ColumnImtiaz Ahmad Shad

زندگی میں کردار کی اہمیت .. امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

 

انسانی زندگی میں سیرت و کردار کی بڑی اہمیت ہے، جس کا کردار جس قدر بلند ہوگا وہ اُتنا ہی معتبر اور ذی وقار ہوگا۔ روز مرہ کی زندگی میں جہاں اور دیگر وسائلِ حیات ماند پڑ جاتے ہیں وہاں کردار کی بلندی کام آتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔‘‘ مطلب یہ ہے کہ لوگوں میں سب سے اچھا وہ شخص ہے جو لوگوں کے ساتھ اچھی طرح پیش آئے، جس کے اخلاق و کردار سب سے اچھے ہوں، جس کے عادات و اطوار کتاب و سنت کے مطابق ہوں، جو اپنی ذات سے کسی کو کسی بھی طرح کا تکلیف دینے والا نہ ہو۔ اور ایسا شخص اپنے حسنِ اخلاق و کردار کے ذریعہ بڑے بڑے معرکے سر کر لیتا ہے۔مدعو کو جس قدر زبان و بیان کی حلاوت، کردار کی بلندی اور اخلاق کی عمدگی سے متاثر کیا جا سکتا ہے اِس کے بالمقابل اور دیگر وسائل اُتنا زود اثر نہیں ہوتے۔ کردار کی پختگی انسانی شخصیت میں چار چاند لگا دیتی ہے اور اخلاق و کردار کی پستی شخصیت کی وجاہت کو زمیں بوس کر دیتی ہے۔ انسان کو جو عزت و سربلندی حاصل ہوتی ہے اس میں کردار کا نمایاں رول ہوتا ہے۔ آدمی دنیاوی ترقی کے منازل چاہے جس قدر طے کر لے، اوج و بلندی کے جس مقام پر بھی پہنچ جائے مگر سیرت و کردار کی درستی کے بغیر اس کی ظاہری کامیابی کی کوئی وقعت و حیثیت نہیں ہوتی۔ آدمی کا اخلاق و کردار اس کی شخصیت کی پہچان، اس کی زندگی کا قیمتی گوہر، اس کے بلند ترین حوصلوں کی تکمیل کا عمدہ ذریعہ، اس کی حقیقی حیثیت کو متعین کرنے کا بے نظیر پیمانہ ہے۔ اس لیے ہمیں اپنی شخصی وجاہت و حیثیت کو معتبر و باوقار بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہر طرح سے اپنی سیرت و کردار کو بلند کرنے کے لیے کوشاں رہیں، اخلاقی گراوٹ سے بچیں، لوگوں کے ساتھ بھلائی کریں، خندہ پیشانی سے ملیں، اپنی ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچائیں، سخت کلامی سے پرہیز کریں، مسکراہٹ اپنا شیوہ بنائیں، کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جو ہمیشہ کے لیے ہماری شخصیت میں گہن لگا دے، فواحش و منکرات کے قریب نہ جائیں، ہر طرح کی معاشرتی برائی، درشت مزاجی، بدکلامی، فحش گوئی سے دور رہتے ہوئے اِن صفات سے متصف لوگوں سے بھی ربط و تعلق نہ رکھیں۔ انسان کا کردار صرف دو چیزوں سے بگڑتا ہے: ایک زبان اور دوسرے شرمگاہ، ہر طرح کی برائی کا صدور اِنھیں دونوں کے ذریعہ سے ہوتا ہے اس لیے ان دونوں کی حفاظت انتہائی ناگزیر ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنھیں ان دونوں پر کنٹرول حاصل ہے اور وہ ان کی حفاظت کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ اگر ہم ان دونوں پر کنٹرول رکھ لیں تو ہر طرح کی برائی سے ہم بچ جائیں گے۔ زبان کے غلط استعمال اور شرمگاہ کی بے راہ روی سے بچیں تو ہماری دنیا بھی سنور جائے گی اور آخرت کی حقیقی کامیابی بھی یقینی طور پر محفوظ ہو جائے گی۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص مجھے اپنے دونوں جبڑوں کے درمیان کی چیز یعنی زبان اور اپنے دونوں پیروں کے درمیان کی چیز یعنی شرمگاہ کی ضمانت دے دے تو میں اس کے لیے جنت کی ضمانت لیتا ہوں۔‘‘ ۔