مفاد پرست یا عوامی مفاد ۔۔ تجمل حسین ہاشمی

تجمل حسین ہاشمی
بدھ کے روز عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا عمران خان کا کہنا تھا اپنے آئین، سپریم کورٹ، اپنے بچوں کے مستقبل کو بچانے کے لیے اور چیف جسٹس کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ہفتہ کو مغرب سے ایک گھنٹہ پہلے آپ اپنے گھروں سے باہر نکلیں، اپنے محلوں میں جائیں، گائوں میں ہیں تو گائوں میں نکلیں عمران خان کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب بدھ کی شام قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن کے رہنما نے کہا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے قومی اسمبلی کا ریکارڈ طلب کرنے کا معاملہ بہت سنجیدہ ہے اور کمیٹی بنائی جائے جو یہ فیصلہ کرے، خواجہ آصف نے کہا کہ عدلیہ کے پاس ایک لاکھ 80ہزار مقدمے زیر التوا ہیں ، سپریم کورٹ کے پاس 51ہزار مقدمے ہیں ان کی بنیادی ذمہ داری مقدمے نمٹانا ہے آئینی جنگ لڑنا نہیں یہ عدلیہ کا حال ہے کہ لوگ پھانسی لگ جاتے ہیں اور فیصلے بعد میں آتے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سپریم کے رجسٹرار آفس نے سپیکر قومی اسمبلی کو خط لکھ کر اسمبلی کے پانچوں اجلاسوں کی کارروائی کا ریکارڈ طلب کیا تھا۔ عمران خان نے ہفتہ کو مغرب سے ایک گھنٹہ پہلے قوم سے گھروں سے باہر نکلنے کی اپیل کی ہے ، سیاسی جماعتوں کے حکومت میں رہتے ہوئے عملی اقدامات اور حکومت سے الگ ہونے کے بعد کے بیانات اس قابل نہیں رہے کہ لوگ یک زبان ہو جائیں گے، قوم کو یک زبان رہنے نہیں دیا گیا ، یہاں خواجہ آصف ، شاہد خاقان عباسی کھڑے سپریم عدلیہ کے ججز سے پوچھ گچھ کرنا چاہتے ہیں ۔ اسمبلی کو سپریم سمجھتے ہیں ، یقینا قومی اسمبلی ملک کے عوام کی نمائندہ ہے لیکن عوام بھی سوالات پوچھ رہے ہیں کہ اتنی مہنگائی ، لا قانونیت ، اسمبلی کے ایک دن کے اجلاس کے لاکھوں روپے کے فنڈز ، لاکھوں روپے کے مراعاتی پیکیج ، بچے آپ کے بیرون ممالک، اتحادی حکومت نے تو قوم سے وعدے کئے تھے ، یہ اسمبلی بھی تو 40 سال سے قوم سے وعدے کر رہی عدلیہ سے سوالات کریں لیکن جس خدمات کے لیے عوام نے منتخب کیا ہے اس عوام کے ساتھ جو کیا جا رہا ہے اس سے جان بخشی اب کیسے ممکن رہے گی ، ملک کی 60 فیصد سے زیادہ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جن کے پاس روزگار نہیں ہیں اور اسمبلی میں بیٹھے افراد کے بچے باہر ممالک بیٹھے جو کارنامے سر کر رہے سوشل میڈیا کھول کر دیکھا رہا ہے ، جو جنرل، جج ریٹائر ہوتا ہے اس کے پیچھے ایک محاذ کھڑا کیا جاتا ہے لیکن یہ سب جانتے ہیں کہ سرکاری اداروں میں فرد واحد کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ، سرکاری فیصلوں کا حق کسی ایک فرد کے پاس نہیں ہوتا ، ملکی سطح کے فیصلوں میں سرکاری ادارے اور حکمران جماعت آن بورڈ ہوتے ہیں ، لیکن سیاسی جماعتیں تو پھر چاروں طرف کھیلتی ہیں، حکومت یا حکومت سے باہر کسی حال میں بھی اپنے مفادات کو سرنڈر نہیں ہونے دیتی ہیں، رشوت کو بڑا مسئلہ نہیں سمجھا جاتا لیکن جو بڑا مسئلہ ہے اس کو سیاست زدہ بنا کر اپنی جان بخشی کی جاتی رہی ہے ، اب یہ اس طرح نہیں
چلے گا ، اتحادی حکومت کو جو خوف نظر آ رہا ہے در حقیقت یہ خوف عمران خان کو بھی ایسا ہی نظر آ رہا ہے ، تھوڑا سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عمران خان کے سپورٹرز، ووٹرز کی تعداد نئی نسل ہے ، نئی نسل میں ایک چیز جو پیدا ہو چکی ہے وہ سب کے لیے خوف زدہ ہے ، نئی نسل کے پاس سوالات بہت ہیں جن کے جوابات تمام سیاسی و جمہوری حکومتوں کے پاس موجود نہیں ہیں ، عمران خان کو اس وقت سب سے زیادہ خوف ہے کیوں کہ نئی نسل کو اگر وعدے وفا نا ملے تو یقینا پاکستان تحریک انصاف کو بھی وہی مشکلات دار پیش ہوں گی جو اس وقت مسلم لیگ ن کو در پیش ہیں ، ملکی معاشی حالات کے پیش نظر کوئی سیاسی جماعت اپنے نعروں وعدوں کی تکمیل کو یقینی نہیں بنا سکے گی ، اس معاشی صورتحال کی بہتری کے لیے دس سالہ پلاننگ کی ضرورت ہے جس میں صرف نیشنل انٹرسٹ نظر آئے ، پراجیکٹ کی تعمیر کو یقینی بنانے کے لیے قومی اتفاق رائے کیا جائے، دوسرا ایسا لگ رہا ہے کہ 2018 کے الیکشن اور خان حکومت کو ملک میں لیڈر شپ کی تبدیلی سمجھا جائے، یہ سب ایک سوچ کو عملی جامہ پہنایا جا رہا ہے، خان حکومت اور پھر اتحادی حکومت کا آنا اس چینج کی ابتدا ہے ، لیکن چینج جیسا بھی ہو نئی نسل کو اگر انگیج نا کیا گیا تو ملکی معاشی صورتحال کا کنٹرول مشکل ہوتا جائے گا ، اسمبلی عوام کی نمائندہ ہے لیکن اگر اسمبلی میں صرف تقریریں ہی کرنی ہے تو پھر الیکشن کی تاریخ ڈکلیئر کریں اور خوب تقریریں کریں، اب کیسا نہیں چلے گا ، سیاسی جماعت کے جھوٹے بیانے کام نہیں کریں گے۔