راجہ ، کرکٹ اور سیٹھی .. روشن لعل

روشن لعل
کرکٹ بورڈ کی چیئرمین شپ سے رمیض راجہ کی سبکدوشی اور نجم سیٹھی کی تعیناتی کے بعد سوشل میڈیا پران دونوں کے حامیوں اور مخالفوں کے درمیان شروع ہونے والی لفظی جنگ میں کرکٹ کا کھیل سینڈوچ بنتا نظر آرہا ہے۔ کوئی بھی شے جب سینڈوچ بن جائے تو اس کا حال بھی دو ہاتھیوں کی لڑائی میںگھاس جیسا ہو تاہے۔ اس معاملے میں شاید پاکستانی کرکٹ کا ڈھیٹ ہونا اس کے کام آرہا ہے کہ قومی کھیل ہاکی کو تباہی کے دہانے تک پہنچانے جیسی بے شمار کارروائیوں کا شکار ہونے کے باوجود ابھی تک یہ بربادیوںکی سرحدوں سے ہے۔ بہت زیادہ ڈھیٹ ہونے کی وجہ سے چاہے ہماری کرکٹ ابھی تک بربادیوںسے دور ہے مگر پھر بھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس کا انتظام محفوظ ہاتھوں میں ہے ۔ جب نجم سیٹھی اور رمیض راجہ جیسے لوگوں کو ایک دوسرے کے متبادل کے طور پر سیاسی مقاصد کے تحت کرکٹ کی سربراہی سونپی جارہی ہو تو پھر کیسے سمجھا جاسکتا ہے کہ ہمارے ملک کا ہر دلعزیز کھیل محفوظ ہاتھوں میں ہے ۔
رمیض راجہ اگرچہ سابقہ کرکٹر ہیں اور نجم سیٹھی چاہے پہلے بھی کرکٹ بورڈ کے سربراہ رہ چکے ہیں مگرپھر بھی کوئی ذی فہم یہ نہیں مان سکتا کہ ان دونوں کے پی سی بی کا چیئرمین بنائے جانے میں ان کی کرکٹ سے وابستگی نے کوئی کردار ادا کیا۔ یہ بات زبان زد عام ہے کہ جس طرح نجم سیٹھی کو میاں نواز شریف کا خیر خواہ ہونے کی وجہ سے کرکٹ بورڈ کی سربراہی کا ایوارڈ دیا گیا اسی طرح رمیض راجہ کی عمران خان کے ساتھ وفاداری ان کے چیئرمین پی سی بی تعینات ہونے کے کام آئی تھی۔ جب کسی نے سیاسی شخصیتوں کی وفاداری اور خیر خواہی کی معیار پر پورا تر نے کے سبب کرکٹ بورڈ کے سربراہ جیسا نقد آور عہدہ حاصل کیا ہو تو پھراسے غیر معیاری طریقے سے ایسے عہدے سے ہٹائے جانے پر اخلاقی اصولوں کی دہائی نہیں دینا چاہیے ۔اگر کوئی ایسا کرتا ہوا پایا جائے تو پھر اس کی دہائی کو مضحکہ خیز ی کے علاوہ کچھ اور تصور نہیں کیا جاسکتا ۔ غیر اصولی طریقے سے کرکٹ بورڈ کی سربراہی حاصل کرنے والے اور غیر اصولی طریقے سے ہی اس عہدے سے ہٹائے جانے والے رمیض راجہ ان دنوں اسی قسم کی مضحکہ خیز دہائیاں دیتے ہوئے پائے جارہے ہیں۔ اپنی دہائیوں میں رمیض راجہ نے اس قلق کا اظہار کیا ہے کہ پی سی بی کا آئین معطل کر کے کیوں ان سے راتوں رات پی سی بی کی سربراہی چھین لی گئی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ چیئرمین پی سی بی کا عہدہ چھینتے وقت انہیں اتنی مہلت بھی نہ دی گئی کہ وہ آرام سے اپنا سامان سمیٹ سکیں۔ اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کو ملکی میڈیا پر بہت بڑی زیادتی قرار دینے والے رمیض راجہ نے حکومت کو دھمکی دی ہے کہ جو کچھ ان کے ساتھ ہوا، اسے وہ غیر ملکی فورمز اور میڈیا کے سامنے بھی بیان کریں گے۔
رمیض راجہ کی یہ بات درست ہے کہ شب خون مارتے ہوئے نہ صرف ان سے آناًفاناً چیئرمین پی سی بی کا عہدہ چھینا گیا بلکہ انہیں اپنا سامان تک سمیٹنے کی مہلت نہ دی گئی۔ رمیض راجہ کے ساتھ جو سلوک روا رکھاگیا اسے غیر مناسب کہنے کے علاوہ کوئی دوسرا نام نہیں دیا جاسکتا۔ عجیب بات ہے کہ عمومی طور پر رمیض راجہ کے ساتھ روا رکھنے جانے والے رویے کو غیر مناسب تو کہا جارہا ہے مگر غیر جانبدار سمجھے جانے والے لوگوں سے بھی انہیںوہ ہمدردی میسر نہیں آسکی جس کا وہ خود کو حقدار تصور کر رہے ہیں۔ غیر جانبدار لوگوں کیلئے رمیض راجہ شاید اس وجہ سے ہمدردی کے مستحق نہیں ہیں کیونکہ وہ خود بھی ایک عرصہ سے ناروا رویوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظر آرہے تھے۔ رمیض راجہ کے متعلق یہ بات بلا شک و شبہ کہی جاسکتی ہے کہ انہیں پی سی بی کا چیئرمین بنائے جانے میں ان کی کرکٹ کے شعبے میں مہارت نہیں بلکہ ان ٹویٹس نے اہم کردار ادا کیا تھا جن وہ