انبیائے کرام علیہم السلام کی تاریخ اور ان کی قوم کے احوال کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ ہر نبی کی قوم اپنے اپنے نبیوں کو ہر ممکن طریقے سے تکلیف و اذیت دینے کی کوشش میں لگی رہی اور اس کے لیے کوئی لمحہ فروگزاشت نہیں کیا، اُنھیں مجنون پاگل دیوانہ ساحر اور مسحور جیسے برے خطابات سے نوازا مگر انبیائے کرام کی سیرت کا یہ پہلو نمایاں رہا ہے کہ وہ سیرت و کردار، خوش اخلاقی اور بلند کرداری کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز تھے، ان کی زندگی کا کوئی بھی لمحہ ایسا نہیں گزرا کہ ان سے قول و کردار میں کسی طرح کی کمی اور سقم آیا ہو، چنا چہ یہ حقیقتِ واقعہ ہے کہ لاکھ دشمنی کے باوجود قوم والوں کی طرف سے ان کی سیرت و کردار پر انگشت نمائی نہیں کی گئی۔مگر بڑے دکھ و افسوس کی بات ہے کہ اس انبیائی وصف سے ہماری اکثریت محروم نظر آرہی ہے، ہم نے عزت و آبرو کی حفاظت کو صرف خواتین کے ساتھ خاص کر لیا ہے اور مردوں کے لیے دوسرا معیار رکھتے ہیں، مردوں کی بے راہ روی چنداں مضرِ اخلاق نہیں سمجھتے، ایسا بارہا سننے میں آتا ہے کہ فلاں تو بڑی اونچی شخصیت کے مالک ہیں، علم و ہنر کا دریا ہیں انتظامی امور میں خاصا مہارت رکھتے ہیں ہاں کبھی کبھار اپنی شہوانی خواہشات سے مغلوب ہو کر بد فعلی کا شکار ہو جاتے ہیں یہ کوئی بڑی بات تھوڑی ہے۔ لعنت ہے ایسی سوچ اور ایسے رویے پر، تکلیف اس بات سے ہوتی ہے کہ اس طرح کی سوچ رکھنے والے قوم کے سربرآوردہ افراد ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آج ہم نے حصولِ دنیا کو اپنا مطمع نظر بنا لیا، ہمارے نزدیک کامیاب وہی ہے جو زیادہ سے زیادہ دنیا حاصل کر لے۔ وہی عزت دار ہے جس کا دامن مال و منال سے بھرا ہو بھلے ہی وہ بدکردار ہی کیوں نہ ہو،۔ہم نے متعددافراد کو عملاً اپنا سربراہ تسلیم کر لیا ہے جو بدکرداری میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں۔ ظاہری وضع قطع میں نظر آنے والے ہمارے بہت سے سفید پوش حسنِ اخلاق کے معاملے میں اس قدر پستی کا شکار ہوتے ہیں کہ معمولی سی معمولی بات پرطوفان برپا کر دیتے ہیں، اپنی درشت مزاجی، بدکلامی اور زبان کی سختی کو احقاقِ حق کا نام دے لیتے ہیں، متانت و سنجیدگی اور حلاوت و شیرینی تو دور کی بات سیدھے منہ بات کرنا گوارہ نہیں کرتے، بات بات پر جھڑکنے اور غیظ و غضب کے بے محابا اظہار کو اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔ اور اگر بھولے سے ہم اپنا سیرت و کردار درست اور اجول رکھتے بھی ہیں تو اپنے مفاد کی خاطر یا اپنی سادہ لوحی کی وجہ سے بدکرداروں کی پُشت پناہی اپنا لازمی وطیرہ بنا لیتے ہیں۔ حتی کہ ہمارا سماجی ڈھانچہ اور آپسی ماحول اس قدر پراگندہ ہے اور لوگوں کی ذہنیت اس حد تک بگڑ چکی ہے کہ ہمارے اس بگڑے ہوئے ماحول میں ایک بن بیاہی ماں بننے والی کنواری دوشیزہ کی عفت و عصمت اس کے جاہ و حشمت اور ظاہری وضع قطع کی وجہ سے بے داغ سمجھی جاتی ہے اور وہیں ایک عفت و عصمت کی پیکرخاتون کو اس کی غربت و افلاس کی وجہ سے اپنے رخسار پر لگے معمولی خراش کے لیے اپنی بے گناہی کا ثبوت فراہم کرنا پڑ تا ہے۔ ہمارے نزدیک وہی محبوب ہوتے ہیں جو عادی قسم کے بدکار ہوتے ہیں، اور نیک و بد کے درمیان امتیاز کا ہمارا پیمانہ صرف وضع قطع رہ گیا ہے، شخصیت کے اندر اخلاقی گرواٹ کے علاوہ کوئی اور خامی ہے تو ہم انھیں قبول نہیں کر سکتے ہیں مگر وضع قطع اگر درست ہے مالی حیثیت سے مضبوط ہے اور کاسہ لیسی کے ہنر سے بہرہ ور ہے تو پھر وہ کتنا ہی بڑا بدکار کیوں نہ ہو ہم اسے ہاتھوں ہاتھ لینے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ افسوس کہ سیرت و کردار کی درستی، اخلاق کی بلندی اور حسن اخلاق کی باتیں صرف کتابوں اور زبان و تقریر کی حد تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔

جواب دیں

Back to top button