یقینی و غیر یقینی .. محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار
نیوٹن کے مطابق ہر عمل کا رد عمل ہوتا ہے جو برابر لیکن مخالف سمت میں ہوتا ہے،ایسی ہی صورتحال عمران خان کے سترہ دسمبر کی تقریر کے بعد دیکھنے کو مل رہی ہے ۔ نامکمل رجیم چینج آپریشن کے بعد حکومت اور اس کے اتحادی مسلسل عمران خان کو انگیخت کرتے رہے ہیں کہ اگر عمران خان کو عام انتخابات درکار ہیں تو وہ اپنی دو صوبائی حکومتیں توڑ کر ان کی راہ ہموار کریں،اگر عمران خان صوبائی حکومتیں ختم کرتے ہیں تو وفاقی حکومت فوری انتخابات کا اعلان کر دے گی۔ دوسری طرف رجیم چینج منصوبہ کامیاب کروانے کیلئے، عمران خان پر مسلسل مقدمات قائم کئے جا رہے ہیں، کردار کشی کی جا رہی ہے اور قاتلانہ حملہ تک کروایا گیا ہے اور بدقسمتی سے مسلم لیگ نون کے وہ کارکنان جو کل تک مرحومہ کلثوم نواز کی بیماری کو بہانہ کہنے پر تحریک انصاف کے کارکنان سے لڑتے تھے،اس قاتلانہ حملہ پر انتہائی رکیک جملہ بازی کرتے نظر آتے ہیں۔ افسوس صد افسوس کہ ہماری سیاسی تربیت اس قدر ناقص ہے کہ جو بات اپنے لیے غلط ہے وہی بات فریق مخالف کیلئے بالکل صحیح اور اسی طرح خواتین کے حوالے سے یہ دہرا مگر بدصورت و بدنما معیار ڈھٹائی سے قائم ہے۔حیرت تو اس بات پر ہے کہ وفاقی حکومت ایک طرف تحریک انصاف کو صوبائی حکومتیں توڑنے پر اکساتی رہی ہے لیکن قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے اراکین کے استعفیٰ منظور کرنے میں قانونی موشگافیوں کا سہارا لیا جاتا ہے کہ تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی میڈیا پر ببانگ دہل مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہیں لیکن سپیکر قومی اسمبلی کو ہر رکن کا بالمشافہ استعفیٰ درکار ہے۔کیا ریاستوں میں ایسے سنجیدہ مسائل کیلئے اس طرح کے
قوانین کی کوئی گنجائش ہونی چاہئے؟ سترہ دسمبر کو صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے کے اعلان کے ساتھ ہی ،تحریک انصاف کے نائب صدر شاہ محمود قریشی نے سپیکر قومی اسمبلی کو بذریعہ خط اپنے استعفوں کی منظوری کاوقت مانگا ،تو قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کر دیا گیا،کیا اس کو کسی بھی طور سنجیدہ سیاست کہا جا سکتا ہے یا اس کو بازی گری کا نام دیا جائے؟بہرکیف صدر پاکستان عارف علوی نے آج کے دن (تادم تحریر)اسمبلی کا اجلاس طلب کر رکھا ہے، جس میں ممکنہ طور پر تحریک انصاف کے اراکین باضابطہ طور پر اس قانون کی پاسداری کرتے ہوئے سپیکر قومی اسمبلی کے سامنے پیش ہو کر اپنے مستعفی ہونے کی تصدیق کریں گے۔ کیا سپیکر قومی اسمبلی کو اس اقرار کو تسلیم کرنے کوئی قباحت ہو گی یا وہ بعینہ انفرادی طور پر ہر رکن اسمبلی کو اپنے چیمبر میں بلوا کر،اس کے استعفیٰ کی تصدیق کریں گے؟بہرکیف یہ معاملہ بھی اب تک واضح ہو چکا ہو گا اور آدھی سے زیادہ قومی اسمبلی مستعفی ہو چکی ہوگی،کیا اس کے بعد ضمنی انتخابات کروائے جائیں گے یا پوری قومی اسمبلی کا انتخاب دوبارہ کروانے کو ترجیح دی جائے گی؟
عمران خان کے صوبائی اسمبلیوں کے تحلیل کرنے کا اعلان کسی بھی صورت رجیم چینج آپریشن سے مطابقت نہیں رکھتا او رنہ ہی مستعفی مقتدر شخصیت کے منصوبے کے مطابق ہے،خیر منصوبے کی ایک شق مدن ملازمت میں توسیع تو پہلے ہی ناکام ہو چکی ہے، لہٰذایوں محسوس ہوتا ہے کہ مستعفی ہونے کے باوجود، اثرورسوخ موجود ہے۔ جس کا اظہار پنجاب کے وزیر اعلی چوہدری پرویز الہی کے دھواں دھار انٹرویو میں ہو چکا ہے اور اس وقت میڈیا پر چودھری پرویز الٰہی کے انٹرویوز پر ہی بحث جاری ہے۔ ان انٹرویوز کے بعد یہ خیال ،موہوم امیدپیدا ہوتی نظر آئی کہ ممکنہ طور پر پی ٹی آئی اور قاف لیگ (چودھری پرویز الٰہی) کے درمیان اختلافات سے مفادات کشید کئے جا سکتے ہیں۔لہٰذا حکومت ابھی تک اس کوشش میں ہے کہ کسی طرح پنجاب کی صوبائی حکومت کو قائم رکھا جائے، اس کیلئے جو بھی اقدامات لیے جا سکتے ہیں،ان پر مسلسل کام جاری ہے۔چودھری شجاعت سے رابطے ہوں یا گورنر ہاؤس میں ملاقاتیں یا زرداری کی لاہور یاترا،کوئی بھی سبیل کارآمد ہوتی نظر نہیں آرہی کہ عمران خان نے ایک بار ان امیدوں کو تعبیر میں تبدیل ہونے سے قبل ہی یہ کہہ کر راکھ کے ڈھیر میں بدل دیا کہ پی ٹی آئی اور قاف لیگ دو اتحادی جماعتیں ہیں اور ضروری نہیں کہ ان کی تمام معاملات پر رائے یکساں ہو۔ قاف لیگ کی اپنی سیاست ہے اور تحریک انصاف کی اپنی سیاست ہے اور دونوں سیاسی جماعتیں ،اپنے منشور کے مطابق روبہ کار ہیں،اس لیے ایسے اختلافات کی بنیاد پر اتحاد ختم نہیں ہو سکتااور اہم بات یہ ہے کہ
