرح کے خیالات رکھنے والے لوگوں کی نہ نیت پر شک کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی ان کے تمام تر خیالات یکسر مسترد کئے جاسکتے ہیں ، البتہ ان لوگوں کی مردم شناسی کی اہلیت کو ضرور ناقص سمجھا جاسکتا ہے کیونکہ ان کے رویوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لوگ کسی کی حالیہ باتیں سن کر اس کے متعلق جلد بازی میں کوئی فتویٰ جاری کرنے سے پہلے اس کے سابقہ پروفائل پر غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے ۔ واضح رہے کہ پاکستان میں جن لوگوں نے ملکی مفادات کو نظر انداز کر کے اس ریاست کو دہشت گردی کی آگ میں جھونکا ان کا اپنا ایک پروفائل ہے، بلاول بھٹو کا پروفائل ان لوگوں سے بالکل مختلف اور الگ ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے بلاول
کو دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کرنے والا، دہشت گردی کو جواز فراہم کرنے والا اور دہشت
گرد تیار کرنے والی فیکٹری کا ترجمان قرار دیتے وقت دہشت گردی کے خلاف بلاول کے موقف، بلاول کے کردار اور ماضی سے لے کر آج تک دہشت گردوں کے نشانے پر ہونے کی حقیقت کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا۔ جے شنکر نے اپنے سیاسی فائدے کے لیے بلاول کے متعلق جو کچھ کہا وہ کسی بھی اوپن فورم پر اس کا دفاع نہیں کر سکے گا کیونکہ دنیا جانتی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف بلاول کا پروفائل کیا ہے۔ جے شنکر نے بلاول کے متعلق جو کچھ کہا اس کی وقعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی باتوں کو بی جے پی نواز میڈیا کے علاوہ بیرونی دنیا سمیت بھارت میں بھی کہیں پذیرائی نہیں مل سکی ۔ اس کے برعکس بلاول کی اکثر باتوں ناقابل تردید قرار دیا جارہا ہے۔ عجیب بات ہے کہ جہاں یہ بات صاف ظاہر ہو رہی ہے کہ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کا پاکستان اور بلاول کے لیے رویہ ایسا ہر گز نہیں تھا جو شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس کے میزبان ملک کے وزیر خارجہ کا ہونا چاہیے تھا وہاں پاکستان میں کچھ لوگ جے شنکر کی بجائے بلاول پر نکتہ چینی کرتے پائے جارہے ہیں۔ بلاول کی شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس میں شرکت کے حوالے سے جو ابہام موجود تھا وہ 20اپریل کو اس وقت دور ہوا جب پاکستانی دفتر خارجہ نے اعلان کیا کہ وہ 4مئی کو اس کانفرنس میں شرکت کے لیے بھارتی شہر گوا جائیں گے۔ بلاول کی گوا آنے کی خبر پر جے شنکر نے جو فوری رد عمل ظاہر کیا وہ یہ تھا کہ وزرائے
خارجہ کانفرنس کے علاوہ ان کا بلاول کے ساتھ الگ سے میٹنگ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے کیونکہ اس ہمسائے سے قطعاً بات نہیں کی جاسکتی جو بھارت میں سرحد پار سے دہشت گردی کر رہا ہو۔ جے شنکر نے بلاول کی بھارت آمد سے قبل ان کی متعلق جو کہا اس سے یہ بات صاف ظاہر تھی کہ بلاول کی وزرائے خارجہ کانفرنس میں شرکت کی خبر اس کے لیے کسی طرح بھی پسندیدہ نہیں ہے۔ بلاول کا پروفائل صرف یہ نہیں ہے کہ دہشت گردی کا خلاف اس کا موقف دو ٹوک ہے بلکہ اس کی شہرت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے خلاف کی جانے والی ہرزہ سرائی کا کھرا کھرا جواب دینے کی اہلیت بھی رکھتا ہے ۔ جب جے شنکر نے بلاول کو بلاوجہ دہشت گردی سے ساتھ جوڑا تویہ جواب سن لیا کہ اس کے وزیر اعظم نریندر مودی کو بھارت کے اندر سے گجرات کے قصائی کا خطاب ملا تھا، اس کے بعد جب جے شنکر نے اپنی میزبانی میں منعقدہ شنگھائی تعاون وزرائے خارجہ کانفرنس کو دہشت گردی کے بے سروپا بیان دیتے ہوئے بے مقصد بنانے کی کوشش کی تو اسے ایک مرتبہ پھر بلاول کے سخت رد عمل کا سامنا کرنا پڑا۔ شاید جے شنکر بھی کئی پاکستانیوں کی طرح یہ بھول گیا کہ بلاول بھارت کے دورے پر نہیں بلکہ وہاں شنگھائی تعاون کانفرنس میں شرکت کے لیے آرہا ہے۔ افسوس کہ جے شنکر کی اپنی وجہ سے وہاں جو کچھ ہوا اس سے شنگھائی تعاون تنظیم سے قائم بہتری کی امیدیں معدوم ہوتی نظر آرہی ہیں۔