ColumnMazhar Ch

کرکٹ کا قبلہ ہی سدھار لیں .. مظہر چودھری

مظہر چودھری

 

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ فائنل میں انگلینڈ سے آسٹریلیا کے میدان میں ہارنے والی پاکستانی ٹیم اب اپنی ہی سرزمین پر انگلینڈ کے ہاتھوںپہلی بارتین میچوں کی ٹیسٹ سیریز میں وائٹ واش کی ہزیمت اٹھانے پر مجبور ہو چکی ہے۔اب اسے اتفاق کہیں یا جبر لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ مختلف فارمیٹ میں قومی ٹیم کا انگلینڈ کی ٹیم سے شکستوں کا سلسلہ طویل ہوتا جا رہا ہے۔ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے پہلے ہم انگلینڈ کے ہاتھوں ہوم ٹی ٹوئنٹی سیریز ہارے۔ ہوم ٹی ٹوئنٹی سیریز میں انگلینڈ کے ہاتھوں شکست کے نفسیاتی اثرات نہ صرف ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے ابتدائی دو میچز میں دیکھنے کو ملے بلکہ فائنل میں ایک بار پھر ہم انگلینڈ کے نفسیاتی دبائو میں آ گئے۔ پاکستانی شائقین کرکٹ نے ٹی ٹوئنٹی فائنل میں شکست کو اس لیے جلد فراموش کر دیا کہ ایک تو ٹی ٹوئنٹی کے عالمی میلے میں بھارت اور آسٹریلیا جیسی مضبوط ٹیموں کی موجودگی میں پاکستانی ٹیم کی فائنل تک رسائی ہی بذات خود ایک اعزاز سے کم نہیں تھی دوسرا یہ کہ سیمی فائنل میں انگلینڈ کے ہاتھوں بھارت کی عبرت ناک شکست کو دیکھتے ہوئے پاکستان مقابلہ کرتے ہوئےقدرے گریس سے ہارا۔
اب جہاں تک حالیہ ہوم ٹیسٹ سیریز میں انگلینڈ کے ہاتھوں شکست کی بات ہے تو یہ ہر لحاظ سے بدترین اور شرمندہ کرنے والی شکست ہے۔نہ صرف یہ کہ پاکستان انگلینڈ کے خلاف پہلی بار ہوم سیریز میں وائٹ واش ہوا ہے بل کہ اسے تاریخ میں پہلی بار اپنے ہوم گرائونڈز پر مسلسل چار میچز میں شکست سے دو چار ہونا پڑا ہے۔اس وائٹ واش سے ہونے والی تاریخی ہزیمت کو اس طرح بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ حالیہ سیریز سے قبل انگلش ٹیم اپنی تمام تاریخ میں پاکستانی سرزمین پر فقط دو ٹیسٹ میچز میں کامیابی حاصل کر پائی تھی لیکن تین ہفتے سے بھی قبل مدت میں انگلینڈ ٹیم پاکستان میں مسلسل تین ٹیسٹ میچز جیت کرایک نئی تاریخ رقم کر گئی۔اگرچہ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پوری سیریز میں شاہین شاہ آفریدی کی عدم دستیابی کے باعث کپتان بابر اعظم اپنے اہم ترین ہتھیار سے محروم تھے لیکن سیریز کے پہلے میچ میں نسیم شاہ اور حارث روف کی دستیابی کے باوجود وہ میچ کا نتیجہ اپنے حق میں کرنے یا کم ازکم شکست سے بچنے میں بھی کامیاب نہ ہو سکے۔پہلے ٹیسٹ کے پہلے روز نسیم شاہ اور حارث روف کی موجودگی میں انگلینڈ کے بلے بازوں نے ساڑھے چھ سے زائد کی رن ریٹ سے 506رنز بنا ڈالے۔واضح رہے کہ پہلے ٹیسٹ کے پہلے روز نہ صرف زیادہ سے زیادہ رنز بنانے کا 112سالہ ریکارڈ توڑا گیا بلکہ پہلے ہی روز انگلینڈ کے چار بلے بازوں کی جانب سے سینچریاں بنانے سمیت نصف درجن نئے ریکارڈز قائم ہوئے ۔
پوری ٹیسٹ سیریز میں کسی بھی موقع پر ایسے نہیں لگا کہ پاکستان ہوم سیریز کھیل رہا ہے، ہاں البتہ ایسا کئی مواقع پر محسوس ہوا جیسے ہم ہوم سیریز کی بجائے انگلینڈ ،آسٹریلیا یا جنوبی افریقہ کی کنڈیشنز میں کھیل رہے ہوں۔عام طور پر ہوم ٹیسٹ سیریز میں ٹیمیں ایک دو میچز جیتنے یا کم از کم ڈرا کرانے میں کامیاب ہو ہی جاتی ہیں لیکن پاکستانی ٹیم کسی بھی میچ میں مخالف ٹیم کو دبائو میں لانے میں بھی کامیاب نہ ہو سکی۔