قاف لیگ کی آئندہ سیاست تحریک انصاف کے ساتھ ہی وابستہ ہے۔چودھری پرویز الٰہی کا جنرل(ر)باجوہ کے متعلق بیان ،ان کی ذاتی مجبوری یا تعلقات کے باعث ہو سکتا ہے لیکن تحریک انصاف جنرل باجوہ پر تنقید کرنے کا اپنا حق رکھتی ہے،جو اس اتحاد پر اثر انداز نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستانی اس حقیقت سے بخوبی واقف ہو چکے ہیں کہ سترہ دسمبر کی تقریر کے بعد،چودھری پرویز الٰہی کو طویل ترین قون کال کی گئی جس کے بعد انہیں فوری طور عمران خان کی رائے کے خلاف جا کر انٹرویو دینا پڑا،ویسے حقیقت تو یہ ہے کہ درون خانہ سب سیاستدان اس حقیقت کا اعتراف کر رہے ہیں کہ جنرل باجوہ بہرطور کسی نہ کسی طرح سیاست میں مداخلت کرتے رہے ہیں۔ یہاں دلچسپ صورتحال یوں بنتی ہے کہ حامد میر نے ایک موقع پر زرداری اور شہباز شریف سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس راز سے پردہ اٹھا دیں کہ ان کے ساتھ کیا گفتگو ہوتی رہی ہے جبکہ جنرل باجوہ عمران خان کے مؤقف کے برعکس اراکین اسمبلی کو عمران خان کاساتھ دینے کا کہتے رہے ہیں۔حامد میر باخبر شخصیت ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ جب جنرل باجوہ اراکین اسمبلی کو عمران کا ساتھ دینے کا کہتے رہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اراکین پی ڈی ایم کے ساتھ گئے؟بقول حامد میرکہ ان اراکین اسمبلی کا کہنا ہے کہ جنرل باجوہ کے کہنے قبل ہی یہ اراکین میڈیا میں پی ڈی ایم کا ساتھ دینے کا اعلان کر چکے تھے،یہاں عمران خان کا مؤقف کہ جنرل باجوہ ڈبل گیم کر رہے تھے،ثابت نہیں ہو جاتا؟
بہرکیف صورتحال جو بھی رہی تھی لیکن اس وقت ان حقائق کی بنیاد پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ سیاستدانوں کو منقسم رکھنے میں ہی مقتدر شخصیت کا کھیل قائم رہا ہے لیکن کیا یہ کھیل اسی طرح مستقبل میں بھی قائم رکھا جا سکتا ہے یا اس کھیل سے پاکستان کے مفادات حاصل کئے جا سکیں گے یا پاکستان ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکے گا؟ماضی پر نظر دوڑائیں تو اس کھیل کو للکارنے والا بھٹو پھانسی جھول چکا ہے جبکہ بعد ازاں سیاستدان صرف دھاڑنے والے شیر ثابت ہو رہے ہیں،سامنے کھڑے ہونے سے کتراتے نظر آتے ہیں، سخت حالات سے گھبرا کر پاکستانیوں کو ابتلاء میں تنہا چھوڑ جاتے ہیں یا موقع کی تاک میں رہتے ہوئے دوبارہ اقتدار میںآنے کے منتظر نظر آتے ہیں۔ عمران خان بہرحال پاکستان میں ،پاکستانیوں کے ساتھ کھڑ ا نظر آتا ہے اور عمران کی اس ادا نے پاکستانیوں کو اس کا گرویدہ کر رکھا ہے اور وہ اس کے ہم قدم نظر آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر عمران خان کشتیاں جلا کر یہاں تک پہنچا ہے تو کسی حد تک اس کے اتحادی بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا کررہے ہیں کہ مستقبل کا سیاسی نقشہ دونوں مل کر ہی کھینچ سکتے ہیں،تاہم قاف لیگ کا آئندہ انتخابات کے حوالے نشستوں کا مطالبہ قدرے خیر حقیقی نظر آتا ہے لیکن غیر فطری نہیں۔ دوسری طرف عمران خان جو اس نظام کی تبدیلی کے خواہاں ہیں،اس وقت تن تنہا بھی شفاف انتخابی میدان میں اترے تو یقینی طور پر اتنی نشستیں حاصل کر سکتا ہے کہ نظام کو تبدیل کرسکے لیکن عمران خان موجودہ صورتحال میں اس کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے اتحادیوں سے کلی طور پر منہ بھی نہیں موڑ سکتا لہٰذا اسے اپنے اتحادی کو مطمئن کرنا ہو گا۔رہی بات صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل، کل تک اس کا یقینی یا غیر یقینی ہو جانا بھی واضح ہو جائیگا اور اگر صوبائی اسمبلیاںتحلیل ہو جاتی ہیں تو امید کی جا سکتی ہے کہ غیر یقینی کے بادل بھی یقینی چھٹ جائیں گے۔