عمران خان کے سیاسی مخالفوں پر تاک تاک کر نشانے لگایا کرتے تھے۔ عمران خان کی طرف سے کرکٹ بورڈ کا چیئرمین بنائے جانے کے بعد رمیض راجہ نے ہر وہ کام کیا جس سے انہیں اس عہدے سے نوازنے والاخوش اور مطمئن ہو سکتا تھا ، رمیض راجہ کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کے طور پر عمران خان کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے جوکچھ کرتے رہے اس کو مد نظر رکھ کر آج اگر ا ن کے شکایاتی رویے کو مضحکہ خیز تصور کیا جارہا ہے تو اس پر کسی کو حیران نہیں ہونا چاہیے۔
رمیض راجہ کرکٹ بورڈ کی سربراہی سے ہٹائے جانے پر جو شکوے شکایات کر رہے ہیں ان میں ان کا نشانہ شہباز شریف حکومت کے ساتھ نجم سیٹھی بھی ہیں۔ نجم سیٹھی ابھی تک رمیض راجہ کے شکوے شکایات کا جواب دینے کی بجائے خاموش نظر آرہے ہیں۔ رمیض راجہ کے بولنے کو اگر مضحکہ خیزی کہا جارہا ہے تو کیا نجم سیٹھی کی خاموشی کو ان کی وضع داری تصور کیا جاسکتا ہے۔ نجم سیٹھی کوان کی خاموشی کو کسی طرح بھی ان کی وضع داری تصور نہیں کیا جاسکتا ۔اصل میں اس وقت وہ وضعداری میں نہیں بلکہ اس وجہ سے خاموش ہیں کیونکہ رمیض راجہ کے اعتراضات کا ان کے پاس کوئی تسلی بخش جواب نہیں ہوسکتا۔یہ بات کوئی راز نہیں کہ کرکٹ بورڈ کی سربراہی سیٹھی صاحب کو بھی قریباً اسی پس منظر کی وجہ سے ملی ہے جس پس منظر کے سبب رمیض راجہ کو حاصل ہوئی تھی۔ اس خاص پس منظر کی وجہ سے اگر رمیض راجہ کے اعتراضات کو مضحکہ خیز تصور کیا جارہا ہے تو اسی پس منظر کی نسبت سے سیٹھی صاحب کے ممکنہ جواب کو بھی مضحکہ خیزی کے علاوہ کچھ اور نہیں سمجھا جائے گا۔ شاید نجم سیٹھی اس وقت یہ سوچ کر خاموش ہیں کہ ہو سکتا ہے کچھ لوگ ان کی خاموشی کو وضع داری تصور کر لیں۔
جس راستے پر چل کر رمیض راجہ کرکٹ بورڈ کے سربراہ بنے تھے ، نجم سیٹھی ایک مختلف سمت سے اسی طرح کے منظر نامے سے آراستہ راستے سے گزر کر دوسری مرتبہ پی سی بی کے مدارالمہام بنے ہیں ۔ اس مماثلت کی وجہ سے اگر ان دونوں کو ایک دوسرے کا آئینہ کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ اگرچہ ہمارے ملک میںاہم عہدوں کیلئے مناسب اور موزوں لوگ آسانی سے دستیاب نہیں ہوتے مگر اس یہ مطلب ہر گز نہیں کہ جب رمیض راجہ کو کرکٹ بورڈ کا سربراہ بنایا گیا یا پہلے اور اب نجم سیٹھی کو پی سی بی کی سربراہی سونپتے وقت ان سے بہتر کوئی آپشن موجود نہیں تھا۔عمران خان کی وفاداری کے معیار کے تحت اگر رمیض راجہ کرکٹ بورڈ کی سربراہی حاصل کرے تو اس بات کو کسی حدتک نظر اندازکیا جاسکتا ہے لیکن اگر نجم سیٹھی جیسا دانشور تصور کیا جانے والا شخص میاں نوازشریف کی خیر خواہی کے طعنے کے باوجود پی سی بی کی چیئر میں شپ قبول کر لے تو اس مظہر کو درگزر کرنا آسان نہیں ہے۔ کوئی اور نجم سیٹھی کے اس کام سے صرف نظر کرے یا نہ کرے مگر ان کے رمیض راجہ کی طرح چیئرمین پی سی بی کا عہدہ قبول کرنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ خود بہت کچھ نظر اندازکرنا سیکھ چکے ہیں۔