پہلے ٹیسٹ میں انگلش بلے بازوں کی جارحانہ بلے بازی نے جہاں شائقین کرکٹ کومحظوظ کیا وہیں انگلش کپتان بین سٹوکس کی دیدہ دلیری سے دوسری اننگز کو ڈکلیئر کرنے کے فیصلے نے بھی سب کو حیران کر دیا۔سٹوکس نے میچ کو نتیجہ خیز بنانے کیلئے دوسری اننگز کو چوتھے دن چائے کے وقفے پر ڈکلیئر کیا تو کرکٹ کے کچھ تجزیہ نگاروں نے انگلش کپتان کے اس دلیرانہ فیصلے کو غیر داشمندانہ بھی قرار دیالیکن پاکستانی ٹیم آسانی سے جیتا جانے والا میچ بھی نہ جیت پائی۔دوسرے ٹیسٹ میں بھی پاکستان کو جیت کا سنہری موقع ملالیکن کچھ سعود شکیل کے متنازعہ آئوٹ اور کچھ پاکستانی بلے بازوں کے غیر ضروری شاٹس کی نذر ہو گیا۔دوسرے ٹیسٹ میں پاکستانی بولنگ سائیڈ خاص طور پر مسٹری سپنر ابرار احمد کی شان دار بولنگ کے باعث انگلینڈ کی ٹیم دونوں اننگز میں سے ایک میں بھی تین سو رنز نہ بنا سکی لیکن پہلی اننگز میں پاکستانی بلے بازوں کے مایوس کن کھیل کے باعث پاکستان 79رنز کے خسارے میں چلا گیا۔واضح رہے کہ انگلینڈ نے پہلی اننگز میں صرف281رنز بنائے تھے۔
دیکھا جائے تو پاکستانی ٹیم میں پروفیشنلزم کی شدید کمی ہے۔ایک طرف ٹیم آفیشلز سمیت کئی کھلاڑیوں کی جانب سے شکست کو مشیت ایزدی قرار دیا جاتا ہے تو دوسری جانب وکٹ کیپر بلے باز رضوان کھیل میں بہتری لانے کی بجائے تبلیغ پر زیادہ فوکس کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ٹیسٹ کرکٹ میں رضوان نے ایک درجن سے زائد اننگز کھیل کر ایک بھی ففٹی نہیں بنائی لیکن اسے ٹیم سے ڈراپ کیے جانے کا کوئی ڈر نہیں۔ جہاں تک کپتان بابر اعظم کی بات ہے تو بلا شبہ ٹیسٹ میں ان کے رنز بنانے کی اوسط کافی بہتر ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انتہائی اہم مواقع اور شدید ضرورت کے وقت بابر اعظم وکٹ پرلمبا عرصہ ٹھہر نے اور قابل ذکر اننگز کھیلنے میں ناکام رہتے ہیں۔حالیہ ٹیسٹ سیریز کی دو سے تین اننگز میں بابر اعظم وکٹ پر لمبا عرصہ ٹھہر جاتے تو پاکستان کم از کم دو میچز جیت سکتا تھا۔
زیادہ تر اننگز میں ان کے آئوٹ ہونے کے بعد ٹیم ریت کی دیوار ثابت ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ جہاں تک بابر کی ٹیسٹ کپتانی کا تعلق ہے تو معذرت کے ساتھ حالیہ سیریز سمیت کسی بھی سیریز میں انہوں نے متاثر کن کپتانی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ بہتر یہی ہے کہ بابر اعظم خود ہی جلد یہ بات سمجھ لیں کہ ضروری نہیں کہ ہر اچھا بلے باز اچھا کپتان بھی ثابت ہو۔جے روٹ اور ویرات کوہلی سمیت کئی ایک ورلڈ کلاس بلے باز کامیاب کپتان ثابت نہیں ہو سکے۔ المیہ یہ ہے کہ ہم نے محمد حفیظ اور شعیب ملک جیسے سنیئر اور تجربہ کار کھلاڑیوں کو فارغ کرنے میں کچھ زیادہ ہی جلد بازی کا مظاہرہ کیا ہے۔اظہر علی کی ریٹائرمنٹ کے بعد ٹیسٹ ٹیم میں تجربہ کار کھلاڑیوں کی شدید کمی دکھائی دے رہی ہے۔ پی سی بی چئیرمین کے طور پر رمیز راجہ بھی کوئی مثبت تبدیلی لانے میں ناکام رہے ہیں۔رمیز راجہ نے پی سی بی کی سربراہی سنبھالتے ہوئے قومی کرکٹ کی اپروچ میں انقلاب لانے کے دعوے کیے تھے لیکن ان کے دور میں کسی قسم کی بہتری کی بجائے تنزلی ہی سامنے آئی ہے۔ ارباب اقتدار سے گذارش ہے کہ آپ سے معیشت سمیت دیگر معاملات نہیں سنبھل رہے تو کم ازکم کرکٹ کا قبلہ ہی سدھارنے کیلئے کوئی سنجیدہ اقدامات اٹھالیں۔ متبادل قیادت کے فقدان کی وجہ سے فوری طور پر کپتان کی تبدیلی ممکن نہیں تو پی سی بی چیئرمین کو ہی تبدیل کر دیں۔ شاید اس تبدیلی سے ہی کرکٹ ٹیم میں کچھ بہتری آ جائے۔

جواب دیں

Back to top button