جہاں پناہ کی آخری جائے پناہ .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی
ملک میں موجود اور غیر موجود سنیئر سیاست دانوں کی نئی نسل میدان سیاست میں آچکی ہے، سوائے الطاف بھائی کے، انہوں نے بچپن کے رخصت ہونے کے ساتھ ہی بچپنے کو رخصت کردیا ہوتا اور مستقل مزاجی کو گلے لگالیا ہوتا تو آج ان کی جانشینی ان کا کوئی جگر گوشہ کررہا ہوتا۔ سنیئر سیاست دان اس وقت سنیئر کہلاتے ہیں جب وہ سنیئر سٹیزن بن جاتے ہیں، جو سنیئر سٹیزن نہیں بنتے وہ جونیئر سٹیزن اور جو نیئر سیاست دانوں کی فہرست میں آتے ہیں۔ مریم نواز، حمزہ شہباز، بلاول بھٹو، مونس الٰہی، ایمل ولی خان، شاہ زین بگٹی، اویس لغاری کسی نہ کسی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوچکے ہیں، ان میں سے بعض تو وزیر بھی بن چکے اور اپنی وزارت کو کامیابی سے چلاچکے ہیں۔ اس حوالے سے نیا اضافہ بلاول بھٹو ہیں جنہوں نے وزیر خارجہ کیلئے اپنے انتخاب کو درست ثابت کردیا ہے، وہ جب سے وزیر خارجہ بنے ہیں، انہوں نے بات برائے بات اور پارٹی ورکرز کو خوش کردینے والے بیانات سے گریزکرتے ہوئے اپنی وزارت کے معاملات اور خارجہ امور پر توجہ دی ہے۔ انہوں نے کم وقت میں بہت کچھ سیکھا ہے، انہیں انگریزی تعلیم اور انگریزی زبان پر دسترس کا فائدہ ہوا ہے، انہوں نے بہت کم عرصہ میں اپنی کمزور اردو بہت بہتر بنائی ہے، اب وہ دونوں زبانوں میں بلا رُکے اپنے خیالات کا اظہار موثر طور پر کرسکتے ہیں، عملی سیاست شروع کرنے کے بعد ان کی سنجیدگی دیگر ہم عمر ، ہم عصر سیاست دانوں کیلئے ایک عمدہ مثال ہے، بالخصوص وہ جو لٹریچر، پولیٹکل سائنس یا اکنامکس کی ابجد سے بھی واقف نہیں اور سیاسی جگت بازی میں نام بناناچاہتے ہیں۔ شوق پراپرٹی اور گاڑیاں ہیں، مسلم لیگ نون کے نو آموز ترجمان عطا تارڑ کے بیان سے سخت مایوسی ہوئی جب انہوں نے کہا کہ ہم نے اور قاف لیگ کے رہنما اور وزیراعلیٰ پنجاب نے مل کر گیم کی جس سے تحریک انصاف کو نقصان ہوا۔ ملک سیاسی اور اقتصادی منجدھار میں ہے، ایسے میں اگر کسی کو گیم کی سوجھ رہی ہے تو یہ سیاسی عدم بلوغت کے سوا کچھ نہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت جانے کے بعد جونیئر سیاست دان مونس الٰہی بہت متحرک نظر آئے۔ متعدد موقعوں پر انہوں نے شٹل ڈپلومیسی کی ابتدا میں عمران خان اپنے سے بہت جونیئر سیاست دان کو اپنے سامنے بٹھاکر مذاکرات کرنے پر کچھ جُز بُز ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے اسے حالات کا جبر یا تبدیلی سمجھ کر قبول کرلیا، انہیں اندازہ ہوگیا کہ دن میں دو مرتبہ چودھری پرویز الٰہی ان کے درشن کیلئے ان کے در دولت پر حاضر نہیں دے سکتے۔ مونس الٰہی نے کہا کہ ان کے ماموں چودھری شجاعت حسین کا سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہوگیا ہے، کاش وہ میدانِ سیاست میں چودھری شجاعت حسین کی بالغ نظری، راست گوئی اور پاکستان سے محبت کو کسی اچھے انداز میں خراج تحسین پیش کرتے، وقت ایک سا نہیں رہتا، ہر ایک کا سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہوتا ہے، ہونا ضروری بھی ہے، جس کا نہیں ہوگاوہ الطاف بھائی کی طرح سیاست سے ہمیشہ کیلئے آئوٹ ہوجائے گا۔ مونس الٰہی خبر دیتے ہیں کہ چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی کے روابط بحال ہوگئے ہیں، ملکی سیاست کیلئے یہ روابط بحال ہونا بہت ضروری تھے، میری ذاتی اطلاع اور تجزیئے کے مطابق یہ روابط کبھی ٹوٹے ہی نہیں تھے، ان پر کچھ وقت کیلئے پردہ ڈال دیاگیا تھا، پردہ ڈالنے والوں کا خیال تھا کہ اس طرح کے پردے سے پردہ داروں کی عزت میں کمی نہیں آئے گی بلکہ اضافہ ہوگا، سو یہی ہوا جو اب سب کے سامنے ہے۔ اسفند یار ولی، غوث بخش باروزئی، آصف علی زرداری، نوازشریف، چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی اس وقت سنیئر ترین سیاست دان ہیں، یہ سب سیاسی رواداری پر یقین رکھتے ہیں، ان سب کی پاکستان سے محبت کے سامنے کوئی سوالیہ نشان نہیں، ان کے متناسب سیاسی رویوں سے جونیئر سیاست دانوں کو سبق سیکھنا چاہیے، آصف زرداری کو اگر مفاہمت کا بادشاہ کہا جاتا ہے تو انہوں نے ہمیشہ مفاہمت ملک اور اس میں جاری جمہوریت کی خاطر کی ہے۔ نوازشریف صاحب نے اگر وقتی طور پر میدان سیاست سے باہر جانا گوارا کیا تو یہ بھی صرف اس لیے کہ جمہوریت بچ جائے اور اس کی بساط لپیٹنے کا خواب پورا نہ ہو۔ 2018کے دھاندلی سے بھرپور انتخابات کی قلعی کھل چکی ہے، خان مخالفین کو راہ سے ہٹانے کیلئے کیا کچھ نہیں کیا گیا، ان کی اقلیت کو اکثریت میں بدل کر حکومت ان کے ہاتھ پکڑادی گئی۔ صد افسوس نہ آنکھوں میں دم تھا نہ ہاتھوں کی جنبش رک سکی، نتیجہ یہ کہ آج ایٹمی ملک پیاز، ٹماٹر خریدنے کی استطاعت نہیںرکھتا۔
جونیئر سیاست دانوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ چوبیس گھنٹوں میں سے دوگھنٹے کا وقت نکال کر سنیئر سیاست دانوں سے سیاسی ٹیوشن ضرور پڑھیں، یہ مشورہ ایک سنیئر سیاست دان کیلئے بھی ہے جو حال ہی میں حکومت سے بے دخل ہوئے ہیں۔ انہیں باجود دشمنی سے باہر نکل آنا چاہیے، وہ ماضی میں اپنی سیاسی غلطیوں اور ناکامیوں کا متعدد مرتبہ اقرار کرچکے ہیں، انہوں نے متعدد مرتبہ اپنے زمانہ اقتدار میں کہاکہ ’’اچھا ہوا ہمیں گذشتہ برسوں میں اقتدار نہیں ملا، ہماری تیاری ہی نہیں تھی، ہمیں معلوم ہی نہیں تھا کہ نظام حکومت کس طرح چلاتے ہیں‘‘ ان کے وزیر خزانہ، وزیر صحت، وزیر پانی و بجلی، وزیر قدرتی وسائل اور بعض دیگر وزرا ، انہوں نے بذریعہ فون کال بدل ڈالے۔ یہاں جنرل باجوہ کا کوئی پریشر نہ تھا، نہ ہی انہیں امریکہ نے مجبور کیا، انہوں نے انتخابات میں شکست کھانے والی دو خواتین کو وزیر مقرر کیا، اس حوالے سے بھی وہ ذمہ داری کسی اور پر نہیں ڈال سکتے، ان کی ٹیم کی کارکردگی ناقص تھی، وہ برملا اس کا اعتراف کرتے نظر آئے، ان کے زمانہ اقتدار کے ویڈیو کلپ دیکھیں تو وہ صبح شام جنرل باجوہ کی عقل و دانش، تعاون اور پروفیشنل ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے جمہوری مزاج ہونے کے قصیدے پڑھتے نظر آتے ہیں۔ اقتدار رخصت ہوتے ہی ان کا بہترین دوست آج بدترین دشمن کیسے بن گیا، ان کی تو ایک نیکی جو دراصل پوری قوم کے ساتھ بدترین دشمنی تھی، یعنی تحریک انصاف کو اقتدار دلا، وہ تو صرف اس کا احسان تاعمر نہیں چکاسکتے، پس اب یہ راگ ختم ہوجانا چاہیے، ان کا نیا راگ نسبتاً زیادہ پسند کیا جارہا ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم دوبارہ اقتدار میں آئے تو جنرل باجوہ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کریں گے، وہ اس بات کا واضح طور پر اظہار کرچکے ہیں کہ تحریک انصاف چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد لانے کے فیصلے سے پیچھے ہٹ گئی ہے۔ ان کے ممبران قومی اسمبلی نے اپنے استعفوں کے حوالے سے قومی اسمبلی جانا تھا، یہ فیصلہ بھی بدلتا نظر آرہا ہے، وہ متعدد مرتبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلی توڑنے کی تاریخیں دیتے رہے ہیں لیکن اب پنجاب کے وزیراعلیٰ کے ساتھ ساتھ صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ نے بھی انہیں مشورہ دیا ہے کہ دونوں صوبائی اسمبلیاں توڑنا اور ہاتھ سے حکومت گنوانا ان کیلئے اور پارٹی کیلئے سراسر گھاٹے کا سودا ہوگا، جس کے بعد اب وہ صرف پنجاب اسمبلی توڑنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، صوبہ خیبر پختونخوا کی اسمبلی کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ وہ جہاں پناہ کیلئے آخری پناہ کا درجہ رکھتی ہے، اسے بھی گنوادیا گیا تو پھر کہیں پناہ نہ ملے گی۔
عمران خان کو چاہیے کہ وہ سنہری جمہوری اصول کے تحت ایک قدم آگے بڑھائیں جہاں جس کا مینڈیٹ ہے وہاں اسے حق حکومت حاصل ہے، اس حق کے تحت تمام اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں اور باقی ماندہ مدت میں اپنے ملک ،اس کے ووٹرز، سپورٹرز کی خدمت کریں، ان کی زندگی آسان کرنے کیلئے بہت نہیںتو ذرا سی اپنی زندگی وقف کریں، سیاسی اور معاشی اللے تللے بند کریں، باجوہ صاحب جاچکے مگر دو بڑ ے صوبوں کی حکومت بونس ہے، آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو یہ سہولت میسر نہیں تھی۔