من پسند فیصلے ۔۔ ناصر نقوی

ناصر نقوی
آدم زادوں کو آدمی سے انسان بنانے کے لیے قدرت اور دنیا نے ہزاروں بلکہ لاکھوں جتن کئے لیکن خوشامد، ستائش اور دنیا میں اپنا آپ منوانے کی خواہش کم نہ ہو سکی۔ بابا آدم کے صاحبزادوں ہابیل اور قابیل نے جو دھینگا مشتی کر کے ہنگامہ آرائی کی اور جس کے ردعمل میں پہلی انسانی جان کا قتل ہوا، وہ بڑھتے بڑھتے اس حد تک پہنچ گیا کہ وطن عزیز جیسے ترقی پذیر ملک میں ہی نہیں، ترقی یافتہ دنیا میں بھی بات بات پر کیڑے مکوڑوں کی طرح لوگ مارے جا رہے ہیں۔ یہی نہیں، دین حق اسلام نے واضح پیغام دیا کہ ’’ جس نے ایک شخص کا قتل کیا گویا اس نے پوری انسانیت کا قتل کیا‘‘۔ پھر بھی اسلامی دنیا میں بھی روزانہ اپنے پرائے ’’ انسانی خون کی ہولی‘‘ کھیلتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ اگر ان تمام وارداتوں کا تفصیلی جائزہ لیں تو ایک ہی بات نمایاں نظر آئے گی کہ جس کو طاقت ملی یا منصب نصیب ہوا اس نے ’’ فرعون‘‘ کی مثال میں اپنے آپ کو بڑا نہیں تو ’’چھوٹا‘‘ سا خدا سمجھتے ہوئے ’’ سیاہ سفید‘‘ اور جائز ناجائز ضرور کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ نہ تو فرعون بچا اور نہ ہی ہٹلر پھر بھی آدم زادوں کی خواہش میں کمی نہیں آئی۔ فاتح اعظم سکندر بھی جب عراق کے نواحی شہر ’’سامرا‘‘ میں اس دنیا سے رخصت ہوا تو اس کے ہاتھ بھی خالی تھے لیکن کسی نے کچھ نہیں سیکھا اور نہ ہی سیکھنے کی تمنا رکھتے ہیں۔ اس لیے ہر کوئی ’’جہاں ہے جیسے ہے‘‘کی بنیاد پر من پسند فیصلوں کا متلاشی ہے۔ عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی موجودہ آئینی اور پارلیمانی بحران پر ریمارکس دئیے ہیں کہ فل کورٹ بنانا چیف جسٹس کا اختیار ہے۔ ججز کے خلاف مجھ سمیت شکایات آتی رہتی ہیں ۔ حقیقت میں فیصلہ عدالت کا ہوتا ہے کسی جج کا نہیں، لہٰذا اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عمل درآمد پر پابندی کریں۔ یقینا ان کا موقف بالکل درست ہے ، کسی کی کیا مجال کہ ان فیصلوں سے اختلاف کرے۔ پھر سوال اٹھتا ہے کہ ’’ پارلیمنٹ اور عدالت‘‘ کن وجوہات پر آمنے سامنے کھڑی ہے۔ مملکت کا متفقہ آئین 1973ء میں موجود ہے اور ہر ادوار میں ضرورت کے مطابق اس میں ترامیم بھی کی گئیں ۔ اختلاف ان پر بھی موجود کہ کونسی جائز، کونسی ناجائز ، پارلیمنٹ چونکہ منتخب ایوان ہے اس لیے اسے آئین کی روح سے قانون سازی کا پورا اختیار ہے تاہم نکتہ فساد اس کی ’’ تشریح‘‘ ہے جیسا کہ موجودہ بحران میں کھل کر ہر چیز سامنے آ گئی۔ پارلیمنٹ نے آرٹیکل 63۔ اے کی تشریح عدالت عظمیٰ سے مانگی انہوں نے تشریح کی بجائے اسے آسان اور عام فہم بنانے کے لیے ’’ ری رائٹ‘‘ کر دیا۔ بات نکلی تو بہت دور تک پہنچی بلکہ ابھی رکی نہیں، باعث رسوائی بنتی جا رہی ہے۔’’ پارلیمنٹ ‘‘ جانتی ہے کہ اس نے جو نعرہ مستانہ لگایا کہ ایوان کی بالا دستی میں مداخلت برداشت نہیں کی جا سکتی، اس نے اپنا آئینی و قانونی حق استعمال کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں بل اور ایکٹ کی منظوری سے رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کی تو عدالت عظمیٰ نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی منظوری سے پہلے ہی حکم امتناعی جاری کر دیا۔ ایکٹ اپنی آئینی مدت اور ایوان صدر سے دو بار مسترد ہونے کے بعد قانون بھی بن گیا لیکن حکم امتناعی موجود ہے اس صورت حال میں ایک قومی سوال یہ ہے کہ بحرانی آئینی اور سیاسی دور میں ’’ من پسند فیصلہ‘‘ کسے چاہئے اور کیوں چاہیے؟ کیا یہ سب کھیل تماشا 1973ء کے آئین کے تناظر میں جائز ہے؟ اگر نہیں تو پھر کیوں کیا جا رہا ہے، آخر اس سے
کون سے اجتماعی قومی مفاد حاصل کئے جا سکیں گے۔ معاملہ اس قدر بگڑ گیا ہے کہ واضح دکھائی دے رہا ہے،’’من پسند فیصلے‘‘ صرف سیاستدان نہیں مانگ رہے ، کچھ پردہ نشین بھی ایسی ہی خواہش رکھتے ہیں؟۔ سابق سپہ سالار جنرل ( ر) باجوہ اپنی غلطیاں تسلیم کرنے کے بعد بلا قوم سے معافی مانگے، دور بلکہ بہت دور چلے گئے ہیں لیکن قومی اجتماعی نقصان کی پاداش میں انہیں برسوں نہ بھولا اور نہ ہی معاف کیا جا سکے گا، ان کی یاد آوری کے لیے میدان سیاست کے عظیم پہلوان پٹھہ باجوہ ڈاکٹرائن خان اعظم عمران خان نیازی ہی کافی ہیں، پاکستان کی تاریخ میں پہلے بھی ایک جنرل اے کے نیازی ہماری بدنامی کا باعث بن چکے ہیں لیکن یہ اس قدر پرعزم ہیں کہ قوم بہنی کے نیازی کو بھی بھول جائے گی۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جنرل محمد ایوب خان خان والد محترم گوہر ایوب خان اور دادا اعظم عمر ایوب خان نے زبردستی کے صدر پرویز مشرف تک آئین اور قانون کے ساتھ خوب کھلواڑ کیا لیکن جو کارنامے مرد حق جنرل ضیاء الحق نے انجام دئیے وہ سب پر بھاری ہیں تاہم تاریخ گواہ ہے کہ اس ساری موج مستی میں ہماری عدالت عظمیٰ بھی کسی سے پیچھے نہیں رہی، اس کی پذیرائی بھی ضروری ہے ۔ 1948ء بابائے قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناح کے انتقال کے بعد گورنر جنرل غلام محمد نے بچوں کے کھلونوں کی طرح وزرائے اعظم بدلے پھر مولوی تمیز الدین کو آئین کی یاد ستائی۔ سات سالوں کی شب و روز محنت سے مسودہ تیار ہو کر سامنے آیا تو قانون ساز اسمبلی نے وزیراعظم کی برطرفی کے اختیارات ختم کر دئیے۔ گورنر جنرل غلام محمد اور فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے ناراضگی کا اظہار کیا تو مولوی تمیز الدین سندھ ہائی کورٹ سے آئین کے
حق میں فیصلہ لینے میں کامیاب ہو گئے۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے جنرل ایوب خان نے اپنی جادو کی چھڑی گھمائی اور سینئر کی چھٹی کراتے ہوئے جونیئر جسٹس منیر کو رام کر لیا۔ پھر وہی ہوا جو طاقتوروں کا من پسند فیصلہ تھا۔ عدالت عظمیٰ نے سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔ اس ابتداء سے موجودہ انتہا تک دیکھ لیں صرف گنتی کے ججز کے فیصلے بولتے دکھائی دیں گے لیکن پذیرائی ہمیشہ من پسند فیصلوں کو ملی، بلکہ تمام آمروں کے فیصلوں کو عدالت عظمیٰ کے معزز ججوں نے ’’ نوٹری پبلک‘‘ کی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے ہر فیصلے پر مہر لگائی۔ ایک بڑا کارنامہ چیف جسٹس عزت مآب ارشاد حسن خاں نے صدر مشرف کے لیے ادا کر کے انہیں تین سالہ آزادی بخشی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی بینچ میں بہادر اور تاریخی چیف جسٹس عزت مآب افتخار محمد چودھری بھی شامل تھے۔ یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ ہماری عدلیہ کے معزز ججز نے پہلے پی۔سی۔او کے تحت حلف اٹھا کر ملازمتیں پکی کیں پھر دوسری مرتبہ بغاوت کر کے آئین ، قانون اور عدلیہ کے غازی و مجاہد اعظم بن گئے۔ قابل ذکر بات یہ ہے جسٹس ( ر) افتخار محمد چودھری کی لڑائی میں بھی اسی طرح ان کے صاحبزادے ملوث تھے جیسے ان دنوں جسٹس ( ر) ثاقب نثار کے بیٹے نجم ثاقب پائے جا رہے ہیں۔ البتہ معمولی سا فرق یہ تھا کہ لین دین، خرد برد اور پیسوں کا مسئلہ ضرور تھا لیکن ٹکٹ فروخت نہیں کی گئی تھی۔ اس دور میں جدید سہولیات ہیں اس لیے ماضی کا ’’ پانامہ کیس‘‘ فی الحال قصۂ ماضی بن گیا ہے تاہم مریم نواز شوروغوغا کر رہی ہیں کہ ایک کروڑ 20لاکھ میں ٹکٹ بیچنے والے بتائیں کہ انہیں نواز شریف کو نااہل کرنے سے کیا ملا؟ انکار اس لیے ممکن نہیں کہ ایک شخص ’’ ریٹائرمنٹ‘‘ کے بعد ’’ سوا لاکھ‘‘ کا ثابت ہو گیا، صرف مشورہ مشورہ کھیلنے میں، تو جہاں اپنے ہاتھوں سے فیصلہ لکھا گیا وہاں کیا کچھ نہیں لیا گیا ہو گا۔ مریم نواز درست کہہ رہی ہیں کہ یہ ان کا سیاسی بیان ہی وہ کہہ ضرور سکتی ہیں کیونکہ نواز شریف ان کے والد محترم ہی نہیں، قائد بھی ہیں ویسے بھی جہاں ’’ ساسوں ماں‘‘ کے ہی نہیں، شہباز شریف کو نااہل کرانے کے لیے ثاقب نثار کے مشورے عمران خان کے وکیل خواجہ احمد رحیم کے حوالے سے منظر عام پر آ چکے ہوں وہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے، یقینا یہ ’’ پارلیمنٹ اور عدلیہ‘‘ کی آئینی اور سیاسی فیکٹ ہی سہی لیکن یہ بات تو درست ہے کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہی ہیں، میں اکثر نشاندہی کرتا ہوں کہ اس محاورے میں ہمارے دوست ملک کے ممتاز شاعر مسرور انور ہمیشہ ٹوک کر اضافہ کیا کرتے تھے کہ ’’ جنگ اور محبت میں نہیں، پاکستان میں بھی سب کچھ جائز ہے۔‘‘ ان حقائق کی روشنی اور تاریخی اوراق کی موجودگی میں عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس عمر عطا بندیال سے گزارش ہے کہ آپ کے والد محترم ایف کے بندیال انتہائی عزت و احترام کے مالک تھے۔ محبت میں محض بدنامی اور سوائی کے سوا کچھ نہیں ملتا، اپنے عظیم منصب کی نگہبانی میں آئین و قانون کو بنیاد بنا کر پارلیمنٹ اور منتخب نمائندوں ہی نہیں حکومت کی فکر کریں، عہدے اور حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں اپنی اس خواہش کو پروان چڑھائیں کہ منصب کے بعد بھی آپ کو اچھے الفاظ سے یاد کیا جائے۔ جنرل ضیاء الحق نے پہلے منتخب وزیراعظم کو پھانسی دی، مولوی مشتاق کا فیصلہ تھا دونوں کا وقت آخر قابل رشک ہرگز نہیں، تاریخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ ’’ من پسند فیصلے‘‘ صرف سیاستدانوں کی خواہش نہیں، ہر طاقت ور اور صاحب منصب یہی چاہتا ہے جبکہ 1973ء کا آئین ہی نہیں، عدالت عظمیٰ کی روایات بھی صرف اور صرف آئین اور قانون کی بالادستی چاہتی ہے؟؟؟ لیکن ہم سب تو آدم زادے ہیں، فرشتے نہیں۔