Column

جس نے سب کے گھر بنائے اس کا گھر کوئی نہیں

رانا اعجاز حسین چوہان

ایک بار ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اس کے ہاتھ کھردرے اور سخت تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے پوچھا کہ محنت اور مشقت کرتے ہو، اس شخص نے بتایا کہ پہاڑوں کی چٹانیں کاٹ کر روزی کماتا ہوں۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس محنت کش کے ہاتھ چوم لیے۔ محنت کش اللہ تعالیٰ کا دوست ہے، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدور کے حقوق پر بہت زور دیا اور فرمایا کہ ’’ مزدور کی اجرت ا س کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کردی جائے‘‘۔ بلاشبہ اگر مزدور کو مزدوری وقت پر نہ ملے تو اس پر کیا بیتے گی اور اس کے گھر کا چولہا کیسے جلے گا، بقول شاعر:
نیند آئے گی بھلا کیسے اسے شام کے بعد
روٹیاں بھی نہ میسر ہوں جسے کام کے بعد
اس دور میں غریب محنت کش کے لئے رزق حلال کے دو لقمے کمانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ جبکہ محنت کش کو محنت مزدوری کے دوران جس سفاکانہ روئیے کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ محنت کشوں کا ایک طبقہ تعمیراتی کاموں، کھیتوںکھلیانوں، ورکشاپوں اور دیگر مقامات پر مشقت کرتا ہے جہاں مالکان کی جانب سے ان کے حقوق و سلامتی سے متعلق خیال تو درکنار، بلکہ ان کا بری طرح استحصال کیا جاتا ہے۔ جبکہ دوسرا طبقہ سرکاری یا پرائیویٹ اداروں، کاروباری مراکز، کارخانوں میں ملازمت کرتا ہے ، سرکاری اداروں کی صورتحال تو کچھ بہتر ہے مگر پرائیوٹ کمپنیوں اور اداروں میں کام کرنے والے ملازمین اکثر پریشان حال نظر آتے ہیں، جہاں ان سے آٹھ گھنٹے کی بجائے بارہ پندرہ گھنٹے کام لیا جاتا ہے، جبکہ تنخواہ اس قدر کم دی جاتی ہے کہ ضروریات زندگی کیلئے ناکافی ر ہے، اور وہ بھی وقت پر نہیں دی جاتی۔ اور کچھ کمپنیاں تو دو چار ماہ کے بعد تنخواہ دینا بند کر دیتی ہیں جس پر مجبوری میں ملازم بغیر تنخواہ لئے کمپنی چھوڑنے پر مجبور ہوجاتا ہے، اور وہ لیبر کورٹ میں بھی اپنے مقدمہ لیکر بھی نہیں جاسکتا ہے کیوں کہ اس کے پاس وہاں کام کرنے کا کوئی پروف اور ثبوت نہیں ہوتا۔ معاوضے کا نہ ملنا بھی کوئی اتنی بڑی بات نہیں بلکہ دل دھلانے والی بات تو یہ ہے کہ بعض اوقات غریب مزدور کی عزت نفس بھی اپنے مالکان کی غیر انسانی سلوک کی وجہ سے اتنی مجروح ہوتی ہے کہ وہ ایسی ذلت کی زندگی پر موت کو مقدم جانتے ہیں۔ بقول شاعر:
شہر میں مزدور جیسا در بدر کوئی نہیں
جس نے سب کے گھر بنائے اس کا گھر کوئی نہیں
یکم مئی کو شکاگو کے محنت کشوں کے ساتھ اظہار یکجہتی طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کی مناسبت سے ملک بھر کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں تقریبات، سیمینار، کانفرنسز اور ریلیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ملک کے مزدوروں کے حقوق کی جدوجہد کو تیز کرنے، مہنگائی و بی روزگاری کے خاتمے، قومی اداروں کی نجکاری کے خاتمے، مزدور دشمن قوانین کی منسوخی، ٹھیکیداری نظام کے خاتمے، تنخواہوں و اجرت میں اضافے سمیت مزدوروں، محنت کشوں کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لئے عملی اقدامات کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ لیکن افسوس کہ ان مزدوروں کو اس کی خبر ہی نہیں ہوتی، اور تقریبا 99فیصد مزدور اس بات سے بالکل ناواقف رہتے ہیں کہ سال میں ایک دن ایسا بھی آتا ہے جو ان کیلئے خاص ہے، ان کیلئے خوشیاں منانے کا موقع ہے، چھٹی کرکے بال بچوں کے ساتھ گزارنے کا دن ہے۔ جسے دنیا بھر میں مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتاہے۔ شاعر افضل خان نے کیا خوب کہا ہے:
لوگوں نے آرام کیا اور چھٹی پوری کی
یکم مئی کو بھی مزدوروں نے مزدوری کی
بلاشبہ ایک عام مزدور صبح مزدوری کرتا ہے تو رات کو اس کا چولہا جلتا ہے۔ آج مزدوروں کو ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ اور تعلیم صحت چھت اور روز گار کی ضمانت کی ضرورت ہے۔ مزدوروں کو ان کا جائز حق نہ ملنے کی وجہ سے حالات زندگی بہت ابتر ہیں، اور سب کے گھر بنانے والے یہ محنت کش اپنی چھت تک سے محروم ہیں۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ پاکستان مزدوروں کی خوشحالی کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا۔ حکومت کو چاہیے کہ مزدوروں کے حالات میں بہتری کے لئے اقدامات کرے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مزدوروں کی اجرت و تنخواہوں میں مناسب اضافے کے ساتھ ساتھ ملک میں روزگار کے مواقع پیدا کرکے غربت اور مہنگائی کا خاتمہ یقینی بنا نے کے اقدامات کیے جائیں تاکہ محنت کش طبقہ خوشحال ہوسکے۔

جواب دیں

Back to top button